Daily Roshni News

میرا نام ماریا ہے۔

میرا نام ماریا ہے۔
اس سال میں ستر برس کی ہو گئی ہوں۔
ایک مکمل، خوبصورت سا عدد۔
لیکن سچ کہوں تو، اس نے مجھے کوئی خوشی نہیں دی۔
یہاں تک کہ وہ کیک بھی بے ذائقہ لگا جو میری بہو نے میرے لیے بنایا۔
یا شاید مسئلہ مجھ میں ہی ہے۔۔۔
شاید اب مجھے کچھ بھی اچھا نہیں لگتا —
نہ میٹھا، نہ توجہ۔
میں سمجھتی تھی کہ بڑھاپے کا مطلب ہے تنہائی۔
ایک خاموش گھر، ایسی فون کالز جو کبھی نہیں آتیں،
ویک اینڈز جو خالی گزرتے ہیں۔
مجھے لگتا تھا سب سے بڑی تکلیف یہی ہے:
چھوڑ دیے جانا، تنہا رہ جانا۔
لیکن اب میں سچ جان چکی ہوں:
اصل درد خالی جگہ نہیں ہے۔۔۔
بلکہ وہ گھر ہے جو لوگوں سے بھرا ہو
مگر وہاں کوئی تمہیں دیکھتا ہی نہ ہو۔
میرے شوہر کو گزرے دس سال ہو گئے۔
ہم تقریباً چالیس برس ایک ساتھ رہے۔
سادہ آدمی تھے: سنجیدہ، کچھ سخت مزاج، لیکن مضبوط۔
دروازہ ٹھیک کرنا، آگ جلانا،
اور وہ ایک چھوٹا سا درست لفظ کہنا
جس سے مجھے لگتا کہ میں محفوظ ہوں —
یہ سب وہ بخوبی جانتے تھے۔
جب وہ چلے گئے،
تو لگا جیسے زمین میرے قدموں تلے سے نکل گئی ہو۔
لیکن میرے بچے تھے:۔
میں نے انہیں سب کچھ دیا۔
اس لیے نہیں کہ “ماں ایسے ہی کرتی ہے”،
بلکہ اس لیے کہ مجھے محبت کا اور کوئی طریقہ ہی نہ آتا تھا۔
میں کوئی بڑی تعلیم یافتہ یا گھومنے پھرنے والی عورت نہیں تھی،
لیکن ہمیشہ ان کے لیے موجود رہی —
بخاروں میں، ہوم ورک میں، ڈراؤنے خوابوں میں۔
مجھے یقین تھا کہ محبت واپس لوٹتی ہے۔
لیکن وقت گزرنے کے ساتھ میرے بچے آنا چھوڑ گئے۔
– “ماں، بہت کام ہے آج کل۔”
– “اس ویک اینڈ پر تو ممکن نہیں۔”
اور میں۔۔۔ میں انتظار کرتی رہی۔
یہاں تک کہ ایک دن کارلو نے کہا:
– “ماں، ہمارے ساتھ آجاؤ۔ وہاں تمہیں زیادہ کمپنی ملے گی۔”
تو میں نے اپنا سامان باندھ لیا۔
اپنا کمبل ہمسائی کو دے دیا،
پرانی کافی والی کیتلی عطیہ کر دی،
اپیانو بیچ دیا — جو میرے دل کا حصہ تھا۔
اور میں روانہ ہو گئی۔
ان کے گھر — ایک جدید، کشادہ، روشن گھر۔
شروع میں وہ سب بہت اچھے تھے۔
میری پوتی نے مجھے گلے لگایا،
لورا نے مجھے کافی بنا کر دی۔
لیکن پھر، کچھ بدل گیا۔
– “ماں، ٹی وی کی آواز کم کریں۔”
– “بہتر ہو گا کہ آپ اپنے کمرے میں رہیں، دوست آ رہے ہیں۔”
– “اوہ… کیا آپ نے پھر سب کے کپڑوں میں اپنے کپڑے ملا دیے؟ میں نے منع کیا تھا نا!”
اور پھر کچھ جملے…
گھر میں گونجنے لگے:
– “ہم نے آپ کو اپنے پاس رکھا ہے، فائدہ نہ اٹھائیں۔”
– “یہ آپ کا گھر نہیں ہے، ماں۔”
میں نے مدد کرنے کی کوشش کی۔
کھانا بنایا، صفائی کی، بچے کو سنبھالا۔
لیکن ایسا لگتا جیسے میں موجود ہی نہ ہوں۔
یا شاید بدتر— جیسے میں رکاوٹ ہوں۔
ایک رات میں نے لورا کو فون پر کہتے سنا:
– “میری ساس تو ایک مجسمے جیسی ہے جو کونے میں رکھ دیا ہو۔ وہ موجود ہے… لیکن نظر نہیں آتی۔ اور ویسے بھی، ایسا ہی بہتر ہے۔”
اس رات میں سو نہ سکی۔
چھت کو تکتی رہی۔ اور سمجھ گئی۔
میں اپنے ہی خاندان میں گھری ہوئی تھی،
لیکن کبھی اتنی تنہا نہیں تھی۔
ایک ماہ بعد، میں نے گھر چھوڑ دیا۔
انہیں بتایا کہ ایک دوست نے گاؤں میں کمرہ دیا ہے۔
– “اچھا ہی ہوگا، ماں،” کارلو نے کہا،
ایک ایسے سکون کے ساتھ جسے وہ چھپا بھی نہ سکا۔
اب میں گریناڈا کے مضافات میں ایک چھوٹے سے فلیٹ میں رہتی ہوں۔
کافی بناتی ہوں۔ کتابیں پڑھتی ہوں۔
ایسے خطوط لکھتی ہوں جو کبھی بھیجنے کا ارادہ نہیں۔
کوئی مجھے ٹوکتا نہیں۔
کوئی مجھے جج نہیں کرتا۔
میں ستر سال کی ہوں۔
اب کچھ امید نہیں رکھتی۔
بس اتنا چاہتی ہوں کہ
خود کو ایک انسان محسوس کر سکوں۔
نہ کہ بوجھ۔ نہ کہ ایک سایہ ں
آج مجھے معلوم ہےکہ
اصل تنہائی خاموشی نہیں ہے۔۔۔
بلکہ وہ لمحہ ہے جب آپ اُن لوگوں میں ہوتے ہیں جن سے آپ محبت کرتے ہیں،
لیکن وہ آپ کو دیکھتے نہیں۔
وہ آپ کو برداشت کرتے ہیں… لیکن سنتے نہیں۔
آپ وہاں ہوتے ہیں… لیکن جیسے غیر موجود۔
بڑھاپا جھریاں نہیں۔
بڑھاپا وہ تمام محبت ہے جو آپ نے دی۔۔۔
اور وہ تلخ حقیقت کہ اب کوئی اس کی قدر نہیں کرتا۔۔
ترجمہ : کلثوم رفیق

Loading