نومبراقبال کامہینہ
اقبال ایک عہد سازشخصیت
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ) در بود و نبودِ من اندیشہ گمان ہا داشت
از عشق ہویدا شد، این نکتہ کہ ہستم من
(سوچ اس گمان میں تھی کہ میں ہوں یا نہیں
عشق سے یہ نکتہ ظاہر ہوا کہ میں موجود ہوں
اقبال… ایک شاعر، ایک مفکر، ایک عہد ساز #شخصیت۔
بلا شبہ اقبال #بیسویں صدی کے وہ عظیم ترین شاعر ہیں جنہوں نے نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا میں اپنی فکری اور شعری بلندیوں سے نام پیدا کیا۔
اقبال اردو کے صاحبِ #اسلوب شاعر ہیں جنہوں نے اردو، فارسی دونوں زبانوں میں اپنی تخلیقی #توانائیوں کے جوہر دکھائے۔ ان کی #نظم اور غزل دونوں میں وہی گہرائی، وہی تاثیر اور وہی فکری وسعت دکھائی دیتی ہے۔
اقبال کے کلام میں تشبیہات و #استعارات کا ایک پورا جہان آباد ہے —
ایک ایسا کینوس جس پر فکری #رنگوں کی قوسِ قزح بکھری ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
اور وہ خود کہتے ہیں:
جو عالمِ ایجاد میں ہے صاحبِ ایجاد
ہر دَور میں کرتا ہے طواف اس کا زمانہ
تقلید سے ناکارہ نہ کر اپنی #خودی کو
کر اس کی حفاظت کہ یہ گوہر ہے یگانہ
اُس قوم کو تجدید کا پیغام مبارک!
ہے جس کے تصّور میں فقط بزمِ شبانہ
لیکن مجھے ڈر ہے کہ یہ آوازۂ تجدید
مشرق میں ہے تقلیدِ #فرنگی کا بہانہ
ڈاکٹر جمیل جالبی نے لکھا تھا کہ
“بڑا ادب بڑی بے چینی پیدا کرتا ہے” —
اقبال کا #ادب بھی ہمارے اندر وہی بے چینی پیدا کرتا ہے جو انسان کو #خوابِ غفلت سے جگاتی ہے۔
یہی اقبال کی طاقت ہے کہ ان کا ہر شعر سوچنے پر مجبور کرتا ہے، انسان کو خود سے مکالمے پر آمادہ کرتا ہے۔
بیسویں صدی درحقیقت #اقبال کے گرد #گردش کرتی صدی تھی۔
اقبال نے مشرق و مغرب دونوں میں ایک فکری #بیداری کی لہر دوڑائی —
اور وہ خود کہتے ہیں:
> اک ولولہ تازہ دیا میں نے دلوں کو
لاہور سے تا خاکِ بخارا و سمرقند
اقبال فنی اعتبار سے جتنے عظیم ہیں، فکری لحاظ سے اس سے کہیں زیادہ بلند ہیں۔
ان کے ہاں امتِ مسلمہ کی نشاۃِ ثانیہ کا واضح تصور ملتا ہے۔
میں بندۂ ناداں ہوں، مگر شُکر ہے تیرا
رکھتا ہوں نہاں خانۂ لاہُوت سے پیوند
اک ولولۂ تازہ دیا مَیں نے دلوں کو
لاہور سے تا خاکِ بخارا و سمرقند
تاثیر ہے یہ میرے نفَس کی کہ خزاں میں
مُرغانِ سحَر خواں مری صحبت میں ہیں خورسند
لیکن مجھے پیدا کیا اُس دیس میں تُو نے
جس دیس کے بندے ہیں غلامی پہ رضا مند
ان کی شاعری میں امتِ واحدہ، اتحادِ ملت اور خودی کے پیغام کی روشنی جا بجا بکھری ہوئی ہے۔
میں کہ مری غزل میں ہے آتشِ رفتہ کا سراغ
مری تمام سرگزشت کھوئے ہوؤں کی جستجو
اقبال کی نگاہ ایک وسیع اور متحد مسلم دنیا پر تھی —
وہ ایک ایسا مرکز چاہتے تھے جہاں امتِ #مسلمہ اپنے مسائل کا حل خود تلاش کرے۔
ان کی مشہور نظم طلوعِ #اسلام اور پیغام “پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ” اسی فکر کی علامت ہیں۔
اقبال نے فرمایا:
تہران ہو گر عالمِ مشرق کا جنیوا
شاید کرۂ ارض کی تقدیر بدل جائے
یہ محض ایک شعر نہیں، ایک خواب تھا —
ایک ایسی دنیا کا خواب جہاں #مسلمان علم، عمل اور اتحاد کی بنیاد پر ایک ہو جائیں۔
مگر #افسوس! ہم نے اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کی کوشش نہ کی۔
انگریزی شاعر P.B. Shelley نے کہا تھا:
“Poets are the unacknowledged legislators of the world.”
(#شاعر اس دنیا کے غیر تسلیم شدہ قانون دان ہوتے ہیں۔
اقبال نے اسی حیثیت میں امتِ مسلمہ کے لیے فکری #قوانین وضع کیے —
خودی، #عشق، ایمان، عمل اور #بیداری کے۔
لیکن ہم نے ان کی انقلابی فکر کو فراموش کر دیا،
اور شاید اسی کا خمیازہ آج تک بھگت رہے ہیں۔
اقبال کا #عہد ختم نہیں ہوا،
اقبال خود ایک #عہد ہیں — جو ہر زمانے میں #زندہ رہتا ہے۔
ان کا پیغام آج بھی وہی #تازگی رکھتا ہے جو صد برس قبل رکھتا تھا۔
اقبال نے ہمیں #سوچنا سکھایا،
خود کو #پہچاننا سکھایا،
اور بتایا کہ:
تو رازِ کن فکاں ہے، اپنی آنکھوں پر عیاں ہو جا
خودی کا راز داں ہو جا، خدا کا ترجماں ہو جا
Allama Iqbal Open University Allama Iqbal Allama Iqbal Mushtaq Ahmad Khan Pakistan Army School Education Department, Government of the Punjab Jammu & Kashmir Tourism Orya Maqbool Jan Imran Khan Ayesha Noor
![]()

