من محرم من مجرم
تحریر۔۔۔ثمرین شیخ
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیو زانٹرنیشنل ۔۔۔ من محرم من مجرم ۔۔۔ تحریر۔۔۔ثمرین شیخ)وہ لان میں کھڑا ملازموں کو کرسیاں سمیٹتے دیکھ رہا تھا ایک ہاتھ میں سگریٹ تھی جبکہ دوسرے ہاتھ میں بال پوائنٹ جس کی ٹِک ٹِک ہر گزرتے لمحے پہلے سے تیز ہورہی تھی اس کی دھڑکنوں کی مانند بالاج کا مسکراتا چہرہ حیات کے چہرے کی طمانیت انابیہ اس کی بہو اس کا بیٹا اس کا چھوٹا سا احمد باپ بننے والا ہے
تبھی اسے ہیل کی آواز قریب سے آتی ہوئی محسوس ہوئی ٹِک ٹِک اس کی پین دباتی انگلی ساکت ہوئی سامنے حیات کھڑی تھی اس نے ایک نظر اس کے وجود پر ڈالی ہلکے سبز رنگ کی ساڑھی تھی بال جوڑے میں مقید تھے جن سے اب بھوری لٹیں آزادی حاصل کرتی چہرے پر پہرہ دے رہی تھی سبز آنکھوں میں جمود تھا گہرا جمود اس نے کاغذات حدید کی جانب بڑھا دئیے ۔۔۔
حدید نے دوسری نظر حیات پر نہیں ڈالی اور ایک ہی جست میں سارے کاغذات دستخط کرتا چلا گیا
پھر اپنے کوٹ کی جیب سے ایک کاغذ نکالا تمہارا حق مہر
حیات نے کچھ کہنا چاہا حدید پہلے ہی بول گیا
طلاق ،حق مہر ، عدت تمام فرائض پورے ہوں گے
بال پوائنٹ وہی کہیں سبز گھاس میں گرا کر وہ وہاں سے چلا گیا
حیات کتنے لمحے وہی کھڑی رہی
زندگی کا ایک چیپٹر کلوز ہوگیا تھا بہت ہی پروقار طریقے سے ۔۔۔
اس نے آسمان کی جانب دیکھا ایک بوند آنکھ سے نکل کر گال پر پھسلی جسے اس نے فوراً سمیٹ لیا ۔۔۔
ایک شریف لڑکی کبھی بھی ایسا اختتام نہیں چاہتی حتیٰ کہ اسے مجبور نہ کردیا جائے
———
حدید بائیں جانب زخم پر اٹھتے درد کو فراموش کئیے تیزی سے گاڑی چلاتا گھر کی طرف نکل گیا اسے اس وقت بس ایک ہی شخص کے پاس جانا تھا
اپنی ماں کے پاس ۔۔۔۔
——–
صفا اور عون خوبصورت سے ریسٹورنٹ کے کپل کیبن میں موجود اپنی ریزرو سیٹ پر بیٹھے ہوئے تھے مگر تشویش کی بات تھی ارد گرد کی تمام نشستیں خالی تھیں لگتا ہے ماموں نے پورا ریسٹورنٹ ہی بک کروا لیا ہے عون نے مسکرا کر کہا مگر دھیان حدید کی جانب تھا وہی دوسری جانب صفا بھی بادقت مسکرائی اس کا دھیان بھی حیا کی جانب تھا
صفا آپ ناراض تو نہیں ہیں ؟ عون نے یہ سوال آج کے دن میں کوئی پانچ سو دفعہ پوچھ لیا تھا
تم نے یہ نہیں پوچھا میں خوش ہوں کہ نہیں ؟
صفا اس کی بات ٹال گئی
اب جسے اتنا معصوم اور ہینڈسم شوہر مل جائے اس سے خوشی کا پوچھنے کا تک بنتا نہیں ہے
وہ آئی برو اُچکا کر معصومیت سے بولا
صفا کچھ غصے سے بولتی ویٹر کو دیکھ کر چپ کر گئی
اچھا اچھا اب مجھ سے پوچھ لیں میں خوش ہوں کہ نہیں !!
عون نے ویٹر کے سرو کیے ہوئے صفا کے پسندیدہ فرائیڈ رائس اس کی پلیٹ میں ڈالتے ہوئے پرجوش ہوکر کہا
اچھا میں خود ہی بتا دیتا ہوں
جس شخص کو اس کی “زندگی” مل جائے اس سے بھی خوشی کا پوچھنے کا تک بنتا نہیں ہے
وہ پہلے والے انداز میں بات دہرا کر ہنسا
جبکہ چمچ میں چاول ڈالتے صفا کے ہاتھ تھمے اس نے کتنی آسانی سے اسے زندگی کہہ دیا
عون کوئی نہ کوئی ایسی بات کر رہتا جارہا تھا جس پر نا چاہتے ہوئے بھی صفا مسکرا رہی تھی
عون کی صحبت میں اس کے لیے مسکرانا ہی لکھا تھا
کھانا کھا کر وہ لوگ اٹھے میرا دل کر رہا تھا آپ کے ساتھ واک کرنے کو مگر لیٹ ہو جائے گا عون نے گھڑی میں وقت دیکھتے ہوئے کہا
تمہیں اپنے ماموں کی فکر ہورہی ہے نہ عون نہیں تو تمہیں گھنٹہ دیر ہونے کی پرواہ نہ ہوتی صفا نے دل میں کہا مگر اس کے منہ پر نہیں کہنا چاہتی تھی جبکہ وہ خود کھانا جلدی جلدی ختم کر کے حیا کے پاس جانا چاہتی تھی
میرے پاس ایک اور گفٹ ہے آپ کے لیے گاڑی اس کے گھر کے باہر روک کر عون نے صفا کو پکارا
جس پر صفا نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا
حدید نے نیلی رنگ کی ڈبیہ صفا کی جانب بڑھائی چھوٹا سا ایک سٹون والا ڈائمنڈ کا سیٹ تھا ایک پینڈنٹ دو ائیر سٹڈ پر مشتل مگر بہت خوبصورت
عون۔۔!!
جی ماموں ؟
ایک کام کرو گے میرا ؟
ارے یار آپ حکم کریں وہ شیروانی صحیح کرتے بولا
یہ میری طرف سے صفا کو دے دینا میرا نام مت لینا وہ نیلے رنگ کی ڈبیہ عون کی جانب بڑھا رہا تھا
بس اتنا سا کام وہ یہ ہمیشہ پہن کر رکھیں گیں
ایک چھوٹی سی التجا کے ساتھ آپ بے شک وہ بریسلٹ ہمیشہ پہن کر رکھیں یاں نہ رکھیں یہ ہمیشہ پہن کر رکھئیے گا پلیز بہت محبت سے لیا ہے یہ تحفہ
صفا نے ایک نظر عون کی بھوری آنکھوں پر ڈالی پھر اس کی پھیلائی ہوئی کشادہ ہتھیلی کے اوپر پڑی نیلی کھلی ہوئی ڈبیہ پر
صفا نے ہاتھ بڑھا کر اسے پکڑ لیا
“شکریہ زندگی”
وہ اسے چھوڑتا گاڑی وہاں سے لیتا نکلتا چلا گیا
———-
دوائیوں کی ناگوار بدبو اور بیڈ پر پڑا بے سہارا وجود ملازمہ جو کرسی پر بیٹھی نیند میں جھول رہی تھی حدید کو دیکھ کر ہڑبڑا کر اٹھی اس کے ایک اشارے پر باہر بھاگ گئی
آپ کی بہو ماں حدید کی آواز پر آبدہ شاہ نے اپنی آنکھیں کھولیں طلاق لے لی اس نے
جانتی ہیں کس کی بات کر رہا ہوں آپ کی دوسری بہو حیات حدید شاہ ماں وہ عدت بھی پوری کر رہی ہے میں تو اس قابل بھی نہ تھا ماں کے وہ شرعی طریقے کار کو پورا کرتی میں تو سالوں پہلے ہی اس کی زندگی سے نکل چکا تھا وہ فاتحہ بھی پڑھ سکتی تھی مگر وہ اچھی تھی ایک اچھی لڑکی کا دل ویران کردیا میں نے ماں حدید نے خود ہی خود کو تباہ کردیا وہ حدید جو جسے چھوتا تھا وہ چیز سونا ہو جاتی تھی آج خود خاک ہوگیا ماں اتنا دکھ اتنی تکلیف نشاء کو طلاق دیتے ہوئے کیوں نہیں ہوئی ماں وہ جسے میں اپنی محبوب بیوی مانتا تھا جس کی خاطر میں نے کیا کچھ نہیں کیا ایک انسان سے حیوان بن گیا “محرم ” سے “مجرم” بن گیا جس کے لیے ماں سب تباہ ہوگیا سب میرا احمد میرا احمد نفرت کرتا ہے مجھ سے نفرت ۔۔۔
وہ بولتا ہوا اس کمرے سے نکل گیا پیچھے آبدہ شاہ مارے بے بسی کے اپنے لقوہ زدہ منہ سے گوں گاں کی دھیمی آوازیں نکالتی رہ گئیں ۔۔۔۔
———
میں نے تم سے بدلے کے لیے شادی کی تھی حدید شاہ
تمہاری ماں کی وجہ سے تمہارے باپ نے میری ماں کو ریجیکٹ کیا ۔۔۔تمہارے باپ کی وجہ سے میرا باپ میری ماں پر شک کرتا رہا۔۔۔ میں نے اپنا سارا بچپن ان کی لڑائیوں اور مار کھا کر گزارا تو تم دونوں بہن بھائی کو کیسے سکون لینے دیتی میں ؟
تمہارے باپ کی وجہ سے میری ماں سیڑھیوں سے گر گئی کیا یہ ساری وجہ کم ہیں تم سے بدلہ لینے کی ؟
تمہیں کیا لگا تم سے محبت ہے مجھے خالہ کی محبت میں تم سے شادی کی ہے چچچچ یہ شادی صرف تمہیں برباد کرنے کے لیے کی تھی میں نے ایک مزے کی بات بتاؤں میں کبھی پریگننٹ تھی ہی نہیں وہ بچہ وہ مس کیرج سب پلین تھا مگر پھنس بچاری حیات گئی مگر دیکھو آج تمہارے پاس وہ بھی نہیں ہے اور تمہارا بچہ بھی نہیں ہے حدید شاہ آج تم ہلنے کے قابل بھی نہیں ہو تمہیں برباد کر چکی ہوں میں مجھے طلاق دے دو نہیں تو میں خود بھی تم سے آزادی لے سکتی ہوں وہ پھنکاری تھی ۔۔۔
ہاسپٹل کے بیڈ پر وہ درد کے کراہتی اپنے الفاظ یاد کر رہی تھی اس کا بچہ ۔۔۔ اس کا بچہ مر گیا تھا اس نے اپنے ہاتھوں کو دیکھا وہ بدنصیب اپنے مردہ بچے کو اٹھانا تو دور ایک دفعہ دیکھ بھی نہ سکی تھی اپنے جھوٹ یاد آئے حیات کی تڑپ یاد آئی
حیات تمہاری بددعا لگ گئی ہے مجھے دیکھو میں برباد ہوگئی ہوں۔ وہ چیخ رہی تھی گلے میں خراشیں تک پڑ گئیں مگر وہ چیخ رہی تھی
وہی دوسری جانب حیات کی بات نشاء والی بات یاد کرکے
حدید شاہ نے مٹھیاں بھینجی یہ اس کی بے بسی تھی وہ جس حالت میں تھا اس وقت جب نشاء نے اپنا اصل روپ دیکھایا تھا اگر وہ بے بس نہ ہوتا تو اسی دن ہی نشاء کو جان سے مار دیتا
مگر ابھی بھی دیر نہیں ہوئی تھی اب وہ عورت حدید شاہ کا ایسا روپ دیکھے گی اپنے ماضی سے خود ہی خوف آئے گا اسے
ہیلو قاسم ۔۔۔۔
———-
صفا گھر آتے ساتھ ہی سیدھا حیا کے کمرے میں گئی مگر وہ سو رہی تھی جانے کیوں صفا کا دل پریشان ہورہا تھا دھڑکا سا لگا ہوا تھا جیسے کوئی اپنا تکلیف میں ہے مگر حیا کو پرسکون سوتا دیکھ کر وہ شکر کا سانس بھرتی وہاں سے چلی گئی ۔۔۔
———
اگلا دن تمام گھر والوں کا خاموش ہی گزرا تھا صفا نے بھی پیر سے واپس جازب کو جوائن کرنا تھا بالاج کو خاور صاحب کی مسلسل کالز آرہی تھیں جنہیں وہ فلحال اگنور کر رہا تھا جبکہ حیا نے اپنے دن کی شروعات عام چھوٹی کے دنوں جیسی ہی کی تھی ویسی ہی معمول کے مطابق گفتگو ، انابیہ کے لیے کچھ ہیلدی بنانا سب معمول پر تھا اور ان تینوں کو یہ ہی بات تو تکلیف دے رہا تھی ۔۔۔
بالاج لاونج میں بیٹھا لیپ ٹاپ پر کام کر رہا تھا
تبھی ملازم نے اسے مسٹر اور مسسز خاور کے آنے کی اطلاع دی
جی کہیں انکل کس طرح آنا ہوا آپ کا ؟ بالاج نے ہاتھوں کے پیچھے باندھ کر سامنے بیٹھے شبانہ صاحبہ اور خاور صاحب کو دیکھ کر کہا
اب تم ہم سے ایسے بات کرو گے بالاج
کوئی اپنے محسن سے ایسے بات کرتا ہے ؟ خاور صاحب نے استہزایہ نظر بالاج پر ڈالی
بیٹا ہوا کیا ہے ؟ ایسے کون کرتا ہے شجاع اتنا پریشان ہوا پڑا ہے
آپ مجھ سے پوچھ رہی ہیں آنٹی اپنے بیٹے کی شادی کروا کر اس کا میری بہن سے نکاح کروانے جارہے تھے
بلکہ یاد آیا بہت بہت مبارک ہو آپ دنوں کو دادا دادی بننے والے ہیں آپ دونوں
بالاج نے تالی بجا کر کہا
خاور اور شبانہ صاحبہ بالاج کی بات پر گنگ ہوئے
دادا ۔۔ دادی
بالاج تمہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے شجاع کا بس نکاح ہوا تھا میری بہن بستر مرگ پر تھی
گڈ ٹو نو آپ لوگوں نے ان کا سوچا اب میں نے اپنی بہن کا سوچ لیا آپ لوگ یہاں سے جاسکتے ہیں
دیکھو بیٹا ایسے معاملات نہیں بگڑتے تم حیا کو بلاؤ ہم اس سے بات کرتے ہیں شبانہ خاور نے معاملہ سلجھانا چاہا
ہمیں کچھ نہیں سمجھنا آپ لوگ یہاں سے چلے جائیں میں اس سے زیادہ عزت کا مظاہرہ نہیں کرسکتا ۔۔۔
بالاج نے ماتھے پر بل ڈال کر سختی سے کہا
اتنے کوئی سرخاب کے پر نہیں لگے تمہاری بہن کو یہ ہمارا بڑا پن تھا ہم نے ایسی لڑکی کو بہو بنانا چاہا جس کا باپ اسے ناجائز کہتا رہا اور یہ ہی نہیں اس لڑکی کا ایک عاشق بھی ہے جس سے نکاح کروا دیا ہے آپ لوگوں نے
شبانہ خاور بولنا شروع ہوئی تو ملازمہ کے اپنے بازو پکڑنے پر ہی چپ ہوئی
انہیں باہر لے جائیں اور آج کے بعد یہ لوگ اس گھر کی دہلیز پار نہ کرپائیں
بالاج نے بالوں میں ہاتھ ڈالا اتنا خناس اتنا بغض اس نے دو دفعہ گہری سانس لی اس کی بہن ایسے ماحول میں رہ بھی کیسے سکتی تھی
انابیہ جو باہر کھڑی تھی فوراً بالاج کے پاس آئی
صفا ۔۔۔ ؟ صفا کہاں پر ہے ؟ بالاج کو صفا کی فکر ہوئی کہیں اس نے سن تو نہیں لیا کچھ
آپی تھوڑی دیر پہلے ہی جازب انکل کی طرف گئیں ہیں کسی کیس کی سٹڈی کے لیے
اللہُ اکبر۔۔۔۔ بالاج نے بلند آواز میں کہا اور ماں ؟ وہ کہاں پر ہیں ؟ اس نے بے چین ہوکر پوچھا
وہ اپنے کمرے میں ہیں بالاج میں انہیں ہی دیکھ کر آئی ہوں انابیہ نے پانی کا گلاس بالاج کی جانب بڑھایا
یہ دنیا کتنی مطلب پرست ہے انابیہ نے لب کاٹ کر اپنے آپ کو کمپوز کرنا چاہا
سد شکر صفا نہیں تھی انابیہ یہ الفاظ برداشت نہیں کرپارہی تھی صفا کیسے ۔۔۔؟؟
———-
اتوار کا دن تھا سب ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھے باتیں کرنے میں مشغول تھے صفا حیا سے اپنے کیس متعلق مدد مانگ رہی تھی انابیہ بالاج کو کوٹ سیٹ کی تصاویریں دیکھا رہی تھی جب حیا کا فون بج اٹھا
حدیقہ کی کال تھی
حیا کے پاس بیٹھی صفا کا دل دھڑک اٹھا
نکاح کو ابھی ڈیڑھ دن ہوا تھا اور عون صاحب کی بے تابیاں اس کے میسجز سے ہی واضح تھیں
حیا بات کر رہی تھی جب صفا کا ہاتھ نامحسوس انداز میں اپنے دائیں کان کی لو تک گئے جس پر ہیرے کے سٹڈ چمک رہے تھے پینڈنٹ کی چین نیلے شیفون کے دوپٹے سے جھلک رہی تھی
السلام علیکم حیات کیسی ہو ؟
وعلیکم السلام حدیقہ باجی میں ٹھیک آپ سنائیں گھر میں سب کیسے ہیں ؟
ہاں سب ٹھیک بلکے بابا چاہ رہے تھے آج کا ڈنر آپ لوگ ہماری طرف کرو
حدیقہ نے مسکرا کر کہا
حدیقہ باجی بچے آجائیں گے میری طرف سے معذرت ۔۔۔
حیا نے ان تینوں پر نظر ڈال کر کہا
کوئی معذرت نہیں تم نے بھی آنا ہے یار گپ شپ لگا لیں گے کام تو ہوتے رہیں گے اتوار کا دن ہے
باجی میں عدت میں ہوں
حیا نے حدیقہ کی بات مکمل ہونے کے بعد تحمل سے کہا
حیا کی بات پر انابیہ اور صفا نے سر جھکا لیا
تو دوسری جانب حدیقہ چپ ہوگئی اسے لگا اس نے سننے میں غلطی کی ہے
کیا ۔۔۔ کیا وہ جھجھک کر بولی
میں عدت میں ہوں باجی بچے آجائیں گے کھانے میں آپ کی طرف ۔۔۔
ہم۔۔۔ ہاں ٹھیک ہے حدیقہ نے غائب دماغی سے کہہ کر کال کاٹ دی۔۔۔
بچوں آج رات ڈنر ہے شاہ ہاؤس میں تم لوگوں کا
مما میری طبیعت کچھ انابیہ نے کہنا چاہا جب حیا نے آئی برو اُچکائی
بالاج اس کے کھانے کا دھیان رکھنا بچے بہت چور ہوگئی ہے یہ کھانے کے معاملے میں اور صفا بچے میں نے تمہارے لیے ایک ڈریس لیا نکاح کے بعد پہلا ڈنر ہے تمہارا ، تمہارے سسرال وہ پہن کر جانا مجھے اچھا لگے گا حیا نے صفا کو مخاطب کرنے کے بعد چائے کا کپ لبوں سے لگا لیا
———
حدیقہ غائب دماغی سے فون کو تک رہی تھی جب عون اس کے پاس آیا
ہوئی بات حیا آنٹی سے آپ کی ؟
حدیقہ نے سپاٹ نظروں سے عون کے چہرے پر دیکھا اس نے حیا ممانی کی بجائے حیا آنٹی کہا کیا وہ جانتا تھا
ماموں کہاں ہیں تمہارے ؟
ماموں وہ تو کل دوپہر کو ہی نکل گئے تھے کیوں کیا ہوا ؟
حیا اور حدید بھائی کی طلاق کا تمہیں علم تھا عون ؟ حدیقہ کا لہجہ سخت تھا
عون گڑبڑا گیا
آہ۔۔۔۔ ابھی عون کچھ کہتا اندر سی آتی چیخوں کی آواز پر وہ دونوں دہل کر اندر کی طرف بھاگے تھے
آبدہ شاہ کا ٹھنڈا وجود ملازم ان کے گرد جھمگٹا بنائے بین کر رہے تھے حدیقہ کے قدم ڈگمگائے عون نے فوراً انہیں سنبھالا
———
بالاج میرا بالکل دل نہیں کر رہا ڈنر پر جانے کا انابیہ نے منہ بنا کر ڈریس کو اپنے ساتھ لگا کر کہا
ڈنر پر نا جانے کی وجہ یہ دل ہے یاں یہ تنگ کپڑے ؟
بالاج نے مسکراہٹ دبا کر پوچھا
نہیں آپ کا مطلب ہے میں موٹی ہوگئی ہوں ؟ انابیہ نے سوٹ بیڈ پر پھینک کر ہاتھ کمر پر رکھے
نہیں میں کہہ رہا ہوں کتنا بکواس کپڑا تھا شرنک ہوگیا کوئی نہیں میں تمہیں اچھی جگہ سے شاپنگ کروا دوں گا لیکن پہلے کپبرڈ کے دوسرے والے خانے میں پڑا سوٹ تو چیک کرو
بالاج اسے کہتا اپنے فون پر آتی عون کی کال کو اٹینڈ کرکے بیڈ کی بیک سے ٹیک لگا کر بیٹھا
ہاں ہیلو عون کیسے ہو
جبکہ انابیہ جلدی سے دوسرے خانے کو کھول سوٹ نکالنے لگی
کیا ؟ وہ ایک دم سے سیدھا ہوا انابیہ نے چونک کر اسے دیکھا
آرہے ہیں ہم ابھی
کیا ہوا بالاج ؟
عون کی نانو کا انتقال ہوگیا ہے
بالاج نے دھیرے سے کہا
عون کی نانو یعنی بالاج کی دادو ۔۔۔۔
———-
حیا نے صفا کے ساتھ بالاج کو بھیج دیا تھا انابیہ کی کنڈیشن ایسی نہیں تھی کہ اسے ایسی جگہ پر بھیجا جاتا اور ویسے بھی بالاج اور صفا کی دادی تھی وہ ان دونوں کا جانا فرض بھی تھا
——–
سر آپ نے ڈیٹیلز مانگی تھیں
نشاء زیاد لغاری ، زیاد لغاری کی بیوی ان کا تعلق کافی سالوں پرانا تھا شادی دس سال پہلے کی ہے آٹھ مہینے سے پریگننٹ ہیں پچھلے سال ہی لغاری گروپ آف انڈسٹری کو بہت بڑے نقصان سے دو چار ہونا پڑا جس کی وجہ سے ان کے تمام انویسٹر نے ان کی ڈیمیج کریڈیبیلٹی کو نظر میں رکھتے ان سے سارے کانٹریکٹ ختم کردیے جس وجہ سے زیاد لغاری نے اپنی کافی پراپرٹی بیچ کر اپنی گرتی ساخت کو بچانے کی کوشش کی مگر ناکام رہا اسی کے چلتے زیاد لغاری نے اپنی بیوی کے نام لاہور میں موجود ایک گھر کسی تھرڈ پارٹی کے تھرو کسی کو بیچنا چاہا اس کی طرف سے ایڈوانس پیمنٹ ہوچکی تھی جانے زیاد لغاری کو کیا سوجا اس نے گھر بیچنے سے انکار کردیا مگر کاغذات پر مکمل دستخط نہ ہونے کی وجہ سے اور بیانہ نہ ہونے کی وجہ سے جسے یہ گھر بیچ رہے تھے وہ مکر گیا اب وہ گھر انہیں واپس نہیں دینا چاہتا اب یہ لوگ اس کے خلاف کیس لڑنے کے لیے اچھا وکیل ڈھونڈ رہے تھے یا یہ کہوں کے انہوں نے اچھی وکیل ڈھونڈ لی تھی مگر جس کے خلاف یہ کیس لڑ رہے وہ شخص خود ایک جانا مانا وکیل ہے اسی دوران نشاء زیاد کی طبیعت بگڑی اور اس نے اپنی آٹھ ماہ کی پریگنینسی کھو دی وہ اس وقت اس ہاسپٹل میں قابل رحم حالت میں زیر علاج ہے اور اس کا کیس بھیج میں ہی لٹک گیا ۔۔۔
قاسم کی بریفنگ پر حدید کا ہلتا پاؤں تھما کتنے سال پرانا تھا ان کا تعلق ؟
سر وہ ایک ہی کالج میں پڑھتے تھے یہاں تک کے نشاء کی پہلی شادی کے بعد بھی اس کا زیاد سے رابطہ تھا دونوں کی ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں قاسم کی آواز دھیمی ہوتی جارہی تھی وہ جس کے بارے میں بات کر رہا تھا وہ اس کے باس کی پہلی بیوی رہ چکی تھی
ہم۔۔۔ جاسکتے ہو
چند منٹ بعد قاسم پھر اس کے پاس آیا سر گھر سے کال آئی ہے بڑی بیگم صاحبہ کا انتقال ہوگیا ہے ۔۔۔
حدید جھٹکے سے اٹھا گاڑی نکالو قاسم ۔۔۔!!
جاری ہے
اسلام علیکم میرے پیارے پیج واسیوں کیسے ہیں آپ سب لوگ ❤️
ناول 78 قسطوں تک یہاں پوسٹ ہوگا آخری دو قسطیں یوٹیوب پر ہی رہیں گی اگر کسی نے وہ پی ڈی ایف میں پڑھنی ہے تو آپ خرید سکتے ہیں ۔۔۔۔ نہیں تو ایک پیارا سا ریویو لکھیں۔ اور پائیں فری میں 😁❤️❤️❤️