نصیحت
تحریر۔۔۔واصف علی واصف
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ نصیحت ۔۔۔ تحریر۔۔۔واصف علی واصف)دنیا میں سب سے آسان کام نصیحت کرنا ہے اور سب سے مشکل کام نصیحت پر عمل کرنا ہے۔ میں نے اپنے لیے آسان کام چن لیا ہے اور آپ …. آپ کی مرضی، مشکل میں پڑیں یا مشکل سے باہر رہیں۔نصیحت کرنے کا عمل زندگی کی طرح بہت پرانا ہے۔ غالباً پہلے انسان کے پیدا ہونے سے پہلے بھی نصیحت کا عمل موجود تھا۔نصیحت ایک حکم کی طرح نافذ ہوتی تھی …. ایسے کروں ایسے نہ کرو….وہاں جاؤ …. وہاں نہ جاؤ…. سیدہ واصف = کرد…. اس کا سجدہ کرو اور اس کے علاوہ کا سجدونہ کرو…. ماں باپ کی اطاعت کرو…. شیطان کی اطاعت نہ کرو….غرضیکہ نصیحت سنو اور مانتے چلے جاؤ…. زمین کے سفر میں آسمان کی نصیحتیں سنو اور انہیں ماننے کا حوصلہ پیدا کرو۔
بہر حال نصیحتیں چلتی رہتی ہیں…. خطاب جاری رہتے ہیں اور سماعتیں بے حس ہو جاتی ہیں …. نصیحت کرنے والے شور مچاتے رہتے ہیں کہ اے محترم اندھو! آگے قدم نہ بڑھانا…. آگے اندھا کنواں ہے …. لیکن عقل کے اندھے سنی ان سنی کر کے دھڑام سے گرتے رہتے ہیں…. اور پھر گلہ ہوتا ہے کہ کاش مجھے کوئی لاٹھی مار کے سمجھاتا کہ واقعی آگے اندھا کنواں ہے ….یہ لوگ سنتے ہیں لیکن ان کے دل پر اثر نہیں ہوتا، یہ لوگ دیکھتے ہیں لیکن انہیں نظر نہیں آتا….یہ لوگ فلسفی ہیں لیکن یہ بیچارے سمجھ نہیں سکتے …. ان کے پاس دل ہے لیکن احساس نہیں ہے …. یہ لوگ مغرور ہیں لیکن ان کی متاع حیات قلیل ہے …. یہ طاقت سے حکومت کرنا چاہتے ہیں، ان کے پاس خدمت کرنے کا شعور نہیں، بس اس طرح یہ کھیل جاری رہتا ہے۔
آوازیں آرہی ہیں کہ غافلو! سنو غور سے گجر کی آواز سنائی دیتی ہے ، کان دھرو، وقت کا ناقوس بج رہا ہے۔ رحیل کارواں کے معنی تلاش کرو۔ بانگ درا کی تفسیر ڈھونڈو، بال جبریل کا مفہوم سمجھو، لیکن نہیں …. سننے والوں کے کانوں میں گویا پچھلا ہوا سیسہ انڈیلا جا چکا ہے …. خواہشات کا اور ھم مچا ہوا ہے۔
لوگ مطمئن ہیں کہ اب کوئی سقراط موجود نہیں…. اچھا ہوا کہ سعدی رخصت ہو گئے.. بھلا ہو ا قبال کا کہ اب وہ بھی نہیں …. کچھ لوگوں کے لیے یہ امر باعث اطمینان ہے کہ اب نئی نسل پرانے مذہب سے آزاد ہو رہی ہے ….
وہ سمجھتے ہیں کہ شاید انہیں نجات مل گئی، عقیدتوں اور عقیدوں سے…. اور وہ آزاد ہو گئے نصیحتوں سے، ڈرانے والوں سے ، آگاہ راز کرنے والوں سے۔ ان کے لیے صرف حال ہے …. نہ کوئی فردانه ماضی …. بس صرف یہی دور ہے، یہی زمانہ ہے۔ آئندہ کوئی حساب کتاب نہیں ہوگا….
لیکن، لیکن ایسے نہیں ہو سکتا …. پیدا کرنے والے نے زندگی اور موت پیدا کی…. یہ دیکھنے کےلیے کہ کون نصیحت کرتا ہے اور کون نصیحت پر عمل کرتا ہے …. کون سعادت مند ہے جو دوسروں کے تجربات سے فائد ہ حاصل کرتا ہے….
کون ہے خوش نصیب جو نصیحت کے چراغ کی روشنی میں زندگی کی تاریکیوں سے آزاد ہو جاتا ہے۔ کون ہے وہ جو اس زندگی اور اس زندگی کے انعامات سے سرفراز ہوتا ہے۔
نصیحت کا لفظ طلسماتی لفظ ہے، جو زندگی کے سفر میں کسی وقت بھی اپنا جادو جگا سکتا ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ نصیحت کرنے والا نصیحت کے عمل سے خود کوئی فائدہ حاصل نہ کرے، ورنہ سب کچھ بے کار ہو جائے گا۔ مخلص کی تعریف ہی یہ ہے کہ آپ کے ساتھ، آپ سے زیادہ مہربان ہو …. وہ جو اپنے آپ کو بھول کر آپ کو یاد رکھے…. وہ جو تم سے تمہاری بہبود کے علاوہ کسی اور معاوضے کا متمنی نہ ہو…. نصیحت کرنے والا مخلص نہ ہو تو نصیحت بھی ایک پیشہ ہے…. پیشہ ور کی نصیحت نصیحت نہیں کہلائی جاسکتی ….!
بہر حال کہنے کا مدعا یہ تھا کہ نصیحت کا عمل قدیم ہے، آسان ہے، ہم نے اسے اپنے لیے چن لیا …. اب یہ بھی کوئی ضروری نہیں کہ ہم ہر وقت ہر آدمی کو ہر طرح کی نصیحت ہی کرتے رہیں…. نہیں…. ایسے نہیں …. نصیحت کا پہلا اصول یہ ہے کہ نصیحت کرنے والا، نصیحت سننے والے سے کچھ نہ کچھ تعلق ضرور پیدا کرے…. بے تعلق نصیحت یا بے تعلق تبلیغ ایسے ہے، جیسے زبان غیر میں تقریر کرنا ….. سب سے موزوں تو یہی ہے کہ نصیحت سننے والے میں نصیحت سننے کا شوق ہو …. ورند…. ورنہ وہی کہانی کہ ایک مرتبہ ایک بندر تھا…. بندر اور بیا پاس پاس رہتے تھے…. پڑوسی تھے…. بیا سارا سال خوبصورت گھونسلہ بناتا اور سردی میں اس میں آرام کرتا …. بندر تو بس بندر ہی تھا …. ایک دفعہ کیا ہوا کہ بندر سردی میں ٹھٹھر رہاتھا…. اور بیا اپنے آشیانے میں لطف اندوز ہورہا تھا …. بیا کو کیا سو تبھی کہ وہ بندر کو دیکھ کر نصیحت کرنے لگا…. بولا..۔۔۔جاری ہے۔
بشکرییہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اگست 2024