ننھی فاطمہ زور زور سے احسان کا بدلہ سٹوری یاد کررہی تھی کسی جنگل میں ایک شیر درخت کے نیچے آرام کر رہا تھا ۔ادھر سے ایک شرارتی چوہے کا گزر ہوا۔ اس نے دیکھا کہ شیر سو رہا ہے وہ اس کے اوپر چڑھ گیا اور شرارتیں کرنے لگا اس کی اچھل کود سے شیر کی آنکھ کھل گئی اس نے چوہے کو پکڑ لیا اور کہا تم نے مجھے تنگ کیا ہے تجھے سزا ملے گی اس پر چوہے نے روتے ہوئے کہا ،جنگل کے بادشاہ مجھ سے غلطی ہوئی مجھے معاف کردیں اس پر شیر کو رحم آگیا اس نے چوہے کو چھوڑ دیا چوہا ایک طرف دوڑ گیا۔
کچھ دنوں بعد اسی چوہے نے دیکھاکہ شیر کسی شکاری کے لگائے جال میں پھنسا ہوا تھا وہ آگے بڑھا اور اپنے نوکیلے دانتوں سے جال کترنے لگا اس نے جلدی ہی جال کی رسیاں کاٹ کر شیر کو آزاد کر دیا اس پر شیر نے چوہے کا شکریہ ادا کیا اس پر چوہے نے کہا آپ نے مجھ پر احسان کیا تھا آج میں آپ کے کام آگیا۔
اتوار ہونے کی وجہ سے فاطمہ صبح سے یہ سٹوری بار بار بلند آواز سے یاد کر رہی تھی۔
شام کو جب ان کے پاپا جان ڈیوٹی سے آئے تو آمنہ نے کہا” پاپا جان یہ صبح سے سٹوری یاد کررہی ہے۔ خبر نہیں اسے یاد ہوئی کہ نہیں ہمیں یاد ہو گئی ہے ۔آپ کو اس لئے یاد ہو گئی آپ نے پہلے پڑھی ہے ۔فاطمہ کیا خاموش رہنے والی تھی ۔ بھئی احسان یا نیکی کا بدلہ میں بہت سی سٹوریاں تھیں یہ ایک فرضی کہانی ہے ۔اسے شیر اور چوہے کے پیرائے میں دلچسپی کے لئے لکھا گیا ہے تاکہ بچے دلچسپی سے یاد کریں ۔
میں آپ کو ایک دلچسپ کہانی سناتا ہوں جو سچی ہے یقینا آپ کی ٹیچر کو بھی پسند آئے گی ۔صرف دو تین نام مشکل ہیں وہ یاد کرنے ہوں گے ۔
اب بچے دلچسپی سے کہانی سننے لگے۔ پاپا جان سنانے لگے کہ ”بہت عرصہ کی بات ہے سکاٹ لینڈ (برطانیہ کا ایک جزیدہ ہے) جس میں ایک غریب کسان رہتا تھا ایک دن اپنے کھیتوں میں کام کررہا تھا کہ اسے کسی بچے کے چیخنے چلانے کی آوازیں سنائی دیں ۔
وہ آواز کی سمت گیا اس نے دیکھا کہ ایک بچہ ایک جوہر میں ڈوب رہا تھا وہ جوہر دلدلی تھا۔ وہ جتنا باہر نکلنے کی کوشش کرتا اتنا نیچے جا رہا تھا کسان نے اسے کہا کہ وہ آرام سے کھڑا ہو جائے ۔میں اس کے لئے کچھ کرتا ہوں ۔وہ جلدی سے ایک لمبی اور خشک لکڑی اٹھائے آیا اور اس نے وہ لکڑی اس بچے کے آگے کی اور کہا کہ اسے مضبوطی سے پکڑ لے یوں دونوں کی کوشش سے بچہ باہر آگیا ۔
کسان نے بچے سے کہا وہ اس کے ساتھ گھر چلے اور یہ گندے کپڑے بدل لے۔ اس پر اس بچے نے کہا آپ کا شکریہ میرے والد صاحب میرے لئے پریشان ہوں گے اس نے ایک طرف دوڑ لگا دی۔
اگلے دن ایک شاندار بگھی اس کسان کے گھر کے سامنے آکر رکی اس سے ایک بارعب شخصیت بگھی سے اتری اس نے کسان کا شکریہ اداکیا کہ اس نے اس کے بچے کی جان بچائی ہے اسے کیا صلہ دوں؟اس پر کسان نے کہا کہ مجھے کسی صلے کی ضرورت نہیں میں نے اپنا فرض نبھایا تھا میری جگہ کوئی بھی ہوتا وہ یہی کرتا ۔
مجھے کسی صلے کی ضرورت نہیں ۔بہت اصرار پر بھی کسان نے کچھ صلہ نہ لیا ۔آخر مایوس ہو کر جاتے جاتے اس رئیس کی نظر اس کسان کے بیٹے پر پڑی جو کچھ وقت پہلے ان کے پاس آکر کھڑا ہو گیا تھا اس رئیس نے پوچھا یہ آپ کا بیٹا ہے“؟
کسان نے محبت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے کہا جی جناب یہ میرا بیٹا ہے۔
رئیس نے کہا ایسا کرتے ہیں اسے اپنے ساتھ لندن لے جاتا ہوں اسے پڑھاتا ہوں ۔
بیٹے کی محبت میں کسان اس پیشکش پر راضی ہو گیا۔ اس کا بیٹا لندن پڑھنے چلا گیا اور اتنا پڑھا کہ آج دنیا اسے ”الیگزینڈر فلیمنگ“ کے نام پر جانتی ہے ۔وہ فلیمنگ جس نے پنسلین ایجاد کی وہ پنسلین جس نے کروڑوں لوگوں کی جان بچائی۔
وہ رئیس جس کے بیٹے محو کسان نے دلدل سے نکالا تھا وہی بیٹا جنگ عظیم سے پہلے ایک بار پھر ہسپتال میں زندگی اور موت کی کٹکش میں تھا اور اسی فلیمنگ کی ایجاد کردہ پنسلین سے اس کی زندگی بچائی گئی یوں وہ رئیس جس کا نام روڈ ولف چرچل اور اس کا بیٹا ونسٹن چرچل تھا۔
پاپا جان تاریخ پڑھتے ہوئے چرچل نام کئی بار پڑھا ہے وہی چرچل آمنہ نے حیرانگی سے کہا۔
جی بیٹا ! وہ چرچل جو جنگ عظیم دوئم میں برطانیہ کا وزیر اعظم تھا ۔اسے مرد آہن بھی کہتے ہیں اس کا قول ہے ”کہ بھلائی کا کام کریں کیونکہ بھلائی پلٹ کر آپ کے پاس آتی ہے۔
پاپا جان یہ سٹوری تو بہت اچھی ہے صرف کچھ نام مشکل ہیں اچھا ٹرائی کروں گی فاطمہ نے کہا ،بس پھر سمجھ لیں اگلے سنڈے تک فلیمنگ اور چرچل کی گردان سنیں گے ۔آمنہ نے کہا کوئی بات نہیں یہ اچھی سٹوری دو سرے بچے بھی یاد کریں۔ ان کے پاپا نے کہا سبھی مسکرانے لگے۔