Daily Roshni News

مُنتخب اشعار :-

مُنتخب اشعار :-

میں اُس سے ایک آسماں کی دُوری پر تھا جب

تو یہ حکُم ہُوا کہ اِسے پاتال میں پھینکو

؀اظہر ناظؔر

ہو جائے عنایتِ حُسن کبھی

اِک پل کو ہم بھی جی اُٹھتے ہیں

؀اظہر ناظؔر

بھُلا ہی ڈالے ہیں میں نے تِرے دِیے گھاؤ سب

پُرانی باتوں کا اب میں تذکرہ نہیں کرتا

؀اظہر ناظؔر

میرے بعد ایسے سِتمگر تُجھ کو بھی

کیا کِسی نے مُجھ سا ہی چاہا ہو گا

؀اظہر ناظؔر

جہاں تیری تمنّا کے سِلسِلے تھے

وُہ شہرِ آرزُو ہم چھوڑ آۓ جاناں

؀اظہر ناظؔر

تِرا یہ حُسن بیاں کی گرِفت میں نہیں آتا

سُخن وری میں دِیگر کمال رکھتا ہُوں میں

؀اظہر ناظؔر

لِئے ہی پھِرتا ہُوں پچھلی چاہتوں کے روگ

میں آج  اور مُحبّت سے باز رہتا ہُوں

؀اظہر ناظؔر

جاں بخشی ہی نہ گئی اپنا سر گیا

ضمِیر زِندہ رہا اور میں مر گیا

؀اظہر ناظؔر

میں تو موسمِ دِل ہُوں

لمحوں میں بدلتا ہُوں

؀اظہر ناظؔر

غم جو میرے مُقابِل آ جائیں اب

اُنہیں میں ہنس کے ٹال دیتا ہُوں

؀اظہر ناظؔر

ظرف میری انا کا دیکھو

ہے کیا کُچھ یہ جھیل جاتی

؀اظہر ناظؔر

میرے بھی حِصّے کا آسماں تُو رکھ

مُجھ کو تو اپنی زمِین بُہت ہے

؀اظہر ناظؔر

 زِندگی کی تلاش میں ہم

موت کا در بھی کھٹکھٹا آئے

؀اظہر ناظؔر

جُدا ہونا ہی قِسمتوں میں ہے تو

روز مِلنے میں پھر بُرا کیا ہے

؀اظہر ناظؔر

مانا تیرے تمنّائی ہیں تو ہرجائی ہیں

پر عاشق ہیں ہم جانِ من ، سودائی ہیں

؀اظہر ناظؔر

وقتِ رُخصت تِرے لہجے میں کیسی یہ

ان کہی سی جُدائی کی تمہِید تھی

؀اظہر ناظؔر

خُود سے ہُوں میں نبرد آزما اب

اور یہ جنگ جِیتنی ہے مُجھے

؀اظہر ناظؔر

تیری ہی دی درد کی سوغات کو میں نے ہی

آ دیکھ کِس طرح لفظوں میں پرو ڈالا ہے

؀اظہر ناظؔر

مٹّی کے پُتلے میں ہے مہماں مگر

رُوح کا بھی چارہ گر کوئی تو ہو

؀اظہر ناظؔر

وُہ مِرے سامنے جب ہوتے ہیں

دِل تکلُّف بھی بُہت کرتا ہے

؀اظہر ناظؔر

آیا جو توڑنے کو اِک جہاں تھا

پر مُقابِل میں بھی تنہا کہاں تھا

؀اظہر ناظؔر

سامانِ عیش خُوب مُیسّر تھا

دِل اپنا ہی بے اِیماں نہ ہو پایا

؀اظہر ناظؔر

 کِس کِس سے کہیّے  گا دِل کی کتھا

ہو کون جو چارہ گر ٹھہرے

؀اظہر ناظؔر

اوڑھ کر اپنی بے حِسی سو رہے ہم

درد جانے ، زخم جانے، کرب جانے

؀اظہر ناظؔر

فریب اب میں کھاتا نہیں ہُوں

مِرے چارہ گر کُچھ نیا سوچ

؀اظہر ناظؔر

اپنے دِل کے خُود ہی ہیں اب بادشاہ ہم

جِس کو جِتنی ہم چاہیں جاگِیر دے دیں

؀اظہر ناظؔر

کیسا یہ خالی سا پن ہے اب کے

تُو بھی نہیں ہے ، میں بھی نہیں ہُوں

؀اظہر ناظؔر

زِندگانی سُن تُجھ سے کُچھ کڑی تھی راہِ ہجر

ہم واں سے بھی تو ننگے پاؤں ہی گُزر آۓ

؀اظہر ناظؔر

ایک تُم کو پانے کی حسرت میں ہم نے

کیسے کیسے کم ظرفوں کے ناز اُٹھائے

؀اظہر ناظؔر

ہم راز ہوتا مُیسّر  ، درد آشنا ہی ہوتا

احبابِ بے ثمر میں کوئی تو ہم سا ہوتا

؀اظہر ناظؔر

Loading