ناول درندہ
قسط نمبر 37
باب چہارم: بدلاؤ
مصنف: زیاد اصغر زارون
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ ناول درندہ۔۔۔ مصنف: زیاد اصغر زارون)تین دن بیت چکے تھے اور زافیر کی طبیعت اب خاصی بہتر ہوچکی تھی۔ تین دن پہلے ڈاکٹر نے چند ادویات تجویز کرتے ہوئے اسے آرام کی سخت تلقین کے ساتھ گھر بھیج دیا تھا۔ ابتدا میں اس کا وجود بوجھل اور نڈھال سا محسوس ہوتا رہا مگر وقت کے ساتھ ساتھ وہ سنبھل گیا اور اب خاصا تندرست دکھائی دے رہا تھا۔
ذبح خانے میں اس کی آمدورفت مستقل طور پر ختم ہوچکی تھی۔ باہر بھی کوئی ایسا ضروری کام نہیں تھا جس کے لیے اسے جانا پڑے۔ ایان کے باقی ماندہ نیٹ ورک کو ختم کرنے کی ذمہ داری محمود بدری کے سپرد تھی۔ بیماری کے دنوں میں زافیر اس معاملے سے لاتعلق سا رہا مگر اب صحت یاب ہوتے ہی وہ پوری طرح اس کام میں محمود کا معاشی طور پر ہاتھ بٹا رہا تھا۔
آج صبح جب سورج طلوع ہوا تو ہلکی روشنی پورے بنگلے کے صحن اور کمروں کو سونے کی چادر اوڑھا رہی تھی۔ خاندان ایک ہی میز پر جمع تھا اور ناشتے کی میز پر خوش گپیوں کا شور گونج رہا تھا۔ صرف مومنہ خاتون حسبِ عادت خاموشی سے ناشتہ کرنے میں مگن تھیں۔
زافیر کے سامنے ایک گلاس رکھا تھا… آبرو کا تیار کردہ خصوصی شربت۔ وہ بے خبر تھا کہ یہ مشروب دراصل اس کی اپنی بیٹی کے خون سے تیار ہوتا ہے۔ وہ اسے ایک صحت بخش مشروب سمجھ کر صبح و شام شوق سے پیتا رہا تھا۔
باتوں ہی باتوں میں حورا نے اپنی جھنجھلاہٹ کا اظہار کیا،
“سچ بتاؤں تو، میں تو اس گھر میں بور ہوگئی ہوں۔ اب یہ بنگلہ کم اور قیدخانہ زیادہ لگتا ہے۔”
آبرو نے فوراً ہاں میں ہاں ملائی، “ہاں، نہیں تو اور کیا۔ نہ سکول جا سکتی ہوں نہ باہر نکلنے کی اجازت ہے۔ جو ٹیچر پڑھانے آتے ہیں، وہ بھی ایسے لگتے ہیں جیسے روبوٹ کتابیں رٹوا رہے ہوں۔”
دونوں کی شکایات سن کر زافیر کے لبوں پر ایک ہلکی مسکراہٹ پھیل گئی۔ وہ چند لمحے خاموش رہا اور پھر نرم لہجے میں بولا،
“تو پھر ایسا کرو… کہیں گھومنے چلتے ہیں۔”
زافیر کے یہ الفاظ سنتے ہی دونوں حیرت زدہ رہ گئیں۔ جیسے اچانک کسی نے قید کی دیواریں ہٹا دی ہوں۔ ان کی آنکھوں میں خوشی اور بے یقینی کی ملی جلی جھلک صاف جھلک رہی تھی۔
“سچی بابا…! کیا واقعی آپ ہمیں گھمانے لے جائیں گے؟” آبرو نے چہکتے ہوئے حیرت اور خوشی سے پوچھا۔
زافیر نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ گردن اثبات میں ہلائی، پھر مومنہ خاتون کی طرف متوجہ ہو کر بولا،
“آپ بھی چلیں گی نا، آنٹی؟”
مومنہ خاتون نے مسکراتے ہوئے فوراً سر نفہ میں ہلایا، “نہیں… کبھی نہیں۔ میں تو بالکل نہیں جاؤں گی۔ تم سب جاؤ اور خوب انجوائے کرو۔ گھر کی فکر مت کرنا، میں یہیں ہوں۔”
آبرو فوراً کرسی چھوڑ کر ان کے گلے میں بانہیں ڈال کر لجاجت سے بولی،
“آنٹی پلیز، آپ بھی چلیں نا۔”
مومنہ خاتون نے نرمی سے اس کی کلائی پکڑ کر خود سے الگ کیا اور مسکرا کر کہا،
“نہیں بیٹا… پیچھے گھر پر بھی تو کسی کو رہنا ہے نا۔”
آبرو نے برا سا منہ بنایا لیکن اگلے ہی پل شرارت سے چہک اٹھی،
“چلیں ٹھیک ہے پھر… ہم واپسی پر کوئی انکل لے آئیں گے۔ پھر ماما اور بابا کی طرح آپ دونوں کی بھی شادی کروا دیں گے۔”
یہ سنتے ہی حورا کی ہنسی چھوٹ گئی اور زافیر بھی ہلکے سے مسکرا دیا۔
مومنہ خاتون نے مصنوعی خفگی چہرے پر طاری کرتے ہوئے کہا،
“اچھا بس، اب جاؤ اپنی کرسی پر بیٹھو۔ بہت بدتمیز ہوگئی ہو تم۔”
آبرو نے ہونٹ پھلا کر برا سا منہ بنایا، پھر واپس کرسی پر بیٹھتے ہی بابا کی طرف دیکھ کر پوچھا،
“کیا ناشتہ کر کے سیدھا گھومنے چلیں گے؟”
زافیر نے نرمی سے سر نفی میں ہلاتے ہوئے جواب دیا،
“نہیں، ابھی نہیں۔ پہلے تیاری کرو۔ کل صبح چلیں گے۔ پھر دس پندرہ دن قدرت کے نظارے دیکھیں گے اور واپس لوٹ آئیں گے۔”
یہ سنتے ہی آبرو کے چہرے پر خوشی اور بھی گہری ہوگئی۔
“اچھا! میں تو سمجھی تھی کہ شام کو ہی واپس آجائیں گے۔”
حورا نے مسکراتے ہوئے زافیر کی طرف دیکھا اور بولی،
“ہم اپنی تیاری پوری کر لیں گے۔ جو سامان کم ہوا وہ آپ کو بتا دیں گے، آپ منگوا لینا۔”
زافیر نے اثبات میں سر ہلایا اور دوبارہ ناشتہ کرنے لگا۔ میز پر برتنوں کی کھنک کے درمیان ایک خوشگوار خاموشی پھیل گئی تھی… ایسی سکون بھری خاموشی جو صبر آزما مصیبتوں کے بعد نصیب ہوتی ہے۔
°°°°°°°°°°
رینا اور زمار ایک بلند پہاڑ کے سامنے کھڑے تھے۔ ایک طرف یہ پہاڑ تھا جو جنوب کی سمت سینکڑوں میل تک پھیلا ہوا تھا۔ اس کی بلندی اتنی پرشکوہ تھی کہ حدِ نگاہ بھی اس کے سروں کو چھو نہ پاتی۔ دوسری طرف اندھیر نگری تھی… ایک ایسی تاریکی جہاں جانے کا تصور بھی دل دہلا دیتا تھا۔ یہاں تک کہ کازمار، آبیاروس اور شنداق جیسے طاقتور حکمران بھی اس میں قدم رکھنے سے خوف کھاتے تھے۔
اندھیر نگری کی صورت ایک دیوار کی مانند تھی۔ ایک تاریک، غیر مرئی دیوار جو سیدھی آسمان کو چھوتی ہوئی شمال کی سمت لامتناہی طور پر پھیلی ہوئی تھی۔
کہا جاتا تھا کہ اندھیر نگری کی گہرائیوں میں ملکہ دارونتھا رہتی ہے۔ ایک ایسی ملکہ جس کے قہر سے چاروں بادشاہ بھی پناہ مانگتے تھے۔ اس کی طاقت اس قدر مہیب تھی کہ اگر وہ کبھی اندھیر نگری کی قید سے آزاد ہو جاتی تو لمحوں میں چاروں سلطنتوں کو خاک میں ملا دیتی۔
لیکن اس کی اصل ہیبت اس کے ظلم میں چھپی تھی۔ کہا جاتا تھا کہ جو کوئی بھی اندھیر نگری میں داخل ہوتا، وہ سب سے پہلے دارونتھا سے امرتا کا تحفہ پاتا… یعنی نہ ختم ہونے والی زندگی۔ مگر یہ زندگی ایک نعمت نہیں بلکہ ابدی قید اور اذیت تھی۔ کیونکہ اس کے بعد وہ ملکہ اپنے شکار کو ایسی اذیت دیتی جس کا تصور بھی ممکن نہیں تھا۔ درد کی وہ لامتناہی قید جہاں مرنے کی خواہش انسان کی سب سے بڑی آرزو بن جاتی تھی۔
پہاڑ یوں لگ رہا تھا جیسے کسی دیو نے اپنے ہاتھوں سے تراش کر ایک عظیم و فلک بوس دیوار کھڑی کر دی ہو۔ اس کے ساتھ ہی اندھیر نگری اپنی بھیانک سیاہی سمیت ایستادہ تھی۔ گویا ایک زندہ وجود جو اپنی تاریکی سے سب کچھ نگل لینے پر آمادہ ہو۔ ان دونوں کے بیچ محض ایک باریک، تنگ اور لرزتی ہوئی پگڈنڈی تھی جو گہرائی کے دہانے پر سانس لیتی محسوس ہوتی تھی۔
رینا اور زمار کے قدم وہاں آ کر تھم گئے۔ دونوں کے دلوں میں ایک ہی سوال سر اٹھا رہا تھا،
“کیا اس خطرناک پگڈنڈی کو عبور کرنا ممکن بھی ہے؟
زمار نے سوچتے ہوئے صندوق ایک طرف رکھا، کندھے سے بیگ اتارا اور دو قدم آگے بڑھا۔ اس کی آنکھوں میں عزم کی چمک تھی جب اس نے کہا،
“پہلے میں جاتا ہوں۔ جب پار پہنچ جاؤں تو تم بھی آجانا۔”
رینا گھبرا کر فوراً آگے بڑھی اور اس کا بازو مضبوطی سے تھام لیا۔ اس کی آواز میں لرزہ تھا،
“نہیں… زمار! یہ بہت خطرناک ہے۔”
زمار نے نرمی سے مسکرا کر اس کا ہاتھ پیچھے ہٹایا۔ پھر جیب سے صندوق کی چابی نکالی اور رینا کی ہتھیلی پر رکھ دی۔ اس کی آنکھوں میں یقین کی چمک اور لہجے میں فولادی عزم تھا،
“یہاں تک پہنچنے کے لیے ہم نے نا جانے کتنے طوفان جھیلے ہیں۔ اب پلٹ جانا ناممکن ہے۔ میں جاتا ہوں… پھر تم بھی آنا۔ مجھے یقین ہے ہم اس دیوار کے اُس پار پہنچ جائیں گے۔”
رینا نے جلدی سے کہا،
“نہیں! ہم پہاڑ کے اوپر سے چلے جائیں تو زیادہ محفوظ ہوگا۔ یہ راستہ ٹھیک نہیں لگتا۔”
زمار نے ایک لمحے کے لیے فلک بوس پہاڑ پر نگاہ ڈالی۔ اس کی نظروں میں خوف نہیں بلکہ حقیقت کی سختی جھلک رہی تھی۔ پھر اس نے آہستگی سے رینا کی آنکھوں میں دیکھا اور کہا،
“کیا تمہیں لگتا ہے ہم یہ پہاڑ عبور کر پائیں گے؟ ایک لمحے کی بھی غفلت ہوئی تو نیچے اتھاہ گہرائی میں جا گریں گے… اور پھر ہمارا وجود ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جائے گا۔”
“اگر ایسا ہے تو پھر ٹھیک ہے… پہلے میں جاؤں گی۔” رینا کے لہجے میں فیصلہ کن سختی تھی۔
زمار کے چہرے پر ناگواری چھا گئی۔ اس نے تلخی سے کہا،
“نجانے تم اتنی ضد کیوں کرتی ہو۔ خاموشی سے میرا انتظار کرو۔ جب میں دوسری طرف پہنچ جاؤں تو تم صندوق سے تاج لے کر میرے پیچھے آ جانا۔”
یہ کہہ کر وہ آگے بڑھنے کی تیاری کرنے لگا۔ اس نے نہایت احتیاط سے اپنی کمر، بازو، سر اور ایڑھیاں پہاڑ کی چٹان کے ساتھ جوڑ لیں۔ گویا اپنے وجود کو دیوار سے چپکا دیا ہو۔ پھر آہستہ آہستہ قدم گھسیٹتے ہوئے پگڈنڈی پر بڑھنے لگا۔
ہر بار جب اس کا پیر گھسٹ کر ذرا سا آگے جاتا تو رینا کی سانس حلق میں اٹک جاتی۔ اور جب وہ دونوں پیر ملا کر لمحہ بھر کو رک جاتا تو اس کے وجود میں گویا زندگی لوٹ آتی۔
زمار کے قدم اندھیر نگری کی دیوار کے ساتھ ساتھ تھے۔ وہ غیر مرئی تاریک دیوار اس کے پیروں کی انگلیوں اور سینے سے محض ایک انچ کے فاصلے پر تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ کسی زندہ، خوفناک وجود کے ساتھ چل رہا ہو جو ذرا سی لغزش پر اسے نگل لے گا۔ اس طرح توازن برقرار رکھنا بڑے سے بڑے ماہر کے لیے بھی مشکل تھا لیکن زمار کی احتیاط اور ہمت اس لمحے فولاد کی طرح مضبوط دکھائی دے رہی تھی۔
رینا دھڑکتے دل کے ساتھ اسے دیکھ رہی تھی۔ اس کے دل کی دھڑکن تیز تر ہو رہی تھی۔ زمار نے ایک قدم اور آگے بڑھایا پھر پلٹ کر رینا کو دیکھتے ہوئے ہلکی سی مسکراہٹ دی، جیسے اسے حوصلہ دینا چاہتا ہو۔
مگر اگلے ہی لمحے سب کچھ بدل گیا۔ اچانک اس کا توازن بگڑ گیا۔ ایک پاؤں ذرا سا پھسل کر اس کا پنجہ اندھیر نگری میں چلا گیا۔
رینا کے چہرے پر خوف کی لہر دوڑ گئی۔ اس کی آنکھیں پھیل گئیں اور وہ پوری طاقت سے چیخی،
“زمار… تمہارا پاؤں…!”
زمار نے خوف زدہ نگاہوں سے اپنے پاؤں کی طرف دیکھا۔ وہ آدھے سے زیادہ اندھیرے میں ڈوب چکا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ اسے کھینچ پاتا، اچانک کسی غیر مرئی طاقت نے اس کی پاؤں کو مضبوطی سے جکڑ لیا۔ اگلے ہی پل ایک زوردار جھٹکے کے ساتھ وہ اندھیر نگری کی بے انتہا تاریکی میں کھنچتا چلا گیا۔
“زمار…! زمار…!” رینا کی دل دہلا دینے والی چیخ فضا میں گونج اٹھی۔ وہ بے بسی سے دہاڑیں مار مار کر رونے لگی۔ اس کی آواز پہاڑوں سے ٹکرا کر بار بار لوٹتی، گویا کائنات خود اس کے غم کی گواہی دے رہی ہو۔
وہ جانتی تھی… ہاں، وہ بخوبی جانتی تھی کہ اب زمار کبھی لوٹ کر نہیں آئے گا۔ وہ اندھیر نگری کی اس گہرائی میں جا گرا تھا جہاں موت بھی نصیب نہیں ہوتی۔ وہاں تو بس اذیت کا لا متناہی سمندر تھا۔ ایسی اذیت جو ہر لمحہ روح کو چیرتی اور کبھی ختم نہیں ہوتی۔
رینا روتے روتے ہچکیوں میں ڈوب گئی۔ اس کے الفاظ چیخوں کے درمیان ٹوٹ ٹوٹ کر نکل رہے تھے،
“میں نے کہا تھا… میں نے کہا تھا کہ پہاڑ کے راستے سے چلتے ہیں…!”
وہ اپنی ہی صدا میں ڈوبتی جارہی تھی، بین کرتی ہوئی چلّائی،
“تم نے میری بات کیوں نہیں مانی…؟”
اس کے قدموں کی ہمت جواب دے گئی اور وہ دھڑام سے گھٹنوں کے بل زمین پر گر پڑی۔ پھر آہستہ آہستہ اپنے دکھ کے بوجھ تلے زمین پر ہی لیٹ گئی۔ اس کے آنسو بنجر زمین پر بکھر رہے تھے۔ جیسے دل کا بوجھ باہر نکل کر دنیا کو دکھا رہا ہو۔
بھائی کے بچھڑنے کا صدمہ اس کے وجود کو اندر ہی اندر چاٹنے لگا۔ جب اس کا خاندان بکھر گیا تھا تو وہی تو تھا جو کندھے سے کندھا ملا کر ساتھ چلتا رہا۔ اور اب… اب وہ بھی رخصت ہو گیا تھا۔ رخصت نہیں… بلکہ اندھیر نگری کے اس قید خانے میں جا گرا تھا… اذیت کے اس لامتناہی جہنم میں، جہاں سے واپسی کبھی ممکن نہیں تھی۔
°°°°°°°°°°
اندھیر نگری کی دیوار کے اُس پار… گہرے اندھیرے کے سائے میں دو سفید، دہکتے چراغوں جیسی آنکھیں موجود تھیں۔ وہ آنکھیں مسلسل رینا اور زمار کو گھور رہی تھیں۔ اس وجود کا باقی جسم مکمل طور پر تاریکی میں لپٹا ہوا تھا۔ جیسے وہ اندھیرے کے اندر معلق ہو۔ یہ تھی متوازی دنیا کی سب سے خطرناک اور دہشت ناک ہستی، خوف کی علامت… ملکہ دارونتھا۔
وہ خاموشی سے انہیں دیکھتی رہی، گویا کسی شکار کا انتظار کر رہی ہو۔ جب زمار احتیاط سے چٹان کے ساتھ لگ کر آگے بڑھنے لگا تو ملکہ بھی اس کے ساتھ ساتھ حرکت کرنے لگی۔ جیسے ہر قدم پر وہ اس کے سائے کی طرح ساتھ بہہ رہی ہو۔
پھر وہ لمحہ آیا جب زمار کا توازن بگڑ گیا۔ اس کا ایک پاؤں اندھیر نگری کی تاریکی میں ڈوبا ہی تھا کہ ملکہ کے لبوں پر ایک سفاک مسکراہٹ بکھر گئی۔ اس کے سفید دانت گھپ اندھیرے میں یوں چمکنے لگے جیسے ہیروں کا جھرنا۔ اگلے ہی پل وہ جھکی اور ایک جھٹکے میں زمار کو تاریکی کی طرف کھینچ لیا۔
اندھیر نگری میں قدم رکھتے ہی زمار کے لبوں سے ایسی چیخ ابھری جو اندھیروں سے ٹکرا کر خوف کا شور بن گئی۔ لیکن یہ چیخ صرف اندھیر نگری کے خوف سے نہیں تھی… اصل وجہ وہ بھیانک کیفیت تھی جس میں وہ جا چکا تھا۔ اس کا جسم پستی کی طرف مسلسل گرتا چلا جا رہا تھا۔ گویا کسی نے اسے آسمان سے زمین پر پھینکا ہو اور پھر زمین کو بھی کھینچ کر غائب کر دیا ہو۔
وہ بس گر رہا تھا… اور گرتا ہی جارہا تھا… ایک نہ ختم ہونے والے خلا میں۔ کبھی وہ سیدھا نیچے کی سمت لپکتا، کبھی ایک دائرے میں گرتا چلا جاتا اور کبھی اس کا جسم بے قابو ہوکر اپنے ہی گرد گھومنے لگتا۔ تاریکی نے اسے چاروں طرف سے گھیر لیا تھا اور اس کی گونجتی ہوئی چیخیں اندھیر نگری کے لامتناہی خلا میں ڈوب رہی تھیں۔
ابتدا میں زمار نے خوف کے مارے آنکھیں بند ہی رکھیں۔ لیکن کچھ دیر بعد ہمت جٹا کر جیسے ہی پلکیں اٹھائیں تو اس کے سامنے صرف دو سفید، دہکتے چراغوں جیسی آنکھیں دکھائی دیں… ایسی آنکھیں جو سیدھا اس کی روح تک اُتر رہی تھیں۔ اس کے اردگرد کچھ بھی نہیں تھا، بس وہی دو آنکھیں… تاریکی میں معلق۔
اچانک ایک آواز گونجی… ایک ایسی آواز جو کانوں میں نہیں بلکہ پورے وجود میں گونجی۔ یوں محسوس ہوا جیسے ہزاروں آتش فشاں ایک ساتھ پھٹ پڑے ہوں۔
“تُم… ہو… فلفان کے… خاندان سے…”
یہ الفاظ اس کے کانوں میں اس طرح اُترے جیسے کسی نے پگھلا ہوا سیسہ اس کے کانوں میں انڈیل دیا ہو۔ وہ آواز دماغ تک پہنچی اور دماغ کو اندر ہی اندر بھڑکتی آگ میں بدل دیا۔ زمار اذیت سے تڑپ اٹھا، اس کے حلق سے دردناک چیخ نکلی جو اندھیر نگری کے خلا میں گونجتی رہی۔ مگر یہ آواز کبھی باہر نہیں جا سکتی تھی… اندھیر نگری اپنی چیخیں ہمیشہ قید رکھتی تھی۔
درد کی شدت سے اس کے کانوں، آنکھوں اور ناک سے خون بہنے لگا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کا دماغ سلگتی بھٹی میں جھونک دیا گیا ہو۔
پھر وہی دہشت انگیز آواز دوبارہ ابھری،
“تُم… ہو… میرے… سب سے… بڑے دشمن…”
یہ الفاظ ایک اور قہر کی مانند اس پر برسے۔ اذیت کی انتہا سے زمار دوبارہ چیخ اٹھا۔ وہ اب بھی لامتناہی خلا میں گرتا جا رہا تھا، مگر ہر بار جب اس کا جسم گھومتا… وہی آنکھیں سامنے رہتیں۔ جیسے کائنات کے تمام زاویے صرف انہی آنکھوں کے طواف میں قید ہوں۔
پھر اچانک، ملکہ کی آواز رُکی اور اگلے ہی لمحے آگ کے دہکتے شعلے زمار کے وجود کے گرد لپٹ گئے۔ وہ جلنے لگا۔ اس کی کھال، اس کا ماس، ہر ریشہ سلگنے لگا۔ جلن اتنی شدید تھی کہ وہ پاگلوں کی طرح چیختا رہا۔
لیکن انہی شعلوں کے بیچ… اس نے پہلی بار ملکہ دارونتھا کا دیدار کیا۔
ملکہ دارونتھا کی رنگت گہری سیاہ تھی… ایسی سیاہی جو اندھیرے میں مزید بھیانک گہرائی اختیار کر لیتی تھی۔ اس کے نین نقش عجیب سے تاثر پیش کر رہے تھے۔ بظاہر وہ انسانوں جیسی تھی لیکن اس کے خدوخال ایسے تھے جیسے کوئی الگ ہی انسانی قبیلے سے ہو۔ جیسے منگول، عرب، ایشیائی، افریقی اور امریکی نسلوں کے چہرے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ ایسے ہی اس کے نقش ان سب سے یکسر جدا، پرکشش اور عجیب امتزاج تھے۔ ایک ایسی صورت جسے انسانی آنکھ پہلی بار دیکھ کر لرز بھی جائے اور اس کے نقوش میں ایک پل کو کھو بھی جائے۔
زمار نے اسے محض ایک جھلک بھر میں دیکھا۔ وہ بھی اس وقت جب درد اور جلن نے اس کے حواس کو چیر رکھا تھا۔ مگر وہ سرسری سی نگاہ بھی اس کے ذہن پر گہرا نقش چھوڑ گئی۔
دوسری طرف اس کا اپنا جسم عذاب میں ڈوبا ہوا تھا۔ آگ کے شعلے گوشت کو پگھلا کر ہڈیوں سے جدا کر رہے تھے۔ ماس ہڈیوں سے اُکھڑ کر گر رہا تھا اور جسم کی سفید ہڈیاں عریاں ہو رہی تھیں۔ آگ اب اس کی آنکھوں تک جا پہنچی تھی۔ اچانک ایک فلک شگاف چیخ اس کے حلق سے نکلی اور پھر اس کی آنکھیں پھٹ گئیں۔
وہ اذیت کے ایسے جہنم میں تھا جہاں موت بھی ممکن نہیں تھی۔ وہ ہر لمحہ موت کی بھیک مانگ رہا تھا لیکن اندھیر نگری میں موت کوئی نجات نہیں تھی، یہاں صرف لامحدود اذیت کا سفر تھا۔
وہ مسلسل گہرائیوں میں گرتا چلا جارہا تھا۔ اب اس کا وجود گوشت پوست سے خالی ایک سیاہ ڈھانچے میں بدل چکا تھا، جسے ابھی تک آگ کے شعلوں نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ اس ڈھانچے سے نکلتی ہوئی سنسناتی اور لہراتی چیخیں یوں محسوس ہو رہی تھیں جیسے کسی نے جہنم کی گہرائیوں میں بھیانک سیٹیاں بجا دی ہوں۔
پھر اچانک آگ تھم گئی۔ لیکن یہ اختتام نہیں تھا… اصل اذیت تو اب شروع ہوئی۔ اس کے جل کر راکھ ہو چکے جسم پر نئے سرے سے ماس اگنے لگا۔ رگوں میں لہو دوڑنے لگا، پٹھے ہڈیوں پر چڑھنے لگے۔ یہ عمل جلنے کی اذیت سے کہیں زیادہ کربناک تھا۔ ہر لمحہ یوں لگتا جیسے ہزاروں چاقو ایک ساتھ اس کے جسم کو اندر سے کاٹ رہے ہوں۔
زمار جانتا تھا کہ ملکہ دارونتھا کی سزا خوفناک ہوتی ہے مگر اس حد تک بھیانک اذیت کا وہ تصور بھی نہیں کر سکا تھا۔ اس کے دل میں ایک ہی پچھتاوا بار بار دہکتا رہا… وہ لمحہ جب اس نے رینا کی خواہش پر اس سفر کی حامی بھری تھی۔
اب اس کا نیم تیار جسم، آدھے ماس اور آدھے ڈھانچے کے امتزاج کے ساتھ، ایک ہولناک منظر پیش کر رہا تھا۔ درد اتنا شدید تھا کہ اس کی چیخیں اندھیر نگری کی گہرائیوں میں گونجتی ہوئی لامحدود عذاب کی صدا بن گئی تھیں۔
°°°°°°°°°°
ندیم گزشتہ تین دنوں سے تہہ خانے میں ہی قید تھا۔ نہ باہر نکلنے کا حوصلہ رہا تھا اور نہ ہی شکار پر جانے کا دل چاہ رہا تھا۔ وہ پہلے بھی اپنے شکار کے بعد پچھتاوے کا شکار ہوتا رہا تھا مگر اس بار معاملہ اور بھی بھیانک تھا… ایک طالب علم کی جان لینے کے بعد وہ اپنے وجود سے نفرت کرنے لگا تھا۔ اسے لگتا تھا جیسے وہ زمین میں دھنس رہا ہو، اپنے ہی وجود کے بوجھ تلے کچلا جا رہا ہو۔
آخرکار آج وہ غم ہلکا کرنے کے لیے تہہ خانے سے نکلا۔ پہاڑوں کے درمیان سے گزر کر جنگل میں داخل ہوا اور بغیر کسی مقصد کے دور نکلتا گیا۔ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ جائے تو کہاں، رکے تو کہاں۔ کبھی چلتے چلتے اچانک آنکھوں میں آنسو بھر آتے، اپنے کیے گئے ظلم اس کے دل کو کاٹنے لگتے۔ ہر یاد اس کے وجود پر بوجھ بن کر گرتی اور وہ شدید نفرت سے کانپنے لگتا۔
یوں ہی قدم بڑھاتے بڑھاتے وہ ایک سنسان سڑک تک پہنچ گیا اور خاموشی سے کنارے کنارے چلنے لگا۔ راستہ ویران تھا، یہاں تک کہ اچانک پیچھے سے ایک بس کے انجن کی گڑگڑاہٹ سنائی دی۔ چند لمحوں بعد مسلسل ہارن بجنے لگے۔ ندیم اپنے خیالوں میں کھویا آگے بڑھتا رہا۔ جب بس اس کے قریب پہنچی تو دھیرے سے رفتار کم کی اور آخرکار رک گئی۔
کنڈکٹر نے کھڑکی سے جھانک کر اسے آواز دی،
“او پائین… جانڑا جے تے آجاؤ، بس خالی پئی اے ساری!”
ندیم نے ایک لمحے کو سر اٹھا کر کنڈکٹر کو دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں بے سمتی اور شکستہ خاموشی تھی۔ پھر وہ ایسے بس میں سوار ہوگیا جیسے کوئی بے منزل مسافر جسے بس چلنا ہے، جانا ہے، مگر کہاں؟ یہ اسے بھی نہیں معلوم تھا۔
جب وہ بس میں چڑھا تو اندر کھچا کھچ بھیڑ تھی۔ کچھ کالج کے لڑکے کندھوں پر بیگ لٹکائے تنگی کے باعث کھڑے تھے۔ ندیم نے جیسے ہی ایک تیز اور غصیلی نگاہ کنڈکٹر پر ڈالی، وہ کھسیانی سی ہنسی ہنس کر بولا،
“پائین… پریشان نہ ہو، بس تھوڑا اگے جا کے سواریاں اترن گیاں، فیر تساں نوں چنگی سیٹ تے بٹھا دیساں۔”
بس کے اندر ایک عجیب سی بے سکونی تھی۔ شور اور ہلچل میں ندیم کے دماغ میں چلنے والے سارے خیالات جیسے اچانک غائب ہوگئے اور اب ان کی جگہ محض غصے کی ایک لہر نے لے لی۔ وہ چھت سے لگے اسٹیل راڈ کو پکڑ کر کھڑا ہوگیا اور اپنے گرد موجود لوگوں کو پرکھنے لگا۔
سامنے ایک سیٹ پر دو خواتین بیٹھی تھیں جو سرگوشیوں میں باتیں کر رہی تھیں۔
ایک نے منہ بگاڑتے ہوئے کہا،
“میری سس تے بڑی کبتی اے… ہر ویلے دماغ چٹدی رہندی اے… جینڑا حرام کر رکھیا اس۔”
دوسری نے ہنستے ہوئے جواب دیا،
“میں تے اپنے میاں نوں ہتھاں تے پا رکھیا اے… میں آکھاں تے سویر، جے آکھاں تے رات… اوہ میری گل اگے دوجی گل کردا ای نئیں۔”
وہ دونوں اپنی باتوں میں محو تھیں۔ ہنسی مذاق ان کے چہروں پر کھیل رہا تھا، مگر ندیم کا دھیان اپنی ہی دنیا میں کھو چکا تھا۔ اس کے اندر ایک بھیانک فیصلہ ابھر آیا، ایک ایسا فیصلہ جو اس کے اندر کے عذاب کو اور زیادہ گہرا کر رہا تھا۔
اس کے دل نے حکم صادر کر دیا،
“ایک بزرگوں کی گستاخ… دوسری خاوند کو ذلیل کرنے والی… دونوں کی سزا صرف موت ہے۔”
اب اس کی نظر دوسری سیٹ پر جا ٹکی۔ وہاں دو بزرگ بیٹھے ملکی حالات پر بحث کر رہے تھے۔
ایک بولا،
“یار فیقیا… ہر شے مہنگی ہو گئی اے… ہُنڑ تے گزارا وی مشکل ہو گیا۔ پتا نی ایہہ سیاستدان کدوں مرن گے تے جان چھٹے گی۔”
دوسرے نے ہنستے ہوئے کہا،
“ساڈے چاہنڑ نال کی ہونڑا پراوا… پورا ملک ای شیطاناں دے ہتھ چڑھ گیا اے۔”
پھر وہ اچانک سنجیدہ ہوا، گردن ذرا سی جھکائی اور آہستہ آواز میں سرگوشی کی،
“چھڈ ایہہ گلاں… دس وئی، ڈنگر دُدھ کِنا دے رہے نیں؟”
یہ سنتے ہی پہلے بزرگ کے لبوں پر ایک فخریہ مسکراہٹ پھیل گئی۔ وہ بھی سرگوشی کے ہی انداز میں بولا،
“بس یار… دُدھ تے پندرہ کلو ای دیندیاں، باقی پنج چھ کلو پانی نال کسر پوری کر لیندا واں۔”
دوسرے بزرگ کی آنکھوں میں چمک ابھری، جیسے کسی چھپی کمائی کا راز پا لیا ہو۔ اس نے بھی اپنا پردہ فاش کیا،
“میں کل پولٹری فارم توں مرغیاں ویچ دِتیاں۔ ڈیلر دے آونڑ توں پہلاں فیڈ تے پانی رج کے پِلا دِتا… ہزار مرغی پِچھے پنجا کلو وزن ودھا لِیا۔”
یہ سنتے ہی پہلا بزرگ کھلکھلا کر ہنسا اور تھوڑی بلند آواز میں تعریف کی،
“واہ فیقیا… توں تے بڑا ای تیز نکلیا… چھا گیا ایں وئی!”
اپنی تعریف پر وہ بزرگ چوڑا ہو کر بیٹھ گیا، جیسے کوئی فاتح ہو۔
لیکن ندیم ان سب کو گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ اس کے دل میں ایک زہر بھری سرگوشی ابھری،
“یہ کرپٹ، بے ایمان اور حرام خور بڈھے… جنہیں جینے کا کوئی حق نہیں۔”
اتنے میں دو طالب علم، جو ایک دوسرے کی طرف رُخ کیے کھڑے تھے، مدھم آواز میں سرگوشیاں کرنے لگے۔ باقی مسافروں کو کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا، لیکن ندیم کے کان ہر لفظ سمیٹ رہے تھے۔
ایک بولا،
“یار، تم نے اچھا نہیں کیا… اپنی معشوق کو نقل کروائی مگر مجھے کچھ نہیں بتایا۔”
دوسرا ہلکی کھسیانی ہنسی کے ساتھ بولا،
“ہی ہی ہی… میں تو خود پرچیاں لے کر آیا تھا۔ اب اگر اسے نقل نہ کرواتا تو وہ مجھے منہ ہی نہ لگاتی۔”
پہلے نے برا سا منہ بنایا اور خفگی سے کہا،
“یہ تو بھلا ہو کامی کا، جس نے مجھے چند سوال لکھوا دیے… اب امید ہے پاس ہو جاؤں گا۔”
ندیم نے ان پر ایک سخت اور کاٹتی ہوئی نظر ڈالی، پھر آنکھیں پھیر لیں۔ اس کے ذہن میں ایک زہر بھرا خیال ابھرا،
“یہی معاشرے کے ناسور ہیں… جو بڑے ہوکر دوسروں کا حق ہڑپ کرتے ہیں۔ بے ایمان، کمزور کردار… موت کے حقدار۔”
وہ پوری بس میں نظریں دوڑاتا رہا، ایک ایک انسان کے چہرے، انداز اور باتوں کو پرکھتا رہا۔ ہر چہرے پر اسے کوئی نہ کوئی خامی، کوئی نہ کوئی گندگی نظر آتی۔
اور آخر میں اس کی نظر ایک کالی داڑھی والے شخص پر جا ٹکی جو خاموشی سے اپنی تسبیح پر ورد کر رہا تھا۔ ندیم نے ایک سرد سا سانس بھرا اور دل ہی دل میں سوچا،
“آج تو یہ شخص سب کی جان بچا گیا… ورنہ موت سب کا مقدر ٹھہر چکی تھی۔”
یوں ہی ندیم سب کو پرکھتا جا رہا تھا کہ اچانک بس کی رفتار مدہم ہوئی اور تھوڑا آگے جا کر رک گئی۔
کنڈکٹر نے زور سے آواز لگائی،
“بی بی… اسٹاپ آگیا جے… چلو جلدی کرو۔”
سامنے بیٹھی عورت نے آہستگی سے دوپٹہ سمیٹا، گود میں لیٹے بچے کو اپنے کندھے سے لگایا اور سنبھل سنبھل کر قدم آگے بڑھانے لگی۔ جیسے ہی وہ داڑھی والے شخص کے قریب سے گزری، اس نے ایک لمحے کو نگاہ اٹھائی اور اس کا چہرہ گھور کر دیکھا۔ عورت بے خبر آگے بڑھ گئی، مگر وہ شخص زیرِ لب بڑبڑایا،
“واہ… کیا چیز ہے۔”
یہ الفاظ اوروں کے کانوں تک نہ پہنچے مگر ندیم کی تیز سماعت نے انہیں قید کر لیا۔ بس اتنا سننا تھا کہ اس کے دماغ میں غصے کا لاوا پھٹ پڑا۔ آنکھوں میں سرخی اتر آئی، جبڑے بھنچ گئے اور رگیں ابھر آئیں۔ اندر چھپا درندہ پوری شدت سے بیدار ہو چکا تھا، جیسے شیطان اس کے کان میں سرگوشی کر کے نیا شکار دکھا چکا ہو۔
ندیم ایک جھٹکے سے پلٹا، لمبے قدموں کے ساتھ ڈرائیور کے قریب جا کھڑا ہوا اور شیشے کے پار گھورنے لگا۔ باہر کا منظر دھندلا تھا لیکن اندر اس کی آنکھوں میں ایک ہی منظر تھا… خون اور درندگی سے لبریز۔
عورت کو اتارنے کے بعد بس دوبارہ چل پڑی۔ کچھ لمحے گزرے ہی تھے کہ کنڈکٹر ندیم کے قریب آیا اور دوستانہ انداز میں بولا،
“کتھے جانڑا جے، پائین؟”
ندیم چونکا، اس کی طرف پلٹا اور پوچھا،
“یہ بس کہاں جا رہی ہے؟”
کنڈکٹر نے جواب دیا،
“سیالکوٹ… تسی کتھے جانڑا؟”
ندیم نے لمحہ بھر سوچا، پھر جیب سے والٹ نکالتے ہوئے بولا،
“وہیں لے چلو… کتنا کرایہ ہے؟”
کنڈکٹر نے فوراً کہا،
“اک سو ستر روپے، پائین۔”
ندیم نے والٹ سے نوٹ گنے، اس کے ہاتھ پر رکھ دیے اور دوبارہ شیشے کے پار دیکھنے لگا۔ باہر کی سڑک سنسان تھی… نہ کوئی گاڑی… نہ کوئی بائیک۔ فضا میں ایک غیر معمولی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔
اب بس پہاڑوں کے بیچ سے گزر رہی تھی اور ایک ایسے مقام پر پہنچ گئی تھی جہاں بائیں طرف ایک ہولناک گہری کھائی منہ کھولے کھڑی تھی۔ کھائی کی تاریکی ایسی تھی جیسے زمین ہی ختم ہو کر کسی نہ ختم ہونے والے خلا میں بدل گئی ہو۔ بس کے پہیوں کی گھڑ گھڑاہٹ اس سناٹے میں اور زیادہ خوفناک لگ رہی تھی۔
اچانک ندیم آگے لپکا اور جھٹکے سے اسٹیئرنگ پر ہاتھ جما دیا۔ لمحے بھر میں اس نے اسے پوری طاقت سے بائیں جانب گھما دیا۔ یہ سب اتنی تیزی سے ہوا کہ کسی کو کچھ سمجھنے کا موقع ہی نہ ملا۔ ڈرائیور کے دل پر جیسے بوجھ کا پہاڑ ٹوٹ پڑا، اس نے پوری قوت سے مزاحمت کرنے کی کوشش کی مگر تب تک بس سڑک کی لکیر توڑ چکی تھی اور کھائی کی طرف مڑ گئی تھی۔
پہلے بس نے ایک جھٹکے سے پہاڑ کے کٹاؤ کو چھوا، پھر ایک لمحے کو سیدھی ہوئی۔ مگر اگلے ہی پل ندیم پلٹا اور سائیڈ ڈور سے باہر چھلانگ لگا دی۔ اس کی چھلانگ کے ساتھ ہی بس زمین سے آزاد ہوگئی اور ڈھلوان پر لڑھکتے ہوئے پورے وجود کے ساتھ کھائی کی گہرائی میں جھول گئی۔
بس کے اندر ایک قیامت برپا ہوگئی۔ مرد و عورت، بچے اور بزرگ سبھی کی چیخیں فضا میں بھر گئیں۔ یہ چیخیں ایسی تھیں جیسے روحوں کو کسی نے جلتی بھٹی میں دھکیل دیا ہو۔ ہر صدا میں خوف، بے بسی اور موت کی دہشت گھل چکی تھی۔ مگر یہ بھی صرف لمحہ بھر کا شور تھا۔
اگلے ہی لمحے بس کھائی کی بے رحم گہرائی میں پتھروں سے ٹکرا کر تباہ ہوگئی۔ دھات کے کچلے ہوئے ٹکڑے اور انسانی جسموں کی ٹوٹتی ہڈیاں ایک ساتھ چرچرا کر سنائی دیں۔ کچھ ہی لمحات بعد وہاں موت کی ایسی خاموشی چھا گئی کہ لگتا تھا کبھی کوئی آواز ابھر ہی نہیں سکتی۔
ندیم بھی اس انجام سے بچ نہیں پایا۔ اس کا وجود پہاڑی ڈھلوان پر لڑھکتا ہوا گولائی میں گھومتا گیا اور پھر کھائی میں جا گرا۔ ابھی وہ نیچے نہیں پہنچا تھا کہ لمحے بھر کے لیے اس نے اپنے آپ کو سنبھالا، کمر کو نیچے کی طرف جھکایا، چہرہ آسمان کی طرف اٹھایا اور دونوں بازو پھیلا دیئے۔ اس کے لبوں پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ ابھری… ایسی مسکراہٹ جیسے کوئی اپنے مقدس فرض کی تکمیل کے بعد سکون میں آ گیا ہو۔
لیکن یہ مسکراہٹ محض پل بھر کی تھی۔ اگلے ہی لمحے اس کا جسم پوری شدت سے نیچے پتھروں سے ٹکرا گیا۔ ریڑھ کی ہڈی ٹکڑوں میں بٹ گئی، کھوپڑی تڑخ کر ٹوٹ گئی، بازو اور ٹانگیں اس زور سے چکناچور ہوئیں جیسے کسی نے مٹی کی گڑیا توڑ دی ہو۔ پورا جسم زخموں سے بھرا ہوا تھا، ہر ہڈی کچلی جا چکی تھی۔
اس کے وجود، منہ اور ناک سے خون بہہ کر زمین کو سرخ کر رہا تھا۔ وہ زندہ تو تھا مگر مکمل مفلوج۔ نہ پلک جھپک پا رہا تھا، نہ لب ہل پا رہے تھے۔ سانس حلق میں اٹک گئی تھی اور دل کی دھڑکنیں بکھر کر مدھم ہوتی جا رہی تھیں۔ چند لمحوں کی اس اذیت کے بعد اس کی آنکھیں آہستگی سے بند ہو گئیں، گردن ایک طرف کو ڈھلک گئی اور جسم مکمل طور پر بے جان ہو گیا۔
اب وہ لاش پتھروں کے اوپر پھیل کر پڑی تھی… خاموش، بے بس اور اجڑی ہوئی۔ یوں لگ رہا تھا گویا ندیم نے اپنے اختیار سے زندگی کو الوداع کہہ کر، اپنے خود ساختہ فرض کی تکمیل کے بعد خود کو موت کے حوالے کر دیا ہو۔
°°°°°°°°°°
رینا نا جانے کب سے زمین پر گری سسکیاں بھر رہی تھی۔ آنسو اس کے گالوں پر بہہ بہہ کر سوکھ گئے تھے مگر غم کی شدت ابھی بھی کم نہیں ہوئی تھی۔ جب بھائی کے بچھڑنے کا صدمہ ذرا ہلکا ہوا تو اس نے کپکپاتے وجود کے ساتھ خود کو سہارا دیا اور آہستگی سے کھڑی ہوگئی۔
پھر یکدم سر اٹھا کر چیخ پڑی، اس کی آواز میں لرزتی ہوئی آگ تھی،
“میں تمہاری اندھیر نگری کو تمہارے لیے جہنم بنا دوں گی! میں اپنے بھائی کو لینے ضرور واپس آؤں گی… چاہے اس کے لیے مجھے کچھ بھی کرنا پڑے۔”
یہ الفاظ چیختے ہوئے اس کے دل کی گہرائیوں سے نکلے اور پہاڑ سے ٹکرا کر گونجنے لگے۔ وہ بیگ پر جھک گئی، آنکھوں میں عزم اور غم کی شدت ایک ساتھ جھلک رہی تھی۔ اسی لمحے اس نے فیصلہ کر لیا… وہ اندھیرے کی دیوار اور پہاڑ کی دیوار کے بیچ سے کبھی نہیں گزرے گی۔ اس بار اس کا راستہ مختلف ہوگا۔
اس نے بیگ کھولا اور ایک مضبوط رسی نکالی۔ پھر اپنے جوتوں کے تلووں کے نیچے خنجر رکھے اور انہیں رسی کی مدد سے اپنے پیروں سے اس طرح باندھنے لگی جیسے یہ خنجر اس کے وجود کا حصہ ہوں۔ جب خنجر پیروں سے مضبوطی سے جڑ گئے تو وہ ایک لمحے کے لیے رکی، گہری سانس لی اور اپنے اندر حوصلہ پیدا کیا۔
پھر وہ آہستگی سے تاج والے صندوق کے قریب گئی۔ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر چابی گھمائی تو صندوق کا ڈھکن کھلتے ہی زوردار آندھی برآمد ہوئی۔ تیز ہوا نے چاروں طرف شور مچا دیا، اتنا شدید کہ وہ اپنی جگہ سنبھالنا مشکل محسوس کرنے لگی۔ اس کے بال بکھر گئے، کپڑے لہرانے لگے اور جسم زمین پر دباؤ میں جھکنے لگا۔ مگر اس نے ہمت نہیں ہاری۔
بڑی مشکل سے ہاتھ آگے بڑھائے، آندھی کے دھکوں کے باوجود اپنی ہتھیلیاں آہستہ آہستہ تاج کی طرف لے گئی۔ جیسے ہی اس کی انگلیوں نے تاج کو چھوا، فضا اچانک ساکت ہوگئی۔ طوفان تھم گیا مگر تاج کے گرد لپٹا ہوا سیاہ دھواں اب سانپ کی طرح اس کے ہاتھوں کے گرد لپٹنے لگا۔
رینا نے جلدی سے بیگ سے ایک اور رسی نکالی۔ تاج کے گرد لپیٹ کر اسے اپنی کمر سے مضبوطی سے باندھ لیا۔
دو خنجر ہاتھوں میں مضبوطی سے تھامے رینا سیدھی اور بے رحم چٹان کے قریب پہنچی۔ اس کی آنکھوں میں غصے اور حوصلے کی لالی دہک رہی تھی۔ ایک تیز چیخ کے ساتھ اس نے پہلا خنجر پیچھے لے جا کر پوری شدت سے چٹان کی سخت مٹی پر مارا۔ اس وار میں اتنی طاقت تھی کہ دھات کا پھل آدھے سے زیادہ چٹان کے سینے میں اتر گیا۔
اس نے دوسرے ہاتھ کا خنجر بھی اسی جنون کے ساتھ مارا اور وہ بھی چٹان کی بے رحم سختی کو چیرتا ہوا اندر پیوست ہوگیا۔ اب رینا کا وجود چٹان کے ساتھ جکڑا تھا۔ اس نے گہری سانس لی، پھر پاؤں کو دو فٹ اوپر اٹھا کر پوری شدت سے چٹان پر مارا۔ پیر سے بندھا خنجر بھی آدھے سے زیادہ دھنس گیا۔ اب اس کا ہر وار موت کو للکار رہا تھا۔
یہ کوئی عام چڑھائی نہیں تھی… یہ تو گویا ایک ایسی خطرناک سرکشی تھی جہاں ذرا سی لغزش کا مطلب تھا موت کی کھائی میں گر جانا۔ مگر رینا کے لیے پلٹنے کا کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔ اس کے وجود میں اب صرف ایک عزم دہک رہا تھا، یہ چٹان سر کرنی ہے، چاہے جان چلی جائے۔
اب اس کا دشمن صرف زافیر نہیں رہا تھا، بلکہ اندھیر نگری کی ملکہ دارونتھا بھی تھی۔ وہ ملکہ، جس کا نام سن کر بڑے بڑے بادشاہوں کے دل کانپ اٹھتے تھے، آج رینا اسے کھلے عام اپنا دشمن مان چکی تھی۔
°°°°°°°°°°
جاری ہے…
#زیاداصغرزارون
#زائپس
#ناول
#درندہ
#رائٹر
#story #storytelling #novel #viralphotochallenge #ZIPES #funnymoments #StoryOfUs #viralchallenge