نا کردہ گناہوں کی سزا
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )قیصر ولا میں ایک نیا دن شروع ہو چکا تھا۔ سورج نے مشرق سے اپنی چھب دکھائی تو چرند پرند خداوند تعالیٰ کے زکر کے بعد حصول رزق کے لئے کائنات میں رنگ بن کے بکھر گئے۔
کل رات نکاح کے ہنگامے کے بعد ارحان بہت دنوں بعد ایسے سکون کی نیند سو پایا تھا جو جانے اسے کتنے عرصے سے نصیب نہیں ہوئی تھی۔ جہاں وہ سکون کی نیند سویا تھا وہیں کچھ لوگوں کی نیندیں اڑ چکی تھیں۔
کب تک ایسے نکموں کی طرح گھر میں پڑے رہو گے؟ نکاح ہوگیا ہے تمہارا۔ کوئی احساس ذمہ داری ہے یا نہیں؟
ارحان نے جب دن چڑھے بارہ بجے سو کے اٹھ کے اپنی ماں سے ناشتہ مانگا تو عباس صاحب کا ضبط جواب دے گیا۔
ارحان نے اپنی مندی مندی آنکھیں کھول کر انہیں دیکھا اور پھر ٹیبل پہ سر رکھتے ہوئے آنکھیں بند کر کے کہا۔ ابو جاب مل گئی ہے چند دنوں میں جوائن کر لوں گا۔ شمائلہ بیگم نے اس کے سامنے ناشتہ لاکے رکھا تو ناشتے کی اشتہا انگیز خوشبو سے اس کی آنکھیں پوری طرح کھل گئیں۔
اچھا خاصا فیملی بزنس ہے، اس میں ہاتھ بٹانے کے بجائے صاحبزادے کو نوکری کا شوق چڑھا ہے۔ عباس صاحب اسے بے نقط سنا رہے تھے۔ جبکہ وہ سر جھکائے ڈھیٹوں کی طرح مسکراتے ہوئے ناشتہ کرنے میں مگن تھا۔
ابو میں اپنا نام بنانا چاہتا ہوں۔ کسی مقام پہ پہنچنا چاہتا ہوں جو یہاں رہتے ہوئے ہرگز ممکن نہیں ہے۔ میں خود اپنے پیروں پہ کھڑا ہونا چاہتا ہوں۔ اس نے ناشتے سے بھرپور انصاف کرتے ہوئے کہا۔
جواد بھائی نے کہا ہے جب تک تمہارے سر سے نوکری کا بھوت نہیں اترے گا اور تم فیملی بزنس جوائن نہیں کر لو گے وہ فجر کی رخصتی نہیں کریں گے۔ انہوں نے اپنے بڑے بھائی جواد صاحب کی کہی ہوئی بات سے آگاہ کیا۔
خیر اب ایسا تو کبھی نہیں ہوگا۔ بڑے پاپا کو ایک نوکری پیشہ بندے سے ہی اپنی بیٹی کی رخصتی کرنی پڑے گی۔ وہ فجر کے نام پہ پل میں ہی سنجیدہ ہوا تھا اور گرم گرم چائے کا گھونٹ حلق سے اتارتے ہوئے کہا۔
جواد بھائی کو نکاح سے پہلے سوچ لینا چاہئیے تھا، اب ایسی شرطیں رکھنے کی کیا تُک ہے؟ شمائلہ بیگم جو کافی دیر سے خاموش بیٹھی تھیں ان کی بات سن کر تیز لہجے میں بولیں۔
جواد بھائی تو پہلے ہی راضی نہیں تھے اس رشتے پہ، تمہارے لاڈلے نے ہی پورے گھر میں ہنگامہ مچا کے رکھا ہوا تھا۔ عباس صاحب نے تپے ہوئے لہجے میں کہا۔
ہاں تو ہم کونسا ان کے پیروں میں گر گئے تھے، وہ تو اماں جان کی وجہ سے مجھے چپ ہونا پڑا ورنہ اس لڑکی کو میں اپنے گھر میں کبھی برداشت نہ کروں، لاکھوں میں ایک ہے میرا بیٹا، میں تو شروع سے ہی مخالف ہوں اس رشتے کی مگر آپ باپ بیٹا میری کوئی بات سنیں تب نہ۔ وہ بھی بھری بیٹھی تھیں، وہ اپنی بھانجی کو اپنی بہو بنانا چاہتی تھیں مگر ارحان کی ضد کے سامنے انہیں گھٹنے ٹیکنے پڑے۔
کیا مصیبت ہے؟ ناشتہ کرنا عذاب بنا دیا ہے آپ لوگوں نے، کل ہی نکاح ہوا ہے اور آج آپ لوگ شروع ہو گئے، نکاح میں نے جان کے کروایا ہے، منگنی ہوتی تو اسے آپ لوگ توڑ چکے ہوتے۔ ارحان ناشتہ ادھورا چھوڑ کر غصے سے کرسی دھکیل کر کھڑا ہو گیا۔
اور ہاں بڑے پاپا کو بھی بتا دیجیئے گا نکما نہیں پڑا ہوں میں، نوکری مل چکی ہے مجھے اور وہ بھی بہت اچھی پوسٹ پہ۔ وہ کرسی کو اپنے پاؤں سے ٹھوکر مارتا ہوا باہر چلا گیا۔
_____
وہ غصے میں بھناتا ہوا گھر سے باہر جانے لگا، ابھی اس نے کار کا ڈور کھولا ہی تھا کہ اسے پیچھے سے کسی نے مخاطب کیا۔
“ارحان”
اس نے گردن گھما کے دیکھا تو سامنے فجر کھڑی تھی، اسے دیکھ کے بھی اس کا بگڑا ہوا موڈ صحیح نہیں ہوا۔
کیا کام ہے؟ وہ بدستور غصے میں بولا، ماتھے پہ شکنیں پڑی تھیں۔
تم غصے میں ہو؟ فجر نے اس کی طرف بغور دیکھتے ہوئے مسکرا کے سوال کیا۔
نہیں۔ وہ یک لفظی جواب دے کہ پلٹ کے جانے لگا۔
مجھے پتہ ہے تمہیں غصہ آرہا ہے، بتاو نہ کس پہ غصہ ہو؟ فجر اس کے سامنے آ کھڑی ہوئی اور اس کی شہد رنگ آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی۔
یار فجر دماغ خراب مت کرو، جاؤ یہاں سے۔ ارحان نے چڑ کر کہا۔
“بیوی ہوں تمہاری، پورا حق ہے تم سے پوچھنے کا، اب بتاؤ کیوں غصہ آرہا ہے اور کہاں جارہے ہو؟
فجر کے ایسے حق جتانے والے انداز نے ارحان کا تو دل ہی لوٹ لیا تھا، اتنے غصے کے باوجود اس کے ہونٹوں پہ بے ساختہ مسکراہٹ ابھری، وہ کار کے بونٹ پہ چڑھ کے بیٹھ گیا، فجر اس کے سامنے آنکھوں میں سوال لئے کھڑی تھی۔
تم میرا پیچھا نہیں چھوڑو گی، جب تک تمہیں پتہ نہیں چلے گا۔ ارحان نے ایک گہرا سانس لے کر مسکرا کے اسے دیکھا۔
بلکل۔ فجر نے مسکراتے ہوئے اپنی گردن کو ہلکا سا خم دیا جس پہ اس کے سیاہ بالوں کی اونچی پونی لہرانے لگی۔
ابو کی وہی بات ہمیشہ کی طرح نوکری چھوڑ دو اور فیملی بزنس جوائن کر لو، تھک گیا ہوں یار ان کی باتیں سن سن کے۔ ارحان نے ہمیشہ کی طرح فجر کے سامنے اپنے دل کی بھڑاس نکالی۔
اور ابو بتا رہے تھے کہ بڑے پاپا نے کہا ہے جب تک میرے سر سے یہ نوکری کا بھوت نہیں اترے گا وہ تمہاری رخصتی نہیں کریں گے۔ ارحان نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔ سیاہ آنکھوں میں خوف کی پرچھائی لہرائی تھی مگر اگلے ہی پل فجر نے خود کو سنبھال لیا۔
تم جانتے ہو نہ ہمارا نکاح دادو کی وجہ سے ہوا ہے، اس نکاح پہ بابا راضی نہیں ہیں مگر وہ مان جائیں گے، تم اس بات کو اتنا سر پہ سوار کیوں کر رہے ہو؟ فجر نے رسان سے اسے سمجھایا، اس کی بات پہ ارحان نے غصے سے سر جھٹکا۔
تم جانتے ہو بابا تو مجھ سے بات بھی نہیں کر رہے، وہ بہت ناراض ہیں مجھ سے۔ فجر نے گلوگیر آواز میں کہا۔
تم ابھی مجھے سمجھا رہی تھیں اور اب خود رونے بیٹھ گئیں۔ ارحان اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کے فوراً نیچے اتر آیا۔
اس نے آنکھیں جھپک کہ آنسو اپنے اندر اتارنے کی کوشش کی۔
تم روتے ہوئے بلکل بھی اچھی نہیں لگتیں، موڈ ٹھیک کرو اپنا جلدی سے۔
فجر اس کی طرف دیکھ کے ہلکا سا مسکرائی۔
_____
میں آجاؤں بابا؟ فجر نے ان کے روم کے دروازے پہ ناک کرتے ہوئے جھانک کے پوچھا۔
جواد صاحب اس وقت اپنے روم میں بیٹھے آفس کا کام کررہے تھے جبکہ مہربانو کچن میں رات کے کھانے کی تیاری میں مصروف تھیں۔
آجاؤ بیٹا۔ جواد صاحب نے فائل سے نظریں اٹھائے بغیر جواب دیا۔
فجر چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی ان کے سامنے جا کھڑی ہوئی اور ہاتھ میں پکڑا چائے کا کپ ان کے سامنے ٹیبل پہ رکھ دیا۔
جواد صاحب نے نظریں اٹھا کر پہلے اسے دیکھا پھر چائے کے کپ کو دیکھا۔ آج وہ کتنے دنوں بعد ان کے روم میں ان کے لئے چائے لے کہ آئی تھی۔ پھر دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہو گئے۔
وہ ان کے برابر میں خاموشی سے سر جھکائے بیٹھ گئی۔
بابا۔ تھوڑی دیر بعد فجر نے انہیں مخاطب کیا۔
بولو۔ انہوں نے اس کی طرف دیکھے بغیر جواب دیا۔
آپ مجھ سے ناراض ہیں؟ فجر نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
نہیں میں کیوں ناراض ہوں گا؟ بچے جب بڑے ہو جاتے ہیں تو اپنی مرضی کرنے لگتے ہیں، تم نے بھی تو اپنی ضد پوری کرلی نہ۔ جواد صاحب نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے دکھ بھرے لہجے میں کہا۔ جس پہ وہ تڑپ کہ رہ گئی۔
بابا پلیز مجھے معاف کر دیں۔ وہ ان کے کندھے سے سر ٹکائے پھوٹ پھوٹ کے رو دی۔
ایک لمحہ لگا جواد صاحب کو پگھلنے میں۔
میری گڑیا خوش ہے تو بس میں بھی خوش ہوں۔ وہ اسے خود سے لگائے بول رہے تھے ۔
بابا ارحان بہت اچھا ہے، آپ پلیز اس سے غصہ مت ہوں۔ فجر نے روتے ہوئے کہا۔
بیٹا مجھے ارحان سے کوئی مسئلہ نہیں ہے، وہ میرے بیٹے کی طرح ہے لیکن وہ بہت لا ابالی اور غصے کا تیز ہے۔ جواد صاحب نے اپنا اندیشہ ظاہر کیا۔
لیکن بابا ارحان نے تو مجھ پہ کبھی غصہ نہیں کیا۔ وہ سر اٹھا کے معصومیت سے ان کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔ اس کی بات پہ وہ صرف سر ہلا کے رہ گئے۔
جاری ہے