معاف کریں، معافی مانگیں
تحریر ۔۔۔۔۔۔۔۔ قاسم علی شاہ
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ معاف کریں، معافی مانگیں۔۔۔ تحریر ۔۔۔۔ قاسم علی شاہ)رات کے کھانے کے بعد پال کوہلر بیوی کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھا کہ اتنے میں گھر کا دروازہ بجا۔ پال نے دروازہ کھولا تو باہر چار آدمی کھڑے تھے جو پلک جھپکتے میں پال پر حملہ آور ہوئے اور اسے زمین پر گرا دیا جس کی وجہ سے پال کو کئی چوٹیں آئیں لیکن وہ مزاحمت کر رہا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ یہ جاننا چاہ رہا تھا کہ اجنبی افراد نے اس پر حملہ کیوں کیا ہے؟حملہ آور بار بار پیسوں کا مطالبہ کر رہے تھے جس کا پال کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ ہاتھا پائی کی وجہ سے شور پیدا ہوگیا تو دوسری منزل پر موجود پال کی بیٹی گھبرا گئی۔ اس نے نیچے آکر دیکھا، اس کا باپ چند لوگوں کے چنگل میں بری طرح پھنسا ہوا تھا۔اس نے فوراً ایمرجنسی نمبرملایا اورکچھ ہی دیر میں پولیس پہنچ گئی جس کی وجہ سے پال مزیدزخمی ہونے سے بچ گیا۔حملہ آور پکڑے گئے لیکن اس واقعہ نے پال اورا س کے خاندان پرشدید اثرات چھوڑے۔سال بعد مقامی انتظامیہ نے پال سے رابطہ کیا اوربتایا کہ حملہ آور آپ سے بات کرناچاہتے ہیں۔ اگلے دن پال کوہلر بیوی اور بیٹی سمیت جیل پہنچ گیا۔وہاں ایک حملہ آور موجود تھا، باقی لوگوں کا ریکارڈ کافی خراب تھا جس کی وجہ سے جیل انتظامیہ نے انھیں سخت سزاسنائی تھی۔گفت گو کے دورا ن پال کوہلر نے ڈاکو سے پوچھا کہ تم نے مجھ پر حملہ کیوں کیا۔ڈاکوبولا:”دراصل ہمیں غلط اطلاع ملی تھی جس کی وجہ سے آپ حملے کاشکار ہوگئے۔میں اس فعل پر شرمند ہ ہوں اور آپ سے معافی کا طلب گارہوں۔“پال نے ڈاکو کی آنکھوں میں دیکھا، واضح محسوس ہورہاتھا کہ سزا ملنے کے بعد اس کی سوچ میں تبدیلی آئی ہے اور وہ کافی شرمسار ہے۔پال نے اس سے پوچھا کہ اب تم کیاکروگے؟ڈاکو بولا:”میں نے جو غلطی کی ہے اس پرمجھے بے حد افسوس ہے۔اس کاازالہ یہ ہے کہ میں قید میں رہ کر اپنی تعلیم مکمل کروں گااور اپنی عادات بہتر بناؤں گا۔“پال نے حملہ آور کومعاف کیااورمسکراتے ہوئے وہاں سے نکل آیا۔اس معافی نے انھیں بھرپور فائدہ دیا۔پال کی بیٹی کے دماغ میں یہ واقعہ عفریت کی شکل اختیار کرچکا تھا جو اسے بار بارڈرارہا تھالیکن اب اس کی ذہنی حالت بہتر ہوناشروع ہوگئی اور اس کے ساتھ ساتھ پال کی بے چینی بھی ختم ہوگئی جس کی وجہ سے وہ زندگی میں نئے انداز سے آگے بڑھنے لگا۔
اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ زندگی میں تکلیف کے بغیر راحت مل جائے گی تو یہ آپ کی بھول ہے۔غم اور خوشی سکے کے دورُخ ہیں جن سے مل کر زندگی بنتی ہے۔ہمیں خوشیوں کے بے شمار مواقع ملتے ہیں لیکن کئی باراذیت کی چکی سے بھی گزرنا پڑتاہے۔زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پرہم نقصا ن اٹھاتے ہیں۔راہِ حیات پر چلتے چلتے اچانک ہم کسی حادثے کا شکا رہوجاتے ہیں یاہم کسی شخص کے ساتھ معاملہ شروع کرتے ہیں اور کچھ دنوں بعد معلوم ہوتاہے کہ وہ انسان ٹھیک نہیں تھا، وہ ہمیں مالی یا جذباتی تکلیف دے دیتاہے۔اب ایسے میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ اس شخص سے انتقام لیناچاہیے یا پھر اس کابہترین متبادل بھی موجود ہے؟
دین اسلام میں بدلہ لینے کی گنجائش موجود ہے۔آپ کو کسی نے جانی یامالی نقصان پہنچایا تو آپ کو یہ حق حاصل ہے کہ ظلم کے مطابق اس سے بدلہ لے لیں۔ قصاص اور دیت کا قانون اس کاثبوت ہے لیکن معاف کرنااورمعافی مانگناایسا رویہ ہے جس کی وجہ سے آپ کودینی اور دنیاوی فوائدحاصل ہوتے ہیں۔
آج کی تحریر میں ہم اس بات پرروشنی ڈالیں گے کہ اگرہمارے ہاتھ سے کسی کونقصان پہنچے تو کیا کرنا چاہیے؟
پہلا کام
معذرت کریں اور اپنی غلطی تسلیم کریں۔
معذرت کرنے سے دوسرے انسان کی نظروں میں آپ کی عظمت بڑھ جائے گی۔عقل مند کہتے ہیں کہ جب غلطی کرنے میں شرم نہ ہو تومعافی مانگنے میں بھی شرم نہیں کرنی چاہیے۔جب انسان اپنی اناپرقابو پاکر خود کوقصور وار ٹھہراتا ہے اور دوسرے فرد سے معافی مانگتاہے تویہ قدم اس کے لیے مفید ثابت ہوتاہے۔
معافی مانگنادراصل اس بات کا اعلان ہے کہ میں خراب تعلقات کو بہتر کرناچاہتاہوں۔معافی مانگنے کامطلب یہ بھی ہے کہ آپ دوسرے فرد کا احترام کرتے ہیں اور اس کے جذبات کی قدر کرتے ہیں چنانچہ متاثرہ شخص کے دل میں نرمی پیدا ہوجاتی ہے اور وہ تعلقات درست کرنے کے لیے آمادہ ہوجاتاہے۔ایسا بھی ممکن ہے کہ معافی مانگنے کے بعد آپ کے تعلقات پہلے سے زیادہ بہتر ہوجائیں اور آپ دونوں ایک دوسرے پر بھرپور اعتماد کرنے لگے۔
معافی مانگنے سے نہ صرف قصور وار بلکہ متاثرہ فرد بھی جذباتی طورپر مطمئن ہوجاتاہے۔غلطی کرنے والا معذرت کے ذریعے اپنے پچھتاوے کو ختم کردیتاہے جب کہ معاف کردینے سے متاثرہ فرد کے زخم مندمل ہوجاتے ہیں اوراس کا دل صاف ہوجاتاہے۔
معافی مانگنے کاایک فائدہ یہ ہے کہ اس کی بدولت فریقین کے درمیان بات چیت کابہترین راستہ کھل جاتاہے۔دونوں ایک دوسرے کو سمجھ جاتے ہیں کہ کس سے کہاں پر غلطی ہوئی اور آئندہ اس سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔جس کی بدولت دونوں کاتعلق بہتر اوربھروسامضبوط ہوتاہے۔
ہمیں یہ بات یادرکھنی چاہیے کہ جو شخص اپنی غلطی تسلیم کرتاہے دراصل وہ اپنی ذات کو بہتر بناناچاہتاہے۔معذرت کرنے سے اس کی شخصی ترقی شروع ہوجاتی ہے۔وہ ایسی عادتیں چھوڑدیتاہے جودوسروں کے لیے نقصان کا باعث بنتی ہیں۔وہ موثر اور نفع بخش انسان بنتاہے۔
معافی مانگنابہت سے تنازعات کو ختم کردیتاہے۔بڑے سے بڑاجرم ہی کیوں نہ ہوجب قصور وار تسلیم کرلیتاہے کہ ہاں مجھ سے غلطی ہوئی تھی تو اس کی بدولت مسئلے کابہترین حل نکالاجاسکتاہے۔اس عمل سے معاشرے میں لڑائی جھگڑ ے کم ہوتے ہیں اور ہم آہنگی کی فضا قائم ہوتی ہے۔
دوسراکام
Compensation(تلافی) کریں۔مطلب یہ ہے کہ آپ کی وجہ سے کسی فرد کو نقصان پہنچا ہے تو اب اس کا ازالہ کردیں۔
آپ گاڑی چلارہے تھے اورغلطی سے موٹرسائیکل سوارکو ٹکر ماردی، جس کی وجہ سے موٹرسائیکل والاجانی نقصان سے تو بچ گیا لیکن اس کی موٹرسائیکل خراب ہوگئی۔اس موقع پر آپ کا فرض بنتاہے کہ گاڑی سے اتر کر اس شخص سے معافی مانگیں اور اپنی غلطی تسلیم کریں۔لیکن صرف معذرت کرکے جان نہ چھڑائیں بلکہ اس کی موٹر سائیکل کوجو نقصان پہنچاہے، اس کی مرمت کا بندوبست بھی کردیں۔
فرض کریں کہ آپ کمپنی کے چیئرمین ہیں، آپ نے کسی فردکوملازمت دی لیکن کچھ عرصے بعد معلوم ہوا کہ وہ غیر مستقل مزاج ہے اوروقت پر کام مکمل نہیں کرتاتو اب اسے اچانک رخصت نہ کریں بلکہ ہوسکے تو اس کے لیے کسی اور جگہ روزگارکا بندوبست کردیں یا پھرجاتے وقت اسے اتنااعزازیہ(رقم) ضرور دیں کہ وہ دو چارمہینے معاش کی فکر سے آزاد ہوکر اپنے لیے نیا کام ڈھونڈ سکے۔
Compensation
کے بعد اس شخص سے رابطہ قائم رکھیں۔جس شخص کے ساتھ آپ کے معاملات نہیں چل سکے، اس کے باوجود بھی اس کے ساتھ تعلق بحال رکھیں تاکہ بدگمانی پید ا نہ ہو۔بعض لوگ تعلق ختم ہونے کے بعد احسان تو کردیتے ہیں لیکن اس کے بعد سنگ دل بن جاتے ہیں۔آپ اس معاملے میں بے رحم بننے سے پرہیز کریں۔یہ چیز آپ کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوگی۔کیوں کہ اس صورت میں وہ شخص آپ کااحسان بھلادے گا اورانتہائی سطح پرجاکر آپ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گا۔
سمجھ دارانسان ہمیشہ دوسروں کوگنجائش دیتاہے۔وہ خود کو اذیت ناک نہیں بناتابلکہ تعلق میں ایک کھڑکی ہمیشہ کھلی رکھتاہے تاکہ گھٹن پیدا نہ ہو اور دل میں بدگمانی جنم نہ لے۔وہ کسی کو بے بس نہیں کرتا،کیوں کہ بے بس بنانے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے لیے بدترین دشمن پیداکررہے ہیں۔شیخ سعدی ؒ فرماتے ہیں کہ بلی مارنے لگو تو روشن دان کھلا چھوڑدو تاکہ وہ بھاگ سکے ورنہ وہ شیر بن کر آپ پر حملہ آورہوجائے گی۔
تیسرا کام
غلطی سے سیکھیں اور اس سبق کو زندگی بھر کے لیے یادرکھیں کیوں کہ ٹھوکر کھانے کے باوجود بھی احتیاط نہ کرنے والاشخص بے وقوف ہے۔
غلطی تسلیم کرنے والے فرد کی شخصیت بہترہوناشروع ہوجاتی ہے۔اس کی سوچ وسیع اوررویے میں لچک آجاتی ہے۔وہ اپنے افعال پرغورکرتاہے اور مستقبل میں ایسی غلطیوں سے اجتناب کرتاہے۔
غلطی تسلیم کرنے کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس کی بدولت انسان کی تجزیاتی صلاحیت بہتر ہوجاتی ہے۔اسے معلوم ہوجاتاہے کہ مجھ سے کہاں کہاں غلطی ہوئی۔اس چیز کی بدولت وہ درست فیصلے کرتاہے اور بہترین نتائج پاتاہے۔
غلطی تسلیم کرلینے سے آپ زندگی میں آنے والی مشکلات اور رکاوٹوں کو بہتر انداز میں حل کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔کیوں کہ آپ یہ بات جان جاتے ہیں کہ کون سی چیز کہاں کام کرتی ہے اور کہاں بے کار رہتی ہے۔
یہ عادت آپ کی پیشہ ورانہ زندگی میں مفید ثابت ہوتی ہے۔اداروں کے سربراہان ایسے افراد کو پسند کرتے ہیں جو اپنی غلطیاں تسلیم کرتے ہیں، ان سے سیکھتے ہیں اور کارکردگی میں بہتری لاتے ہیں۔اس کی بدولت آپ کے اعتماد میں بھرپور اضافہ ہوتاہے۔
یاد رکھیں کہ دنیا بہت وسیع ہے۔ اس میں بے شمار مواقع اور ممکنات موجود ہیں لیکن ان سے صرف وہ شخص فائدہ اٹھا سکتا ہے جو عاجز ہو اور جس میں قبول کرنے کی صلاحیت موجود ہو۔متکبر انسان کو اپنی انالے ڈوبتی ہے جب کہ انکساری کا مظاہر ہ کرنے والا اپنی غلطیاں تسلیم کرتا ہے، ان سے سیکھتا ہے، معافی مانگنے میں شرم محسوس نہیں کرتا، دوسروں کو بھرپور عزت و احترام دیتا ہے اور اسی وجہ سے اس کے سامنے ترقی کے بے شمار دروازے کھلتے ہیں۔
آپ بھی معاف کیجیے، اور معافی مانگیے۔ پرسکون، مطمئن اور خوش حال زندگی کا راز اسی میں ہے۔