نفس کی اقسام یا کیفیات
انسان کا جسم مٹی اور روح کا مرکب ہے
انتخاب۔۔۔محمد جاوید عظیمی نگران مراقبہ ہال ہالینڈ
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ نفس کی اقسام یا کیفیات۔۔۔۔ انتخاب۔۔۔محمد جاوید عظیمی نگران مراقبہ ہال ہالینڈ )انسان کا جسم مٹی اور روح کا مرکب ہے۔ روح کا تعلق انسان کے دل سے ہوتا ہے جبکہ نفس کا تعلق جسم سے ہوتا ہے۔ نفس اور روح کا کام علیحدہ علیحدہ ہوتا ہے۔ روح تو انتہائی پاکیزہ، تقویٰ ، پرہیز گاری اور بلند درجہ رکھتی ہے۔ مگر نفس کے کرداروں میں حرص ، حسد ، شہوت ، غیبت ، جھوٹ ، دھوکہ ، تکبر ، کینہ وغیرہ نمایاں ہیں۔ اور جو باتیں شرعاً اور عقلاً ناپسندیدہ اور بری ہیں۔ اور یہ نفس کے وہ کردار ہیں جو انسان کو تباہی کی دلدل میں گرا دیتے ہیں۔ یعنی انسانی وجود میں نیکی بدی ، اچھائی برائی دونوں کو رکھ دیا گیا۔۔۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَ نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰىهَا• فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَ تَقْوٰىهَا•
”اور جان کی قسم اور اس کی قسم جس نے اسے ٹھیک بنایا پھر اس کی بدکاری اور اس کی پرہیزگاری دل میں ڈالی۔“
پارہ 30، سورہ الشمس، آیت 7,8
اِنسان کے جسم میں گناہ کا گہرا شعور رکھنے اور گناہوں سے بچنے کے طریقوں سے آگاہ ، ایک فعال ، متحرک اور خود مختار قوتِ حاکمہ ہوتی ہے۔
۱… جو اِنسان کو بد اعمالی اور گُناہ پر اکساتی بھی ہے ،
۲… اس سے بچاؤ کے طریقے بھی سُجھاتی ہے ،
۳… نیز کبھی کسی بد کرداری کے ظہور پر لعنت و ملامت بھی کرتی ہے۔
انسانی جسم میں یہ ان تین الگ کیفیات کو ہم نفس امارہ (گناہوں پر اکسانے والا)، نفس مطمئنہ (تقویٰ و پرہیز گاری کے ساتھ اللہ و رسول ﷺ کی رضا میں راضی رہنے والا) اور نفس لوامہ (گناہوں پر ملامت کرنے والا) کا نام دیتے ہیں۔ ان کو نفس کی اقسام یا ایک ہی نفس کی تین مختلف کیفیات کہا جاتا ہے۔
۱۔ نفسِ مُطْمَئِنّہ::
جو انسان کو اطاعتِ الہی واتباعِ رسول ﷺ اور اللہ کے ذکر وفکر میں مطمئن رکھتا ہے اور خواہشات کی کشمش اور گناہوں کے خطرات سے دور رکھتا ہے۔ مصیبت میں صبر ، راحت میں شکر اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کا طلبگار رہتا ہے۔۔۔
اس کے بارے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یٰۤاَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىٕنَّةُۗۖ• ارْجِعِیْۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةًۚ•
”اے اطمینان والی جان۔اپنے رب کی طرف اس حال میں واپس آ کہ تو اس سے راضی ہووہ تجھ سے راضی ہو۔“
پارہ 30، سورہ الفجر، آیت 27,28
۲۔ نفس لَوَّامَہ::
جو قیامت کے دن کی فکر کرتے ہوئے خود کو گناہوں پر ملامت کرتا ہے کہ یہ کام بہت برا تھا تم نے کیوں کیا؟
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
لَاۤ اُقْسِمُ بِیَوْمِ الْقِیٰمَةِۙ• وَ لَاۤ اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِؕ•
”مجھے قیامت کے دن کی قسم ہے۔ اور مجھے اس جان کی قسم ہے جو اپنے اوپر ملامت کرے۔“
پارہ 29، سورہ قیامۃ، آیت 1,2
کچھ کے نزدیک نفس لوامہ مومن کا نفس ہے جو مومن کو گناہ میں مبتلا کر دیتا ہے ، پھر اس پر ملامت کرتا ہے یہ لعن طعن ایمانی دلیل ہے کیونکہ بدبخت کا نفس گناہوں پر ملامت نہیں کرتا ۔بلکہ گناہ کرنے پر آپس میں ایک دوسرے کو ملامت کرتے ہیں۔
۳۔ نفسِ أَمَّارَہ::
جو انسان کو گناہوں پر ابھارنے اور اکسانے والا ہو۔
اس قرآن مجید میں حضرت یوسف علیہ السلام کا قول ارشاد فرمایا گیا ہے کہ:
اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَةٌۢ بِالسُّوْٓءِ•
”بےشک نفس تو برائی کا بڑا حکم دینے والا ہے۔“
پارہ 13، سورہ یوسف، آیت 53
یہ نفس کی وہ قسم ہے جس میں انسان گناہ کو گناہ نہیں سمجھتا حلال و حرام کی تمیز کھو بیٹھتا ہے ، نیکی وبدی کا امتیاز نہیں کر پاتا ، اچھائی اور برائی کا فرق ختم ہو جاتا ہے پہلے یہ نفس انسان کو برائی کی دعوت دیتا ہے اور انسان اپنی مرضی اور خوشی سے یہ دعوت قبول کرتا ہے اور نفسانی خواہشات ولذات کو اپنے اوپر خود ہی حاوی کر لیتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو آج کل میں بہت لوگ نفس کی اس قسم کو بخوشی قبول کرتے ہیں جبکہ اللہ تعالٰی نے نفس امارہ کی مخالفت کا حکم ارشاد فرمایا ہے:
وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰىۙ• فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِیَ الْمَاْوٰى•
”اور (جس نے) نفس کو خواہش سے روکا۔ تو بیشک (اس کا) جنت ہی ٹھکانہ ہے۔“
پارہ 30، سورہ النازعات، آیت 40,41
علماء کرام کے نزدیک نفسِ مُطْمَئِنّہ سے اولیائے کاملین ، صالحین ، متقی و پرہیز گاروں کا نفس مراد ہے اور نفس لَوَّامَہ ، عام بندۂِ مومن کا نفس ہے جو مومن کو گناہ میں مبتلا کر دیتا ہے ، پھر اس پر ملامت کرتا ہے یہ لعن طعن ایمانی دلیل ہے اور نفسِ أَمَّارَہ سے مراد ان بد بختوں کے نفس ہیں جو گناہ پر ملامت نہیں کرتے بلکہ گناہ پر فخر کرتے ہیں ، اِتراتے پھرتے ہیں استغفرُللہ!!!
معاشرتی حقیقت::
آج کل ہم اس کے بالکل برعکس اور خلاف چل رہے گناہ پر ملامت کی بجائے ہم نیکیوں اور اسلامی تعلیمات کو اپنانے پر ملامت کا شکار ہو چکے ہیں۔ تقوی ، پرہیز گاری ، رضائے الٰہی واطاعتِ مصطفیٰ ﷺ پر مطمئن ہونے کی بجائے ہم گناہوں سے بھرپور زندگی گزارنے ںڑے مطمئن نظر آتے ہیں بلکہ فخر کرتے ہیں اور نفسِ امارہ کی تو بات ہی نہ کی جائے کہ ہم اللہ و رسول اللہ ﷺ کی طے کردہ دینی وشرعی حدود وقیود کا پامال کرتے چلے جا رہے ہیں ۔۔۔ الامان و الحفیظ
المختصر!!! خواہشات ولذاتِ نفسانیہ سے ہر ممکن بچتے رہنے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ اس نبوی ﷺ 💝 دُعا کا سہارا بھی لینا چاہیے ۔۔۔
حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ یہ دعا فرماتے:
’’اَللّٰھُمَّ آتِ نَفْسِیْ تَقْوَاھَا وَزَکِّھَا اَنْتَ خَیْرٌ مَّنْ زَکَّاھَا اَنْتَ وَلِیُّھَا وَمَوْلَاھَا.‘‘
”یعنی اے اللّٰہ! میرے نفس کو تقویٰ عطا فرما ، اس کو پاکیزہ کر ، تو سب سے بہتر پاک کرنے والا ہے ، تو ہی اس کا ولی اور مولیٰ ہے۔“
(معجم الکبیر، الحدیث: ۱۱۱۹۱)