Daily Roshni News

میری طالب علمی کے دور میں  ، بس ٹو ڈی کے ساتھ سفر اورسنہری یادیں ۔۔۔۔۔۔۔۔تحریر ۔۔۔ اظہر عزمی

میری طالب علمی کے دور میں  ، بس ٹو ڈی کے ساتھ

سفر اورسنہری یادیں ۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریر ۔۔۔ اظہر عزمی

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔۔ میری طالب علمی کے دور میں  ، بس 2Dکے ساتھ سفر اورسنہری یادیں ۔۔۔۔ تحریر ۔۔۔ اظہر عزمی)کراچی میں طبقہ اشرافیہ کے چند ایک لوگوں کو چھوڑ کر تمام اہل کراچی کسی نہ کسی وقت میں بس اور ویگن کے مسافر رہے ہیں۔ میرا دعوی ہے کہ مڈل کلاس طبقہ اشرافیہ (جی ہاں ان میں بھی کلاسز ہوتی ہیں ) کے بچے بھی دوران طالب علمی خاص طور پر 80 کی دھائی تک ان بسوں اور ویگنوں کے مسافر رہے ہیں ۔ اب تو بسیں اور ویگنیں تیزی سے ختم ہو رہی ہیں اور ان کی جگہ چنجی لے رہی ہے۔ کراچی کی بسوں ویگون کا اپنا کلچر رہا ہے جس سے اہل کراچی سے بہت لطف اندوز بھی ہوئے ۔ روز کے چھگڑے ، روز کی تفریح ۔ چلتی بس سے اترنا اور اس پر کنڈیکٹر کا ڈھب ڈھب کرنا ۔ مسافر کو ذرا سے بھی خطرہ ہونا تو پوری بس کا چلانا ” او بھائی پائیلٹ زرا ہلکی کر لے ، کیا مارے گا”۔

کراچی بڑا شہر ہے اس لئے کوئی شخص یہ دعوی نہیں کرسکتا کہ وہ ہر بس ویگن میں سفر کر چکا ہے۔ ہر ایک کی زندگی میں مخصوص بسیں ویگنیں رہی ہیں۔ ہماری زندگی فیڈرل بی ایریا اور گلشن اقبال میں گذری  ہے ۔ فیڈرل بی ایریا میں رہتے ہوئے تعلیم مکمل کی اور ملازمت کا آغاز کیا ، دفتر سے گاڑی مل گئی ۔اس لئے 90 کی دھائی کے ابتدائی سالوں کے بعد بسوں ، ویگنوں میں سفر کا اتفاق کم کم ہوا۔ چلتے ہیں یاد بسگاں کی طرف اور ملواتے ہیں آپ کو اپنی پہلی سفری محبت ٹو ڈی بس سے ۔

صاحبو ! جب زندگی میں ساتھ چلنے والوں کا ذکر خیر کرتا رہتا ہوں تو اس غریب 2D نے کیا گناہ کیا ہے کہ اس بے زبان سے آنکھیں پھیر لوں ۔ میرے برے وقتوں کی دمساز رہی ہے ۔ کسی مرحلہ پر مجھے بھی تو اس کا دم بھرنا لازم تھا سو وہ وقت آگیا ہے ۔اب یہ الگ بات ہے کہ اسکول ، کالج کے زمانے کی تپتی دوپہروں میں اس کے حبس زدہ ماحول میں بھانت بھانت کے پسینوں کی خوشبووں نے کئی دفعہ ہماری سانس ہی روک دیں ۔ بہرحال میں برے وقتوں کی اس بس کا قرض اتارنا بھی فرض سمجھتا ہوں حالانکہ ہمیشہ کرایہ دے کر ہی منزل رسید ہوا ہوں ۔

بھٹو صاحب کے زمانے میں جب قومیانے کی ابتدا ہوئی تو اس کے چھینٹے کراچی کے کماو پوت بس روٹس پر بھی پڑے ۔ سندھ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن قائم کی گئی اور بڑا میدان ناظم آباد سے چلنے والا ایک روٹ بھی بحق سرکار چلا گیا ۔  اس کی یہ ناچار بسیں ٹو ڈی کے نئے روٹ پر آ گئیں ۔ روٹ نورانی مسجد گراونڈ بلاک 20 فیڈرل بی ایریا  براستہ گلبرگ ، پیپلز چورنگی ، علامہ رشید ترابی روڈ ، امام بارگاہ سجادیہ/ ضیاالدیں اسپتال ، مجاہد کالونی (پرانا روٹ پر بعد میں یہ کالونی اسٹاپ میں نہیں آتی تھی )، پیٹرول پمپ ،ناظم آباد چورنگی ، گولیمار (موجودہ گلبہار) ، لسبیلہ ، گرومندر ، سولجر بازار ، صدر اور ٹاور قرار پایا ۔ پہلے یہ ایک مخصوص رنگ یعنی ڈارک گرے کی تھیں جن میں ایک ریڈ پٹی ہوتی تاکہ آپ دور سے پہچان لیں اور سوار ہونے کے لئے گمر کس لیں ۔ آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ بسیں خاندانی تھیں بعد میں اس میں سوتیلی یا لے پالک بسیں بھی شامل ہو گئیں ۔

سنا ہے کہ ٹو ڈی بسیں ٹرانسپورٹ انجمن کے رہنما ارشاد بخاری کی تھیں جو کہ ابتدا میں بہت صاف ستھری اور آرام دہ سیٹوں پر مشتمل ہوا کرتی تھیں ۔ بعد میں یہ حال ہوا کہ جب آپ سفر سے فارغ ہوتے اور بس سے اتر کر دو چار قدم چلتے تو احساس ہوتا کہ سفری دکھ کس کس طرح جسم میں سرایت کر گیا ہے ۔ انگریز بھی کتنا عجیب ہے جہاز میں بیٹھو تو اسے Jet lag کہتا ہے (میں پہلے Jet Leg سمجھتا تھا) اسے کیا پتہ ہماری بسوں کا جیٹ لیگ کہاں کہاں تک اپنے اثر کو چھوڑ جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کسی گورے نے ہماری بسوں میں سفر کے بعد دافع درد گولیوں کا سوچا نہیں ۔ حکیمان شہر جو دنیا کے ہر مرض کا علاج دیواروں پر کئے پھرتے ہیں وہ بھی خاموش ہیں۔  آپ نے کولہو کا بیل سنا ہوگا ۔اگر بس کا سفر لمبا ہو اور شروع میں ہی سیٹ جیسی نعمت مل جائے تو آپ کولھوں کے بیل بن جاتے ہیں۔

خیر جب یہ بسیں اس نئے روٹ پر آئیں تو طالب علموں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کیونکہ یہ واحد روٹ تھا کہ جو سیدھا ناظم آباد کے تعلیمی اداروں سے ہوتا ہوا جاتا تھا  ورنہ اس سے قبل ناظم آباد جانے کے لئے دو بسیں بدلنا پڑتیں اور صبح کے وقت یہ ایک مشکل ترین کام تھا کہ آپ دو بسیں بدل کر وقت پر اسکول ، کالج پہنچ جائیں ۔ صبح اور دوپہر میں ان بسوں میں خوب ہی دھکم پیل ہوتی اور ان اوقات میں یہ بسیں  پہلی چورنگی ناظم آباد سے نورانی مسجد تک اسٹوڈنٹس کے قبضے میں ہوتیں ۔ کہتے تھے کہ جتنے اسکولز اور کالجز 2D کے روٹ پر آتے ہیں اگر بندہ روزانہ صرف 2D میں بیٹھ کر ان کے پاس سے گزر جائے تو بیچلرز کر لے۔

صبح اس شہزادی کے بڑے نخرے ہوتے اور کیوں نہ ہوتے ایک سے ایک مہ وش ، مہ لقا ، نازنین اس کی مسافرہ جو ہوتی ۔ شہزادی نورانی مسجد سے چلتی تو اٹھلاتی بل کھاتی گلبرگ آکر رک جاتی اور پیچھے آنے والی دوسری شہزادی کا انتظار کرتی۔ لڑکے بڑی دھب دھب کرتے ” چلا دے بھائی ! اسکول کالج کو لیٹ ہورہے ہیں۔ پوری بس کچھا کھچ بھری ہے ۔اب کیا اپنے سر بٹھائے گا “۔ کبھی ڈرائیور چلا دیتا اور کبھی نہ چلاتا تو تو تتکار ہوجاتی اور بے حجابانہ جملوں کا تبادلہ ہوتا ۔ یہ بس کم از کم 45 منٹ میں ہمیں پہلی چورنگئ ناظم آباد لا پھینکتی۔ جہاں ہمارا اسکول تھا ۔اسکول کے بعد جب کالج پہنچے تو پھر یہ ہماری ہمراہی تھی۔ بس یوں سمجھ لیں ہماری تعلیمی زندگی میں اس نے بڑا ساتھ دیا ہے یہ الگ بات ہے کہ بہت بہت رو رو کر ۔

نورانی مسجد کے اس آخری اسٹاپ پر ان بسوں کا ہوٹل تھا۔ پہلے یہی ہوا کرتا تھا کہ جہاں آخری اسٹاپ ہوتا وہاں چھابڑی ہوٹل لازمی تھا۔ ہم اسکول میں تھےتو ہمیں شرارت سوجھی۔ دوپہر کو جب سب بس سے اتر گئے تو ہم نے اپنا بلیک مارکر نکالا۔ پہلے بس کے اندر زگ زیگ کر کے بس کا روٹ کے مشہور اسٹاپس لکھے ہوتے ہیں ہم نے ٹاور کے بعد زگ زیگ کر کے دہلی ، آگرہ وغیرہ لکھنا شروع کردیا۔ حشمت واٹر مین نے ہمیں دیکھ لیا۔ حشمت ایک بوڑھا شخص تھا جو لنگڑا کر کے چلا کرتا تھا۔ واٹرمین کا کام یہ ہوتا کہ جب بس اسٹاپ پر آئے تو اس میں پانی ڈالے۔اب گراونڈ میں وہ ہمارے پیچھے بھاگا ۔ہم کہاں اس کے ہاتھ آنے والے تھے۔ بس یہ ہوا کہ کچھ دن  صبح کے وقت اس سے چہرہ چھپا کر کھڑے ہونا پڑا ۔

نارتھ ناظم آباد میں نیاز منزل اور ظفر ہاوس کے بیس بیس قدم سے دو اسٹاپ ہیں۔ نیاز منزل کے سامنے جہاں اب میڈیکل کالج ہے اس کے عقب میں لڑکیوں کا مشہور کمپری ہینسیو اسکول ہوا کرتا تھا ۔ ممکن ہے اب بھی ہو ۔ پرائیوٹ اسکول اور کالج کا  دور دورہ شروع نہ ہوا تھا۔ صبح اور دوپہر بس پر نازنینوں کا قبضہ ہوتا گو کہ اکثر لڑکے چاھتے کہ یہ قبضہ ان کے دلوں تک پہنچ جائے ۔ دوپہر کو کنڈیکٹر یہ کرتا کہ ناظم آباد کی کالج کی لڑکیوں کو مردانہ حصہ میں آخری سیٹوں پر بٹھا لیتا ۔ کچھ لڑکوں کے مزے آجاتے ۔گیٹ ہی نہ چھوڑتے ۔ کنڈیکٹر لاکھ کہے۔ جھگڑے مگر صاحب ان کے کانوں پر جوں تک نہ رینگتی ۔ گیٹ پر لہراتے رہتے اور اپنے کرتب اور جملہ بازی سے لڑکیوں کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے ۔

کچھ لڑکیاں چلبلی سی ہوتیں کبھی کبھار کسی جملہ پر ہنس دیتیں ۔ بس اب سمجھیں لڑکوں میں بہتر سے بہتر جملہ پھینکنے کا مقابلہ شروع ہوجاتا جس میں کبھی بدتہذیبی کا عنصر بھی شامل ہو جاتا۔ کچھ لڑکے تو اتنا آگے بڑھتے اور کنڈیکٹر سے کہتے کہ اس طرف کھڑی  لڑکی کا کرایہ مجھ سے لے لو۔ کنڈیکٹر ایسا عموما نہ کرتا ۔ کمپری ہینسیو اسکول جب آتا تو پھر تو پوری بس پر لڑکیوں کا قبضہ ہوتا ۔ لژکوں اور بڑی عمر کی مسافروں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہو جاتی۔ اب لڑکیوں کی کھی کھی شروع ہو جاتی ۔ ہم جیسے نظر جھکاو ایک طرف ہو جاتے۔ عاشق مزاج لڑکوں کی تو لاٹری کھل جاتی ۔ کبھی کبھی کوئی لڑکی اپنے بھائیوں کو لے آتی تو یہ عاشق مزاج روڈ پر ٹھکائی کے بعد عاشق مزار بن جاتے ۔

جس طرف آنکھ اٹھاوں تیری تصویراں ہیں کرتے کرتے اسکول سے جناح کالج جا پہنچے  مگر نظر کئ پاکیزگی ارے چھوڑیں صاحب ۔۔۔ صاف صاف ڈرہوکی اور احساس کمتری کہہ لیتے ہیں کی وجہ سے پھیکی پھیکی یادیں ہی  وابستہ ہیں جبکہ عاشق مزاجوں کے دلوں میں ناکام محبت کے تیر پیوستہ ہیں ۔ محبت میں غربت کی انتہا دیکھیں ہمارے پاس کوئی افسانہ محبت ہی نہیں سنانے کو ۔ جب کبھی کوئی اپنی اسٹوڈنٹ لائف کے محبتوں کے قصے سناتا ہے تو یقین جانیں خود سے بڑی شرمندگی ہوتی ہے ۔ ہمارا تو یہ حال رہا کہ بقول شاعر :

کسی لڑکی نے دیکھا نہ آنکھ بھر کا مجھے

گذر  گئی ہر ایک  بس  اداس کر کے مجھے

ہماری تو خیر دیکھنے کی ہمت ہی نہ ہوتی تو پھر ہمیں  کوئی کیوں دیکھتا ۔ واجبی سی شکل و صورت اس پر لڑکیوں کو دیکھ کر سمٹ جانے کی بیماری۔ اگر کوئی لڑکی دیکھ لیتی تو شاید ہم بس سے ہی اتر جاتے۔ بس سمجھ لیں پوری اسٹوڈنٹ لائف میں اگر کوئی مونث شامل رہی تو وہ 2D بس ہی تھی ۔

یہ مت سمجھ لیجئے گا کہ اسٹوڈنٹری ختم تو  2D میں انٹرئ بھی ختم ۔ یہ زندگی سے جانے والی نہیں تھی ۔ میرا اور میرے دوستوں کا خیال تھا کہ ہماری تو برات بھی 2D میں جائے گی بلکہ افتخار تو کہا کرتا تھا کہ دادا کو بھی قبرستان اسی میں لے جائیں گے ۔ وہ تو میں نے کہا کہ صرف میت گاڑی میں لیٹ کر جانا allow ہے اور دوسری بات یہ کہ اس کے روٹ پر کوئی قبرستان نہیں آتا ۔ ہاں یہ قبرستان پہنچانے کی وجہ تو بن سکتی ہے مگر وہاں چھوڑ کر نہیں آسکتی ۔ روٹ پرمٹ سے مجبور ہے ۔ حادثے اپنی جگہ ہیں ، مجبوریاں اپنی جگہ ۔ ایک زمانہ یہ بھی گزرا ہے کہ اگر گھر سے باہر سفر میں ہیں تو سمجھ لیں کہ 2D میں ہیں ۔

جس طرح ہر گھر کا ایک فیملی ڈاکٹر ہوا کرتا ہے اسی طرح ہمارے زمانے میں ہر ایک کی ایک فیملی بس ہوا کرتی تھی ہماری پرانی رہائش گاہ بھی ٹو ڈی کی رینج میں تھی اس لئے یہ ہماری فیملی بس بھی تھی ۔ خیر اب وہ زمانے کہاں رہے ۔ اب تو شہر میں لاکھوں گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں آ چکی ہیں۔ آج سے بیس پچیس سال پہلے سب ہی بسوں میں سفر کیا کرتے۔ اپر مڈل کلاس بھی سینہ چوڑا کر کے بس میں بیٹھتے ۔ کوئی جاننے والا مل جاتا تو ہاتھ کے اشارے سے اپنے پاس بلا لیا کرتے۔ خوش ہوتے کہ سفر اچھا کٹ جائے گا۔ محلہ ،خاندان اور گھر کے قصے چھڑ جاتے تو آس پاس موجود لوگ پوری توجہ سے سنتے اور ظاہر یہ کرتے کہ اس طرف دھیان ہی نہیں۔ بھائی بات یہ تھی کہ انہیں بھی تو اپنا سفر کاٹنا ہوتا۔ مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے۔ ایک ٹکٹ میں دو دو مزے جو مل رہے ہوتے۔ پہلے کنڈیکٹر کے پاس ایک مخصوص بیگ نما چمڑے کا تھیلا ہوا کرتا جس میں مختلف ٹکٹوں کے پیسے لکھے ہوتے۔ پیسے لے کر وہ ٹکٹ کاٹ کر دیتا جو اس بات کا ثبوت ہوتا کہ آپ نے ٹکٹ لے لیا ہے۔ بعد میں یہ تمام سلسلہ ختم ہوگیا۔ اب تو وہ ٹکٹ لیتا ہے اور اللہ اللہ خیر سلا ۔

ایک عرصہ ہوگیا ٹو ڈی کو سڑک پر نہیں دیکھا ۔پہلے جب کبھی دیکھتا تھا تو گزرے دنوں کی فلم چل جاتی ۔اب یہ الگ بات ہے کہ یہ ہمارے زمانے میں چل کے نہ دیتی تھی ۔ نورانی مسجد سے روٹ آگے کر کے انٹرنیشنل اسٹوڈیو کے سامنے گراونڈ کے سروس روڈ پر منتقل کردیا گیا تھا ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ روٹ اب گراونڈ ہو گیا ہو ۔ مجھ جیسے کتنے لوگوں کے لئے یہ محض ایک روٹ نہ تھا بلکہ یادوں کی ایک ایسی پگڈنڈی ہے جس پر سفر کبھی ختم نہ ہوگا ۔ پرانے یار اور پرانی بس کا روٹ بھی بھلا بھول جانے کی چیز ہے۔ گنے چنے پیسوں کے ساتھ اس بس پر سفر نے مجھے یادوں سے مالا مال کر رکھا ہے۔

سڑک اور بس کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ دوران سفر کیا ہورہا ہوتا ہے۔ اس کی نہایت خوبصورت اور سفاکانہ (بیک وقت)  حقیقت عزیز من عمران شمشاد نے اپنی نظم “سڑک ” میں بیان کی ہے ۔اس کا ابتدائی کا ٹکڑا سنیں ۔

سڑک

سڑک مسافت کی عجلتوں میں

گھرے ہوئے سب مسافروں کو

بہ غور فرصت سے دیکھتی ہے

کسی کے چہرے پہ سرخ وحشت چمک رہی ہے

کسی کے چہرے سے زرد حیرت چھلک رہی ہے

کسی کی آنکھیں ہری بھری ہیں

کبیر حد سے ابھر رہا ہے

صغیر قد سے گزر رہا ہے

کسی کا ٹائر کسی کے پہیے کو کھا رہا ہے

کسی کا جوتا کسی کی چپل چبا رہا ہے

کسی کے پیروں میں آرہا ہے کسی کا بچہ

کسی کا بچہ کسی کے شانے پہ جارہا ہے

کوئی ٹھکانے پہ کوئی کھانے پہ جارہا ہے

حبیب دستِ رقیب تھامے

غریب خانے پہ جارہا ہے

(عمران شمشاد میرے لئے آخری دو مصرعہ تبدیل کردو تو مزہ آجائے)

حبیب دست کتاب تھامے

کالج پڑھنے  کو جا رہا ہے ۔

Loading