” مڈل کلاسیا “
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )رات کے دس بج رہے تھے۔ ساجد ابھی تک دکان پر ہی تھا۔ تھکاوٹ اس کے چہرے سے جھلک رہی تھی، مگر واپسی کا راستہ ابھی باقی تھا۔ رکشہ لینے کا مطلب تھا روز کے بجٹ میں کٹوتی، اس لیے وہ ہمیشہ کی طرح پیدل ہی چل پڑا۔
ساجد ایک عام مڈل کلاس انسان تھا۔ وہ جو اپنی خواہشات کو مار کر دوسروں کی ضروریات پوری کرتا ہے، جو ہمیشہ “آج نہیں، کل دیکھیں گے” کہہ کر اپنی خوشیوں کو ملتوی کرتا رہتا ہے۔ گھر پہنچا تو بچوں کو سویا پایا۔ بیوی نے دروازہ کھولا، مگر اس کے چہرے پر وہ خوشی نہ تھی جو کسی شوہر کی واپسی پر ہونی چاہیے۔
“بہت دیر کر دی، کھانا رکھ رہی ہوں، ٹھنڈا ہو گیا ہوگا۔” وہ یہ کہہ کر کچن میں چلی گئی۔
ساجد نے ہاتھ دھوئے اور کھانے کے لیے بیٹھا ہی تھا کہ بیوی کی آواز آئی:
“پڑوسن کہہ رہی تھی کہ کل سکول فیس کی آخری تاریخ ہے۔ بچوں کی فیس دی؟”
ساجد کے ہاتھ میں روٹی کا نوالہ رک گیا۔ وہ چپ رہا، جواب میں کیا کہتا؟ پورے مہینے کی جمع پونجی تو کرائے، بجلی کے بل اور راشن میں ختم ہو چکی تھی۔ بیوی اس کی خاموشی سمجھ گئی اور آہستہ سے بولی:
“کوئی انتظام کر لو، ورنہ بچے شرمندہ ہوں گے۔”
ساجد نے اثبات میں سر ہلایا، مگر اس کے دل میں ہزاروں سوال اٹھنے لگے۔ وہ یہ انتظام کہاں سے کرے؟ ہر مہینے یہی کشمکش، یہی جنگ، یہی سمجھوتے۔ مہنگائی بڑھتی جا رہی تھی، مگر آمدنی وہی تھی۔ بچوں کی چھوٹی چھوٹی خواہشات بھی بوجھ لگنے لگی تھیں۔
“بابا، میری سائیکل کا ٹائر پنکچر ہے۔” اگلے دن بیٹا معصومیت سے بولا۔
“بابا، میری جوتی پھٹ گئی ہے، سب مذاق اڑاتے ہیں۔” بیٹی نے شرمندگی سے سر جھکا لیا۔
یہ جملے ساجد کے دل میں تیر کی طرح لگے۔ وہ کچھ نہ بولا، بس خاموشی سے باہر نکل گیا۔ گلی میں آ کر گہری سانس لی، خود کو تسلی دی کہ زندگی یونہی چلتی ہے۔ مڈل کلاس کا یہی مقدر ہے، خواہشوں اور حقیقتوں کے بیچ پس جانا۔ وہ جانتا تھا کہ یہ سب عارضی ہے، مگر یہ عارضی وقت کبھی ختم بھی ہوگا؟
بیوی دروازے کے قریب آ کر کھڑی ہو گئی۔ وہ ساجد کے خالی ہاتھ اور جھکی نظریں دیکھ چکی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اس کا شوہر جتنا کر سکتا ہے، کر رہا ہے۔ مگر کیا کرے؟
“سنیں۔۔۔” وہ دھیرے سے بولی۔
ساجد نے مڑ کر دیکھا، آنکھوں میں بے بسی تھی۔
“میں نے سوچا ہے، کچھ ٹیلرنگ کا کام شروع کر لوں۔ دو چار سلائیاں ہی آتی ہیں، اگر تھوڑا سیکھ لوں تو شاید گزارا آسان ہو جائے۔”
ساجد خاموش رہا۔ اس کی مردانہ انا اسے روک رہی تھی کہ بیوی گھر سے باہر کام کرے، مگر حقیقت نے اسے جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔
“اگر تمہیں اچھا لگے تو کر لو، بس خود کو زیادہ تھکانا مت۔” وہ آہستہ سے بولا۔
بیوی کے چہرے پر ہلکی سی روشنی آ گئی۔ وہ جانتی تھی کہ یہ اجازت دینا ساجد کے لیے آسان نہیں تھا، مگر اس نے یہ قدم اپنے بچوں کے بہتر کل کے لیے اٹھایا تھا۔
چند لمحے خاموشی رہی، پھر وہ آہستہ سے بولی:
“سنیے، میں ایک بات اور کہنا چاہتی ہوں۔۔۔”
ساجد نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔
“آپ نے قرض اتارنے کے لیے جو بائیک بیچی تھی، وہ تو ہمارے لیے بہت بڑی قربانی تھی، مگر اگر کسی طرح دوبارہ کوئی اچھی چلتی ہوئی بائیک خرید لی جائے تو آپ کے لیے بھی آسانی ہو جائے گی۔ دکان آنے جانے میں وقت بچے گا اور آج کل لوگ آن لائن بائیک بھی چلا رہے ہیں۔ آپ دکان جاتے ہوئے کوئی سواری لے لیا کریں، کم از کم آنے جانے کے پیسوں سے گھر کا خرچ نکل آئے گا۔ باقی میں سلائی سیکھ کر تھوڑی بچت کر لوں گی۔ آخر ہم ایک دوسرے کا سہارا ہیں اور ہمارے بچے بھی۔۔۔ مل جل کر سب سنبھال لیں گے۔”
ساجد غور سے اسے دیکھتا رہا۔ اس کی بیوی اسے کبھی اتنی سمجھدار اور حوصلہ مند نہیں لگی تھی جتنی آج لگ رہی تھی۔ شاید زندگی کی مشکلات نے ہی اسے یہ ہنر سکھایا تھا کہ جب ایک ہاتھ خالی ہو، تو دوسرا ہاتھ تھامنے کے لیے آگے بڑھایا جائے۔
ساجد نے گہرا سانس لیا، جیسے کسی بوجھ سے نجات پا رہا ہو۔
“ٹھیک ہے، میں کل دیکھوں گا کہ کہیں سے اچھی بائیک مل سکتی ہے۔”
بیوی کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی، جیسے اسے یقین ہو کہ راستہ بن جائے گا۔
ساجد نے پلٹنے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ بیوی بولی، “رکیں، ایک منٹ۔۔۔”
وہ جلدی سے اندر گئی اور الماری سے کچھ نکال کر واپس آئی۔ ساجد نے دیکھا، یہ اس کی گولڈ کی چوڑی تھی۔
“یہ امی نے مجھے دی تھی، لیکن اب میں چاہتی ہوں کہ آپ اسے رکھ لیں۔ ضرورت پڑے تو بیچ کر بائیک خرید لیجیے۔”
ساجد چونک کر اس کی طرف دیکھنے لگا۔ وہ حیران تھا، فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ کیا کرے۔
بیوی نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے نرمی سے کہا،
“جب آپ نے اپنی بائیک بیچی تھی، تو مجھے بہت دکھ ہوا تھا۔ وہ ایک قربانی تھی جو آپ نے ہمارے لیے دی۔ اب یہ میری قربانی ہوگی۔ جب امی نے مجھے یہ دی تھی، تو بس یہ میری زندگی کا حصہ بن گئی، اور اب میں چاہتی ہوں کہ آپ اسے اپنی زندگی آسان بنانے کے لیے استعمال کریں۔”
ساجد کی آنکھوں میں جذبات کا ایک طوفان تھا۔ وہ کبھی اپنی بیوی کی طرف دیکھتا، کبھی اس چوڑی کی طرف جو اس کے ہاتھ میں تھی۔ اس نے سوچا، یہ وہی چوڑی ہے جو شادی کے بعد پہلی بار اس نے اپنی بیوی کے ہاتھ میں دیکھی تھی، جو ہمیشہ اس کے زیور کا حصہ رہی، جسے وہ کبھی کھونے نہیں دینا چاہتی تھی۔
اور آج؟ آج وہی چوڑی اس کے ہاتھ میں تھی، مگر ایک مختلف مقصد کے لیے۔ بیوی کی باتیں اس کے ذہن میں گونجنے لگیں، “جب آپ نے اپنی بائیک بیچی، تو مجھے دکھ ہوا تھا۔ یہ میری قربانی کا حصہ سمجھیں۔۔۔”
قربانی؟ کیا واقعی؟
اس نے اپنی بائیک بیچی تھی، مگر وہ ایک مجبوری تھی، کوئی جذباتی وابستگی نہیں تھی اس بائیک سے۔ مگر یہ چوڑی؟ یہ تو اس کی بیوی کی یادوں، اس کی ماں کی محبت، اور شاید اس کی آخری قیمتی چیزوں میں سے ایک تھی۔
اس کے دل میں عجیب سی کشمکش ہونے لگی۔ کیا وہ یہ چوڑی رکھ لے؟ کیا وہ اپنی بیوی کی اس قربانی کو قبول کر لے؟ یا پھر وہی کرے جو ایک شوہر کو کرنا چاہیے؟
اس کی انگلیاں چوڑی کو سختی سے تھامے ہوئے تھیں، جیسے وہ اسے کبھی ہاتھ سے گرنے نہیں دینا چاہتا۔ آنکھیں دھندلا گئیں، مگر وہ انہیں جھپک کر صاف کر گیا۔ مڈل کلاس مرد کی زندگی میں آنسو بہانے کی اجازت کہاں ہوتی ہے؟ وہ تو بس ہر چیز کو “ٹھیک ہے” کہہ کر ہضم کر لیتا ہے۔
مگر آج؟ آج دل چاہ رہا تھا کہ وہ کہے، “نہیں، مجھے یہ نہیں چاہیے۔ مجھے تمہارا ساتھ چاہیے، تمہاری ہمت چاہیے، تمہارا یقین چاہیے۔”
مگر وہ کچھ نہ کہہ سکا۔ بس گہری سانس لی، چوڑی کو مٹھی میں دبایا، اور نظریں چرا کر بولا،
“دیکھتا ہوں، کیا ہو سکتا ہے۔”
پھر وہ پلٹ کر کمرے سے باہر آ گیا، لیکن اس کے قدم بوجھل ہو چکے تھے۔
کیا وہ سونے کی چوڑی بیچ پائے گا؟
یہ سوال ساجد کے ذہن میں ہتھوڑے کی طرح بج رہا تھا۔ چوڑی اس کی مٹھی میں تھی، مگر وہ مٹھی کھول نہیں پا رہا تھا۔ یہ صرف ایک زیور نہیں تھا، یہ ایک عورت کی قربانی تھی، اس کی محبت تھی، اس کا یقین تھا۔
کیا وہ اس قربانی کو قبول کر سکتا ہے؟ کیا وہ اپنی بیوی کے خوابوں کا سودا کر سکتا ہے؟ یا پھر کوئی اور راستہ نکالے گا؟
یہی کشمکش تھی… یہی جنگ تھی… جس کا فیصلہ ابھی باقی تھا!
—
یہ کہانی صرف ساجد کی نہیں، یہ کہانی اس ملک کے ہر اُس مڈل کلاس شخص کی ہے جو روز جیتا ہے، روز مرتا ہے، مگر کسی کو اس کی ہار یا جیت سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جس کی جیب میں خواب زیادہ اور نوٹ کم ہوتے ہیں، جس کے پاس خواہشیں تو ہوتی ہیں، مگر ان کو پورا کرنے کے لیے ہمیشہ کسی نہ کسی قربانی کا سہارا لینا پڑتا ہے۔