Daily Roshni News

نادیدہ مخلوق۔۔۔ تحریر۔۔۔محمد فہیم۔۔۔قسط نمبر1

نادیدہ مخلوق

تحریر۔۔۔محمد فہیم

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔نادیدہ مخلوق۔۔۔ تحریر۔۔۔محمد فہیم)1960ء کی دہائی میں جب ہم طالب علم تھے، ہمیں سیاحت کا بہت شوق تھا۔ اپنا یہ شوق ہم شمالی علاقہ جات کی سیاحت سے پورا کرتے تھے۔ ہر سال چھٹیاں ہوتے ہی کراچی سے نکلتے۔ ہمارا عارضی ٹھکانہ راولپنڈی کے نزدیک ایک چھوٹا سا قصبہ واہ کینٹ ہوتا تھا جہاں ہمارے چا قیام پذیر تھے۔ نار ہمارے کزن ہمارے ہم عمر ہی تھے۔مہینے بھر کے قیام میں ہم سب دل بھر کے آس پاس کے علاقوں کی سیر و تفریح کرتے اور جب گھر پر ہوتے تو خوب ہلا گلہ کرتے، فلمیں دیکھتے رات کو لیڈ واور کیرم بورڈ کی بازیاں جمتیں۔ واہ کینٹ اس وقت ایک خوب صورت اور چھوٹی سی بستی تھی۔ جس کے ایک جانب واہ آرڈینینس فیکٹری واقع تھی اور دوسری جانب آبادی جو فیکٹری میں کام کرنے والے ملازمین پر مشتمل تھی۔ ) تین اطراف سے خوب صورت پہاڑوں سے گھری اس بستی میں سبزہ کی بہتات تھی۔ پورا واہ کینٹ برگد ، شیشم اور سفیدے کے بلند قامت اور گھنے درختوں سے بھرا ہوا تھا۔ واہ کینٹ شیر شاہ سوری کی بنوائی ہوئی تاریخی جرنیلی سڑک پر آباد ہے۔ واہ کینٹ میں اس سڑک پر شیر شاہ سوری کی بنوائی ہوئی عمارات اور باغات کے کچھ آثار اب تک موجود ہیں۔ ایک روز ہمارا ایک کزن اپنا جنرل اسٹور بند کر کے گھر آیا اور آتے ہی ہماری چچی جان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ….

آیا باہر گلی میں دیکھیں میرو کی بیوی اپنے صحن میں کھڑی ہوئی ہے اور کچھ پریشان سی لگ رہی ہے۔ ذرا معلوم تو کریں کیا بات ہے ؟“ ہماری چچی جان فوراً اٹھ کر میرو کے گھر جاپہنچیں۔

قارئین کرام ! یہ ایک سرکاری بستی تھی اور اس کے مکین سب ہی فیکٹری کے ملازم تھے۔ میرو صاحب کسی نزد یکی گاؤں کے مستقل رہائشی تھے۔ واہ میں ملازمت کے باعث انہیں جو کواٹر الاٹ ہوا تھا وہ دو کمروں ایک در انڈہ اور مختصر صحن پر لب سڑک واقع تھا۔ میر و صاحب یہاں اپنی اہلیہ اور چار عدد چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کے ساتھ مقیم تھے۔ فیکٹری میں ان کی ڈیوٹی کبھی دن کی ہوتی اور کبھی رات کی۔ آج بھی ان کی ڈیوٹی رات کی تھی اور وہ گھر پر نہیں تھے۔ خاتون خانہ پردہ دار تھیں اس لیے ان کا یوں گھر کے باہر کھڑا ہونا کسی مشکل کو ظاہر کرتا تھا۔ میر و صاحب بال بنانے کا کام بھی جانتے تھے جب ان کی رات کی ڈیوٹی ہوتی تو وہ دن کو اپنے کواٹر کی دیوار کے ساتھ ایک کرسی اور آئینہ رکھ کر اپنی دکان سنبھال کر بیٹھ جاتے تھے۔تھوڑی دیر کے بعد چی واپس آکر ہم سب سے مخاطب ہوئیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ میر و گھر پر نہیں ہے، اس کی بیوی اپنے بچوں کے ساتھ تنہا ہے اور کوئی شریر بچہ انہیں تنگ کرنے کے لیے چھوٹے چھوٹے پتھر ان کے گھر میں پھینک رہا ہے۔ جاؤ دیکھو کون اس فیملی کو تنگ کر رہا ہے۔

ہم سب کھیل بند کر کے میر و کے گھر پہنچے جو چی کے گھر سے چو تھا گھر تھا۔ دیکھا تو بہت چھوٹے چھوٹے پتھر آکر ان کے قدموں پر گر رہے تھے لیکن جسم پر نہ لگتے تھے۔ پتھر آکر گرتا۔ کوئی اشارہ کرتا کہ دیکھو سیدھے ہاتھ کی جانب سے آرہا ہے تو اگلا پتھر فور بائیں جانب سے آتا۔ غرض یہ کہ چاروں اطراف سے پتھر آتے رہے۔ ہم سب نکل کر باہر سڑک پر دائیں بائیں گلیوں میں پھیل گئے۔ چھت پر بھی چڑھ کر دیکھا لیکن کچھ پتہ نہ چل سکا کہ کون ہے اور کہاں ہے۔ رات کے پچھلے پہر یہ سلسلہ بند ہو گیا اور ہم سب گھر آکر اس انوکھی وارات پر حیرت کرتے کرتے سوگئے۔ دن گزر گیا لیکن رات ہوتے ہی یہ تماشا پھر شروع ہو گیا۔ ہم پھر جائے وارات یعنی میر و صاحب کے گھر پر موجود تھے۔ پتھر آئے اور کسی کو نقصان پہنچائے بغیر وہاں موجود لوگوں کے قدموں میں ڈھیر ہوتے رہے۔ رات گئے جب پتھروں کی بارش کرنے والے اکتا گئے تو ہم لوگ بھی گھروں کو لوٹے۔ اگلے روز ہم منتظر تھے کہ آج رات دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ ٹھیک نو بجے رات اس کھیل کے شروع ہونے کی اطلاع ملتے ہی پھر موقع وادات پر جا پہنچے۔ اس روز تماشائیوں میں ایک بارہ تیرہ سالہ بچہ بھی شامل تھا جو کہ میرو کے سسرالی رشتے داروں میں سے

تھا اور آج صبح ہی گاؤں سے چند روزہ قیام کے لیے ان کے گھر پہنچا تھا۔

تواتر سے پتھر آتے دیکھ کر وہ بچہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا اور بیچ کر غصے سے مخاطب کر بیٹھا ”کون الو کا پٹھا ہے … ؟ جو چپ کر پتھر مار رہا ہے“۔ بہادر ہے تو سامنے آفیر ویکھاں تو ہے کون ….؟

بس اس کا یہ کہنا غضب ہو گیا، نہ صرف پتھراؤ میں اضافہ ہو گیا بلکہ وہ معمولی سے کنکر بڑے بڑے پتھروں میں تبدیل ہو گئے۔ اب تو وہاں موجود لوگوں کی تشویش میں اور لوگوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو گیا۔ پاس پڑوس کے مزید لوگ بھی تماشائیوں میں شریک ہوئے۔ آس پاس کے گھنے درختوں پر بھی کچھ بہادر لوگ چڑھ گئے کہ پتہ لگا سکیں لیکن کچھ حاصل نہ ہو سکا۔ لوگوں کے کہنے سننے پر میر و صاحب نے اپنی رات کی ڈیوٹی تبدیل کرالی تاکہ وہ رات کو بچوں میں موجودر ہیں لیکن لا حاصل۔

بات گلی محلے سے نکل کر فیکٹری تک جا پہنچی۔ ایک دو اعلی عہدیدار بھی راتوں کو میرو کے گھر آگئے۔ کسی بزرگ و غیرہ کو بلانے کا مشور ہ دیا لیکن میرو نہ مانا۔یہ کھیل جار ہی رہا۔

ہم ایک ماہ کی چھٹیاں گزار کر واپس چلے آئے اور خط و کتابت کے ذریعے وہاں کے حالات سے آگاہ ہوتے رہے۔ اب ان نادیدہ قوتوں نے ان کے گھرانے کو دن کی روشنی میں بھی پریشان کرناشروع کر دیا تھا۔

ہم نے آپ کو بتایا تھا کہ میرونائی بھی تھا اور دن کے اوقات میں گھر کی دیوار کے ساتھ ہی اپنی باربر شاپ چلایا کرتا تھا۔ کنٹونمنٹ ایریا ہونے کے باعث وہاں صفائی ستھرائی پر زور دیا جاتا تھا۔ میر و صاحب نے ایک ڈرم بھی رکھا ہوا تھا جس میں وہ کٹے ہوئے بال۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی  ڈائجسٹ  دسمبر 2024

Loading