Daily Roshni News

معراج محبوب خدا ﷺ۔۔۔تحریر۔۔۔۔سید علی جیلانی

معراج محبوب خدا ﷺ

تحریر۔۔۔۔سید علی جیلانی

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔۔ معراج محبوب خدا ﷺ۔۔۔ تحریر۔۔۔۔سید علی جیلانی)ہجرت مدینہ سے ایک سال پہلے کی بات ہے جب محبوب خدا سرور کائنات ﷺ ایک رات خواب استراحت فرما رہے تھے کہ رب کعبہ نے جبرائیل امین کو مخاطب کیا اور حکم دیا کہ میں اپنے محبوب سے ملنے کا مشتاق ہوں جا جنت میں براق کو لو اور میرے محبوب ﷺ کو عزت و احترام سے میرے پاس لے آ جبرائیل امین نے حکم کی تعمیل کی اور چشم زدن میں وہاں پہنچ گئے بہشت کے مرغزاروں میں چالیس ہزار براق چر رہے تھے ہر براق کی پیشانی پر محمد ﷺ کا نام مبارک چمک رہا تھا ۔جبرائیل نے جب چاروں طرف نظر دوڑائی تو ایک ایسا براق نظر آیا جو سب سے الگ تھلگ غمگین افسردہ ایک کونے میں سر جھکائے آنسوں کے سمندر میں ڈوبا ہوا نظر آیا ۔اسے کھانے پینے سے کوئی رغبت نظر نہیں آرہی تھی سید الملائکہ اس کے پاس گئے او ر دریافت فرمایا یہ کیا حال کیا ہوا ہے تو اداس براق نے عرض کی اے جبرائیل امین میں نے چالیس ہزار سال پہلے خدائے بزرگ و برتر کے محبوب محمد ﷺ کا نام سنا تھا اس دن سے آج تک میں آپ ﷺ کے عشق میں مبتلا ہوں شوق دیدار اتنا بڑھ گیا ہے کہ کھانے پینے کا بھی ہوش نہیں رہا جبرائیل امین نے غمگین براق کی حالت زار دیکھی تو سرور دو جہاں ﷺ کی سواری کے لیے اسے منتخب کیا معراج  کے معنی” سیڑھی ”  کے ہیں کیونکہ مسجدِ اقصیٰ سے آگے کے سفر کے لیے امام الانبیاء ﷺ کے لیے جنت سے سیڑھی لائی گئی جس کے ذریعے آقا ﷺ آسمان پر چڑھے ”اسرا” کے معنی ”رات کو چلانے یا لے جانے” کے ہیں چونکہ نبی پاک ﷺ کا فرشِ زمیں سے عرشِ بریں تک یہ معجزاتی سفر رات کو ہوا تھا اس لیے اسے اسراء سے تعبیر کیا جاتا ہے قرآنِ مجید میں بھی اسی لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے اور ”معراج ” کو ”عروج” سے، جس کے معنی اوپر چڑھنے کے ہیں معراج اور اسراء کا مقصد قرآن نے بیان کیا ہے کہ اللہ نے اپنے رسول کو نشانیاں دکھلانا تھیں ارشادِ خداوندی ہے ” تا کہ ہم اسے اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں” دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے ” یقینا اس نے اپنے رب کی بعض بڑی بڑی نشانیاں دیکھ لیں” سفر معراج کے تین مراحل ہیں پہلا مرحلہ مسجر الحرام سے مسجد اقصی تک یہ زمینی سفر دوسرا مرحلہ مسجد اقصی سے سدر المنتہی تک ہے اور سب سے اہم تیسرا مرحلہ سدر المنتہی سے آگے قاب قوسین اور اس سے بھی آگے تک ہے  یہ سب دیدار محب اور محبوب کی انوکھی خاص ملاقات ہے لہذا اِس ملاقات کو زیادہ  تر راز میں رکھا گیا سور النجم میں صرف اتنا فرمایا  وہاں اللہ تعالی نے اپنے محبوب سے راز و محبت کی باتیں کر لیں اس اہم ترین سفر میں اللہ تعالیٰ نے آقا ﷺ کو بیت اللہ سے مسجد اقصیٰ تک اور پھر آسمانوں تک بہت سی نشانیاں دکھلا دیں معراج کی رات آپ کے گھر کی چھت کھلی حضرت جبریل ٰ علیہ السلام چند فرشتوں کے ساتھ نازل ہوئے آپ کو حرم ِ کعبہ میں لے جا کر آپ کے سینہ مبارک کو چاک کیا اور قلب ِانور کو نکال کر آبِ زم زم سے دھویا ایمان و حکمت سے بھرے ہوئے ایک طشت کو آپ کے سینے میں انڈیل کر شکم کا چاک برابر کر دیا پھر براق پر سوار ہو کر بیت المقدس تشریف لائے براق کی تیز رفتاری کا یہ عالم تھا کہ اس کا قدم وہاں پڑتا تھا جہاں اس کی نگاہ کی آخری حد ہوتی تھی بیت المقدس پہنچ کر براق کو اس حلقہ میں باندھ دیا گیا جہاں انبیاء کرام  اپنی سواریوں کو باندھا کرتے تھے آپ نے تمام انبیاء اور رسولوں کی امامت کرائی انبیاء کو نماز پڑھانے کے بعدآپ کو آسمان کی سیر کرائی گئی اس موقع پر حضرت جبریل علیہ السلام نے آپ کے سامنے شراب اور دودھ کا پیالہ پیش کیا آپ نے دودھ کا پیالہ اٹھا لیا یہ دیکھ کر حضرت جبریل علیہ السلام نے کہا آپ نے فطرت کو پسند فرمایا  آپ ﷺ نے جبرئیل سے کہا  اے جبرئیل امین اپنی کوئی حاجت بتاؤ جب میں اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوں تووہاں عرض کروں جبرئیل  نے فرمایا  اللہ کے محبوب آپ اللہ  سے میرے لئے  یہ اجازت لیں کہ روز محشر جب آپ کی امت کے گناہگاروں  کے قدم پل صراط پر ڈگمگا جائیں تو میں ان کے لئے اپنے پر بچھا دوں کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اللہ کی خوشی اسکے حبیب کی خوشی میں ہے اور اس کے حبیب کی خوشی یہ کہ نبی کی امت سے پیار کریں نبی کریم ﷺ نے جب سدرةالمنہتیٰ سے آگے کا سفر مبارک کیا تو میرے اللہ  پاک  نے کہا اے میرے محبوب ﷺ رک جائیں میں خود درودو سلام پڑھ کر آپ ﷺ کا استقبال کرتا ہوں پھر کوئی چیز نہیں رہی ایک اللہ اور ایک اللہ کا رسول ﷺ  جانے کتنی صدیاں گزر گئی ہونگی آپ واپس ہوئے تو حضرت موسیٰ ؑسے ملاقات ہوئی انہوں نے پوچھا کہ خدا کی طرف  سے کیا حکم ملا ؟ آپ نے فرمایا پچاس نمازیں  انہوں نے کہا آپکی امت اس بات کی طاقت نہیں رکھتی اپنے رب کے پاس واپس جائیے اور تخفیف کا پوچھیں  آپ نے جبریل کی طرف دیکھا تو انہوں نے کہا اگر آپ چاہیں تو جا سکتے ہیں اس کے بعد جبریل ؑپھر آپ کو دربار اقدس میں لے گئے  تخفیف کیلئے عرض کی تو بخاری کی روایت کے مطابق دس نمازیں اور بعض روایات کے مطابق پانچ نمازیں کم ہوگئیں واپسی پر موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے پھر وہی کہا  چنانچہ حضور ﷺ  پھر واپس گئے اور دس مزید کم ہوگئیں  اس کے بعد کئی دفعہ آئے گئے یہاں تک کہ صرف پانچ نمازیں رہ گئیں اور پانچ کا ثواب پچاس کے برابر ہوگا اسکے بعد بھی موسیٰ علیہ السلام کا مشورہ پہلے والا ہی تھا لیکن آنحضور نے فرمایا مجھے اپنے رب سے شرم محسوس ہوتی ہے میں اسی پر راضی ہوں تو ندا آئی کہ میں نے اپنا فریضہ نافذ کردیا اور اپنے بندوں سے تخفیف کردی  سفر معراج کے دوران بہت سی چیزیں دکھائی گئیں  آپ ﷺنے جہنم کے داروغہ کو دیکھا جس کانام مالک ہے ۔ وہ ہنستا نہ تھا اور نہ ہی اس کے چہرے پر خوشی یا بشاشت تھی آپ نے معراج کی رات دجال کو اس کی اصل صورت میں دیکھا اس کے بال ایسے ہیں جیسے کسی درخت کی گھنی شاخیں اور وہ ایک آنکھ سے کانا تھا آپ نے حضرت عیسیٰ‘حضرت موسیٰ اورحضرت ابراہیم علیہم السلام کو بھی دیکھا حضرت عیسیٰ کا وصف آپ نے اس طرح بیان فرمایا کہ وہ سفید رنگ گھنگھریالے بال اورتیز نگاہ والے ہیں اور حضرت موسیٰ گندمی رنگ کے اور مضبوط اور قوی آدمی ہیں اور حضرت ابراہیم تو بالکل ہو بہو مجھ  جیسے ہی تھے جبرائیل نے کہا ان پر سلام کہو تو میں نے سلام کہا ابراہیم علیہ السلام  نے میری امت کوسلام بھی بھیجا اورپیغام بھی کہ ارض جنت بڑی زرخیز ہے  جو بوؤگے کئی گنا کا ٹوگے  آپ نے یتیموں کا مال ظلماً  کھانے والوں کو دیکھا ان کے ہونٹ اونٹ کے ہونٹوں کی طرح تھے اور وہ اپنے منہ میں پتھر کے انگارے ٹھونس رہے تھے جو دوسری جانب ان کی پیٹھ سے نکل رہے تھے  آپ نے سود خوروں کو بھی دیکھا ان کے پیٹ اتنے بڑے بڑے تھے کہ وہ اپنی جگہ سے ادھر ادھر نہیں ہوسکتے تھے اور جب آل فرعون کو آگ  پر پیش کرنے کیلئے لے جایا جاتا تو انکے پاس سے گزرتے وقت انہیں روندتے ہوئے جاتے تھے  آپ نے زناکاروں کو بھی دیکھا ان کے سامنے تازہ اور فربہ گوشت تھا اور اسی کے ساتھ سڑا ہوا چھیچھڑا بھی تھا یہ لوگ تازہ اور فربہ گوشت چھوڑ کر سڑا ہوا چھیچھڑا کھا رہے ہیں آپ نے ان زناکار عورتوں کو بھی دیکھا جو اپنے شوہروں کے ھوتے ھوئے دوسروں سے نا جائز تعلق رکھتی تھیں ان کے سینوں میں بڑے بڑے نیزے کانٹے چبھا کر انہیں آسمان و زمین کے درمیان لٹکا دیا گیا تھا معراج النبی تکمیل انسانیت کی علامت ہے اور خدا نے ثابت کردیا کہ خدا تمام مادی تقاضوں کے باوجود اپنے ایک محبوب بندے کو کتنی بلندیوں تک پہنچا سکتا ہے اتنی شان والے نبی کی ھم امت ھیں وہ نبی ﷺ جن سے خدا کی طرف سے ایک ھی سوال بار بار دھرایا گیا میرے محبوب مانگو کیا مانگتے ھو ایک ھی جواب آیا “میری امت کی مغفرت”  کیا آپ  آقا ﷺ  کی تعلیمات پر عمل نہ کرکے آپ ﷺ  کے بتائے ھوئے سیدھے راستے پر نہ چل کر آقا ﷺ  کے دل کو تکلیف پنہچائیں گے قیامت کے دن شافع محشر ﷺ کے سامنے شرمندہ ھونا پسند کریں گے

Loading