Daily Roshni News

ناول : دھڑکن۔۔۔۔    قسط 2

ناول : دھڑکن۔۔۔۔    قسط 2

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )صبح وہ اپنے معمول پر اٹهی .نماز کے بعد وہ کچن میں اپنے لیے ناشتہ بنانے چلی گئی اس کا ناشتہ کیا تها ایک آملیٹ اور ایک دودھ کا گلاس. …لیکن آج وہ بهی کهانے کا ارادہ نہیں تها……

” ناشتہ اچهے سے کرو ایک گلاس دودھ کے ساتھ پورا دن کیسے گزرے گا “

اس کے پاس ہی کہیں سے اس کی ماں کی آواز ابهری بے ساختہ اس نے گردن موڑ کر دائیں بائیں دیکها لیکن وہاں کوئی نہیں تها وہ وجود کہیں نہیں تهی جو اسے ناشتے کے لئے ٹوکتی…….

وہ ہر جگہ اسے دکهائی دے رہیں تهیں لیکن وہ نہیں تهیں کہیں پہ بھی نہیں تهیں…..

وہ پهر سے اپنے کام میں مصروف ہو گئی لیکن ذہن ابهی بهی کل والی باتوں میں الجها ہوا تها وہ اپنے کل والے فیصلے سے متفق تهی اور شاید یہی سہی تها ایک بے سہارا لاوارث لڑکی کو سہارے کے لیے ایک کشتی ملی تو وہ اس پہ کیوں سوار نہ ہوتی…..ڈوبتے کے لیے تنکے کا سہارا بھی بہت ہے .وہ جانتی تھی اس گهر میں رہنا آسان نہیں ہے ہر طرف اس کے والدین کی سسکیاں گونجیں گی اس گهر میں. .اس کے والدین کی آہیں سنائی دیں گی اسے..

..وہ جتنا بھی سوچتی لیکن اس حقیقت سے کهبی منہ نہیں پهیر سکتی تهی وہ اس غیر محفوظ جگہ عمر بھر نہیں رہ سکتی….

ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد اس نے دفتر جا کر استعفیٰ دیا ..وہ ضرورت کے تحت ہی جاب کر رہی تهی ابو کی موت کے بعد گهر کی ساری زمہ داری اس پہ آ گئی تهی اس لیے نا چاہتے ہوئے بھی اسے تعلیم چهوڑ کر جاب کرنا ہی پڑا…اس کا وہ کروڑ پتی بابا جان جو اپنی زندگی میں تو خوش تهے لیکن انہوں نے مڑ کر کهبی بیٹے کے خاندان کی خبر نہیں لی.وہ زندہ ہیں یا مر گئے ہیں یا پھر کیسی زندگی گزار رہے ہیں. .ان کی طرف سے ایسی کسی بھی فکر مندی کی امید نہیں کی جا سکتی تهی….

دس بجے کے قریب واپس آ کر اس نے اپنے باقی کے کام سمیٹے..قرضوں کی ادائیگی اور گهر کا کچھ سامان اور اپنی کچھ ضروری چیزیں. ….

ایک گلاس پانی پینے کے بعد اس نے پرس سے کارڈ نکالا اور اس پہ لکها ہوا نمبر ملانے لگی……

” ہیلو “

تهوڑے وقفے کے بعد اسے وہی خوبصورت آواز سنائی دی …

” جی اسلام و علیکم ” وہ مدهم آواز میں بولی…

” وعلیکم السلام  جی میں نے آپ کو پہچانا نہیں”.وہ بولا.

” جی میں فرشتے بات کر رہی ہوں آپ وہ کل صبح آئے تهے ناں “..اس نے ججهکتے ہوئے کہا. …

” OH you “

” تو کیا فیصلہ کیا آپ نے “اس نے سنجیدگی سے پوچها. فرشتے نے اسے اپنا مثبت فیصلہ سنا دیا..اور اس نے شام چار بجے آنے کا کہہ کر فون کاٹ دیا..پهر اس کی رکی ہوئی سانسیں بحال ہوئیں..اس کے سر سے بہت بڑا بوجھ اتر گیا اب وہ ہلکا ہلکا محسوس کر رہی تهی. ..لیکن اس سب کے باوجود بھی دل میں عجیب عجیب خیالات آ رہے تهے……

‘کیسا گهرانہ ہو گا…؟ کیسے لوگ ہوں گے.اور کتنے لوگ ہوں “

ایک بار ابو نے بابا جان اور حویلی کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا تها کہ اس کی ایک بڑی بہن بھی ہے.اور کون کون ہوگا.اس کی وہ سوتیلی ماں ابو کی پہلی بیوی بھی تو ہو گی کوئی اس سے وہاں محبت نہیں کرے گا سبهی اس سے نفرت ہی کریں گے..

…وہ بہت کچھ سوچنا چاہتی تهی لیکن یہ سوچنے کا وقت بالکل بھی نہیں تها……

اسے اپنا کچھ سامان پیک کرنا تها اور سامان بھی کوئی بڑی جائیداد نہ تهی اس کے کچھ پرانے کپڑے..امی اور ابو کی کچھ چیزیں اور کچھ خوبصورت سی یادیں. .جنہیں وہ زندگی کے کسی بھی موڑ پر فراموش نہیں کر سکتی تهی.وہ تو نہیں تهے لیکن اتنی بڑی دنیا میں ان کی خوبصورت یادیں ہی باقی رہ گئیں تهیں..اور یادوں کی قیمت صرف ایک محبت کرنے والا ہی سمجھ سکتا ہے…وہ یادیں اس کی زندگی کی سب سے خوبصورت متا تهیں..وہ یہاں سے اپنا سب کچھ ایک ایک چیز لے جانا چاہتی تهی لیکن وہ یہ بھی جانتی تهی ان سب چیزوں کی اس گهر میں کباڑ کے علاوہ اور کوئی حیثیت نہیں ہوگی……

” کوئی بات نہیں جب میں اپنا باپ کهو چکی ہوں جان سے زیادہ پیار کرنے والی ماں کهو چکی ہوں تو ان کے سامنے ان بے جان چیزوں کی کیا اہمیت”

 اس نے یہ سوچ کر اپنے دل کو تسلی دی …سورج آہستہ آہستہ مدهم ہو رہا تها ہر طرف سنہری روشنی پهیل رہی تهی وہ اپنی ساری چیزیں سمیٹ چکی تهی .وہ اکیلی تهی اس کا درد سمجهنے والا کوئی نہیں تها کسی کو کیا پتا کہ اس وقت وہ کس قیامت سے گزر رہی ہے اور کس قیامت سے گزرنے والی ہے….

جس کا درد ہو وہ صرف اسی کو ہی محسوس ہوتا ہے دوسروں کو کیا معلوم. …باقی تو صرف رسمی طور پر حوصلہ دے سکتے ہیں. …..دروازے پہ گهنٹی کی آواز سن کر اس کی سوچوں کا تسلسل ٹوٹ گیا.وہ جانتی تهی دروازے پہ کون ہے …..

آہستہ آہستہ چل کر اس نے دروازہ کھولا سامنے وہی کهڑا تها جسے اس نے کل اسٹاپ پہ دیکھا تها چہرے پہ وہ سنجیدگی تهی…اس نے سن گلاسز اتار کر ایک پل اسے دیکها…

” آپ تیار ہیں. ..؟ چلیں. ..؟”

 اس نے رسمی جملوں میں وقت ضائع نہیں کیا اور سیدهے مطلب کی بات کی وہ بھی بنا کچھ کہے اپنا بیگ اٹهانے چلی گئی..بیگ کافی وزنی تها اس نے جو ٹهوس ٹهوس کر چیزیں بهری تهیں ان کی وجہ سے بیگ کافی بهاری ہو چکا تها….

شاید وہ بھی اس کا سامان اٹهانے اس کے پیچھے پیچھے آیا تها اور اسے اس مشکل میں دیکھ کر وہ اس کے ہاتهوں سے بیگ لے کر باہر چلا گیا….

وہ اسے خاموش نظروں سے جاتا ہوا دیکھ رہی تھی. .اس کے پیچھے چهوٹے چهوٹے قدم اٹهاتی ہوئی وہ باہر چلی گئی…

چلتے ہوئے وہ برسوں کی بیمار اور نڈهال لگ رہی تهی اس کی آنکهیں بالکل خشک تهیں ..دروازے سے باہر نکل کر اس نے آخری بار مڑ کر اس گهر کو دیکها …یہ اس کے خوابوں کا گهر تها اس کے سپنوں کا گهر تها ..جہاں اس نے زندگی کا کافی حصہ گزارا تها….

“بچوں کے لیے تو ان کے ماں باپ کی جھونپڑی بهی محل ہوتی ہے”

اس کی ماں کی آواز آئی لیکن وہ نہیں تهی..یہ گهر یہ دیوار مکینوں کے بنا کتنے سنسان اور بنجر لگتے ہیں.چاہے کتنا ہی خوبصورت محل کیوں نہ ہو وہاں مکین نہ ہو تو اس محل کی قیمت زرے جتنی بھی نہیں رہتی.. .

اس نے دروازے پہ تالا لگایا اور سیڑھیاں اتر کر نیچے آئی سامنے ہی اس کی کار کهڑی تهی وہ اندر بیٹها اس کا انتظار کر رہا تها  …..

وہ یہ سمجھ نہیں پا رہی تهی کار کا دروازہ اندر سے کهلتا ہے یا باہر سے. .وہ زیادہ کار میں نہیں بیٹهی اگر کهبی بیٹهی بهی تهی تو اسے اس مشکل سے کهبی نہیں گزرنا پڑا…..اور وہ گاڑی سٹارٹ کیے صرف اس کے بیٹهنے کا منتظر تها……..

اس نے دروازہ زور سے باہر کی طرف کهینچا .اس نے ٹهنڈی سانس خارج کی ..دروازہ کهل گیا..وہ اندر بیٹھ گئی لیکن وہ ابهی بهی ٹینشن میں تهی…..

” سیٹ بیلٹ باندھ لیں .”

…اس نے بیک ویومر سے دیکهتے ہوئے کہا……اس نے سیٹ بیلٹ کو دیکها ..اسے سیٹ بیلٹ باندهنا نہیں آتا تها..وہ مڈل کلاس زندگی گزارتی آ رہی تهی ان سب چیزوں کا اسے نہیں پتا تها..

جی مجھے سیٹ بیلٹ باندهنا نہیں آتا…وہ نگاہیں جهکا کر بولی. .ﭘﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﺗﻨﯽ ﮨﻤﺖ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﯿﺴﮯ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺏ ﺩﻝ ﮨﯽ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺷﺮﻣﻨﺪﮦ ﮨﻮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ. .. ﺍﺱ ﻧﮯ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺍﺱ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﻮ ﻏﻮﺭ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﻬﺎ ،لان ﮐﮯ ﺳﺎﺩﮦ ﮐﭙﮍﻭﮞ

ﻣﯿﮟ ، ﺳﺮ ﭘﮧ ﺳﯿﺎﮦ ﺩﻭﭘﭩﮧ ﺍﻭﮌﻫﮯ ﻭﮦ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺑﮩﺖ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﻟﮓ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ. .اس کے ہونٹوں پہ ہلکی تبسم آئی لیکن وہ بولا کچھ نہیں ..ﺍﻭﺭ ﮐﺎﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻨﺰﻝ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﭼﻞ ﭘﮍﯼ .. ﻭﮦ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮨﺎﺗﮫ ﺍﭘﻨﯽ ﮔﻮﺩ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﻬﮯ ﻧﻈﺮﯾﮟ ﻧﯿﭽﮯ ﺟﮭﮑﺎﺋﮯ ﺑﯿﭩﻬﯽ ﺗﻬﯽ . ……ﮐﺎﺭ ﺷﮩﺮ ﮐﮯ ﺍﺣﺎﻃﮯ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﮐﺮ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﭘﮩﺎﮌﻭﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺟﺎ

ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ . ﯾﮧ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﻧﺠﺎﻥ ﺗﻬﮯ . ﺁﺱ ﭘﺎﺱ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺩﺭﺧﺖ ﺗﻬﮯ … .. ﺳﮍﮎ ﭘﮧ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺭﺵ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ. … ﺍﺳﮯ ﮨﻠﮑﯽ ﺳﺮﺩﯼ ﺑﻬﯽ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ. …اس شہر میں تو ﻭﯾﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﮐﺜﺮ ﺳﺮﺩﯼ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺳﺮﺩﯾﻮﮞ ﮐﺎ ﻣﻮﺳﻢ ﺗﮭﺎ . ….ﺑﮩﺖ لمبے ﻣﺴﺎﻓﺖ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﮐﺎﺭ ﺍﯾﮏ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺑﻨﮕﻠﮯ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺟﺎ ﺭﮐﯽ ….ﯾﮧ ﺷﮩﺮ ﺳﮯ ﺩﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﭘﮩﺎﮌﯼ ﻋﻼﻗﮧ ﺗﻬﺎ … ﺁﺱ ﭘﺎﺱ ﺁﺑﺎﺩﯼ ﺑﻬﯽ ﺍﺗﻨﯽ ﻧﮧ ﺗﻬﯽ ……ﮨﺎﺭﻥ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﻦ ﮐﺮ ﭼﻮﮐﯿﺪﺍﺭ ﻧﮯ ﺑﮍﺍ ﮔﯿﭧ ﮐﻬﻮﻻ ….ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﺎﺭ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺣﻮﯾﻠﯽ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﮨﯽ ﺭﻭﮎ ﺩﯼ …..ﻭﮦ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﻮﻝ ﮐﺮ ﺑﺎﮨﺮ ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺳﺎﺋﯿﮉ ﻭﺍﻻ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﺑﻬﯽ

ﮐﻬﻮﻝ ﺩﯾﺎ …. ﻭﮦ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺟﺠﻬﮑﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻗﺪﻡ ﻧﯿﭽﮯ رکھ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ. ..

ﺁﺝ ﻭﮦ ﺍﺱ ﺣﻮﯾﻠﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﻗﺪﻡ ﺭﮐﮫ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ، ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﺎ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﯼ ﺗﻤﻨﺎ ﺗﻬﯽ ﮐﻬﺒﯽ __ ﻟﯿﮑﻦ ﯾﮧ ﺗﻤﻨﺎ ﺍﺱ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﭘﻮﺭﯼ ﮨﻮﮔﯽ

ﺍﺱ ﻧﮯ ﯾﮧ ﮐﻬﺒﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻮﭼﺎ ﺗﮭﺎ ، ﻭﮦ ﺍﺱ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﮐﻬﺒﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﺗﻬﯽ ﯾﮩﺎﮞ . ….ﺁﺝ ﻭﮦ ﻧﺎ ﻣﮑﻤﻞ ﺗﻬﯽ _ ﺍﺱ ﮔﻬﺮ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺳﮯ ﮐﺘﻨﯽ ﺑﮍﯼ ﻗﯿﻤﺖ ﭼﮑﺎﻧﯽ ﭘﮍﯼ …..ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺎﭖ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﯾﮩﺎﮞ ﺁﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﺗﻬﯽ ..

ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﭘﮑﮍ ﮐﺮ ﺁﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﺗﻬﯽ ﯾﮩﺎﮞ. . ﻟﯿﮑﻦ ﺁﺝ ﻭﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﻬﮯ ﻭﮦ ﺍﮐﯿﻠﯽ ﺗﻬﯽ .

ﺟﺲ ﮔﻬﺮ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺑﺎﭖ ﺳﺎﺭﯼ ﻋﻤﺮ ﺗﺮﺳﺘﺎ ﺭﮨﺎ، ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﺎ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﺧﻮﺍﺏ ﺗﻬﺎ. ﺁﺝ ﻭﮦ ﺍﺱ ﮔﻬﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﻬﮍﯼ ﺗﻬﯽ ….

” ﺁﺋﯿﮟ ﺩﯾﮑﻬﯿﮟ ﺍﻣﯽ ﺁﺝ ﺁﭖ ﮐﯽ فرشتے ﺍﺱ ﺣﻮﯾﻠﯽ ﻣﯿﮟ ﺁ ﮔﺌﯽ ﺟﺲ ﻣﯿﮟﺁﻧﺎ ﮐﻬﺒﯽ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺗﻤﻨﺎ ﺗﻬﯽ “.

.. .. ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﻮ ﺑﮯ ﺁﻭﺍﺯ

ﭘﮑﺎﺭﺍ …..ﻭﮦ ﺁﺭﺏ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﭼﻠﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮪ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺩﮬﺮ ﺍﺩﮬﺮ ﮔﻬﺮ ﮐﺎ ﺟﺎﺋﺰﮦ ﺑﮭﯽ ﻟﮯ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ. ..

ﻭﮦ ﺑﮩﺖ ﻭﺳﯿﻊ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺣﻮﯾﻠﯽ ﺗﻬﯽ _ﺩﻭﺭ ﺩﻭﺭ ﺗﮏ ﺑﮩﺖ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ

ﺩﺭﺧﺖ ﺍﻭﺭ ﭘﻮﺩﮮ ﻟﮕﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ ، ﺑﯿﭻ ﻣﯿﮟ ﻟﮕﺎ ﮨﻮﺍ ﻓﻮﺍﺭﺍ ﺣﻮﯾﻠﯽ ﮐﯽ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺗﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﺰﯾﺪ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ. …

ﺁﺱ ﭘﺎﺱ ﻣﺎﻟﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﺎﻣﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻟﮕﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ ، ﺍﻭﺭ ﭼﻮﺭ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﻧﺪﺭ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﻬﯽ ﺩﯾﮑﻬ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ. ..

ﺍﺏ ﻭﮦ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺍﺱ ﻋﺎﻟﯿﺸﺎﻥ ﻋﻤﺎﺭﺕ ﮐﮯ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮐﻬﮍﮮ ﺗﻬﮯ .ﺍﯾﺴﯽ ﻋﻤﺎﺭﺕ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺻﺮﻑ ﮈﺭﺍﻣﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻓﻠﻤﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﻬﯽ ﺗﻬﯽ. ﺍﺱ ﻧﮯ ﺧﻮﺩ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺳﻨﮓ ﻣﺮ ﻣﺮ ﺳﮯ ﺑﻨﮯ ﺍﺱ ﻋﻤﺎﺭﺕ ﻣﯿﮟ

ﻭﺍﺿﺢ ﻓﺮﻕ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﯿﺎ. .ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﯾﮩﺎﮞ ﮐﯽ ﺩﯾﻮﺍﺭﯾﮟ ﺑﻬﯽ ﺗﮑﺒﺮ ﺳﮯ ﮐﻬﮍﯼ ﺗﻬﯿﮟ. ..

ﺁﺭﺏ ﻧﮯ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮪ ﮐﺮ ﺑﮍﺍ ﮔﻮﻟﮉﻥ ﺭﻧﮓ ﮐﺎ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﻮﻻ. …

ﻭﮦ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﻘﻠﯿﺪ ﻣﯿﮟ ﭼﻬﻮﭨﮯ ﭼﻬﻮﭨﮯ ﻗﺪﻡ ﺍﭨﻬﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﭼﻞ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ .

…ﺩﺱ ﻗﺪﻣﻮﮞ ﮐﯽ ﻣﺴﺎﻓﺖ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﺑﮍﮮ ﮨﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭽﮯ _

ﭼﻠﺘﮯ ﭼﻠﺘﮯ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻗﺪﻡ ﺭﮎ ﮔﺌﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻧﻈﺮﯾﮟ ﺻﻮﻓﮯ ﭘﮧ ﺟﺎ کر ﺭﮎ ﮔﺌﯿﮟ . .

ﭨﺎﻧﮓ ﭘﮧ ﭨﺎﻧﮓ ﺟﻤﺎﺋﮯ ﺳﻔﯿﺪ ﮐﺎﭨﻦ ﮐﮯ ﮐﭙﮍﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﻠﺒﻮﺱ ﺳﺘﺮ ﺳﺎﻝ ﮐﺎ ﺑﺰﺭﮒ ﺻﻮﻓﮯ ﭘﮧ ﺑﯿﭩﻬﺎ ﺍﺳﮯ ﮨﯽ ﮔﻬﻮﺭ ﺭﮨﺎ ﺗﻬﺎ.ﭼﻬﻮﭨﯽ ﺳﯽ ﺳﻔﯿﺪ ﺩﺍﮌﮬﯽ

ﺑﮍﯼ ﻣﻮﻧﭽﮭﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻋﯿﻨﮏ ﻟﮕﯽ ﺗﻬﯽ. غرور اور تکبر ان کے انگ انگ سے نظر آ رہا تها…..ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﻧﺪﺍﺯﮦ ﻟﮕﺎ ﻟﯿﺎ ﯾﮩﯽ ﺑﺎﺑﺎ ﺟﺎﻥ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ. ﺍﻥ ﮐﯽ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﺑﭽﭙﻦ ﻣﯿﮟ

ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﺍﺳﮯ ﺍﺑﻮ ﻧﮯ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺗﻬﯽ. ﻟﯿﮑﻦ ﯾﮧ ﭼﮩﺮﮦ ﺍﺱ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﺳﮯ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﺗﻬﺎ . .

… ﭼﮩﺮﮦ ﺳﺮﺩ ﺍﻭﺭ ﺳﭙﺎﭦ ﺗﻬﺎ .. جس پہ گہری سنجیدگی تهی.. ….ﺍﻥ ﮐﮯ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﻭﺍﻟﮯ ﺻﻮﻓﮯ ﭘﮧ ﺑﯿﭩﻬﺎ ﺍﯾﮏ ﭘﯿﻨﺘﺎﻟﯿﺲ ﯾﺎ ﭘﭽﺎﺱ ﺳﺎﻝ ﻭﺍﻻ

ﺷﺨﺺ ﺑﮭﯽ ﺍﻥ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﮨﯽ ﻣﺘﻮﺟﮧ ﺗﻬﺎ .. ﻭﮦ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ

ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ

..ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﻮ ﺗﻬﻮﮌﯼ ﺣﺮﮐﺖ ﺩﯼ _ﺻﻮﻓﮯ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺍﯾﮏ ﭘﮑﮯ ﻋﻤﺮ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﮧ ﺳﻨﺠﯿﺪﮔﯽ ﻟﯿﮯ ﮐﻬﮍﯼ ﺗﻬﯽ ..ان کی شکل دیکھ کر ایسا لگ رہا تها جیسے وہ اس کے آنے سے خوش نہیں تهیں…..ﻭﮦ ﺍﺏ ﺑﺮﯼ ﻃﺮﺡ ﮐﻨﻔﯿﻮﺯ ﮨﻮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ . .

ﻭﮦ ﺍﻟﺠﻬﯽ ﺍﻟﺠﻬﯽ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺳﺐ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ . ﻭﮦ ﮐﺴﯽ ﺳﮯ

ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﺗﻬﯽ…….

جاری ہے___

Loading