ناصر نظامی کی معروف غزل جو نامور عالمی شہرت یافتہ گلوکار عظیم فن کا ر شہنشاہ قوالی محترم جناب استاد نصرت فتح علی خان صاحب نے 1988میں گایا ( یہ مشہور البم تمہیں دل لگی بھول جانی پڑے گی) میں شامل ہے، یہ غزل ٹروپیکل انسٹیٹیوٹ ہال، ایمسٹرڈیم ہالینڈ میں گائی گئی
غزل
گردشوں کے ہیں مارے ہوئے نہ، دشمنوں کے ، ستائے ہوئے ہیں
جتنے بھی زخم ہیں میرے دل پر، دوستوں کے لگائے ہوئے ہیں
جب سے دیکھا تیرا قد و قامت
دل پہ ٹوٹی ہوئی ہے۔ قیامت
ہر بلا سے رہے تو سلامت، دن جوانی کے ، آ یے ہوئے ہیں
اور دے اور دے، مجھ کو، ساقی
ہوش رہتا ہے تھوڑا سا۔ باقی
آ ج تلخی بھی ہے انتہا کی، آ ج وہ بھی ، پرائے ہوئے ہیں
کل تھے آ باد پہلو میں، میرے
اب ہیں غیروں کی محفل میں، ڈیرے
میری محفل میں کرکے، اندھرے، اپنی محفل سجا ئے، ہوئے ہیں
اپنے ہاتھوں سے خنجر ، چلا کر
کتنا معصوم چہرہ ، بنا۔ کر
اپنے کاندھوں پہ ا ب میرے قاتل، میری میت ، اٹھائے ہوئے ہیں
مہ وشوں کو وفا سے ، کیا مطلب
ان بتوں کو ، خدا سے ، کیا مطلب
ان کی معصوم نظروں نے ناصر ، لوگ پاگل ، بنائے ہوئے ہیں
ناصر نظامی
ایمسٹرڈیم ہالینڈ
17/07/2025,