Daily Roshni News

نیک ہونا خیر کا معاملہ ہے

نیک ہونا خیر کا معاملہ ہے

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل)کہتے ہیں کہ ایک گاؤں میں ایک امام مسجد رہتے تھے، جو اپنی نیک نیتی اور پارسائی کی وجہ سے پورے گاؤں میں مشہور تھے۔ اسی گاؤں میں ایک شخص بھی رہتا تھا، جسے اکثر اپنے کاروبار کے سلسلے میں گاؤں سے باہر جانا پڑتا تھا۔ اس کی پیچھے بیوی اور ایک ہی بیٹی گھر میں رہتی تھیں۔

اللہ کی رضا سے اس کی بیوی وفات پا گئی۔ اس کے پاس صرف ایک ہی جوان بیٹی تھی۔ بیوی کی وفات کے چند دن بعد اس شخص کو شہر سے باہر جانا پڑا، اور یہ جانا اس کے لیے ضروری بھی تھا۔

وہ بہت پریشان تھا کہ اپنی بیٹی کا کیا کرے؟ اسے کہاں چھوڑے؟ زمانہ ٹھیک نہیں ہے، اکیلے تو نہیں چھوڑ سکتا۔

کافی سوچ بچار کے بعد اس نے فیصلہ کیا کہ امام صاحب بہت نیکوکار ہیں، کیوں نہ اپنی بیٹی کو بطور امانت ان کے پاس چھوڑ دیا جائے۔

وہ امام صاحب کے پاس گیا اور کہا:

“میری بیٹی آپ کی بیٹیوں جیسی ہے۔ میں گاؤں سے باہر جانا چاہتا ہوں، میری کچھ مجبوری ہے۔ میں ایک دن بعد واپس آ جاؤں گا، تب تک براہِ کرم میری بیٹی کا خیال رکھیے گا۔”

امام صاحب نے اس کی مجبوری کو سمجھتے ہوئے حامی بھر لی، اور وہ شخص اپنی بیٹی کو امام صاحب کے پاس چھوڑ گیا۔

رات کا وقت تھا۔ لڑکی کمرے میں سو رہی تھی اور امام صاحب برآمدے میں اپنی چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے۔ رات کے پچھلے پہر شیطان ان پر حاوی ہونے لگا اور انہیں بدکاری کے لیے بہکانے لگا۔

کافی دیر تک انہوں نے اپنے جذبات پر قابو رکھا، لیکن آخر کار شیطان کے بہکاوے میں آکر وہ لڑکی کی طرف بڑھ گئے۔

جب کمرے میں پہنچے اور چادر اس کے چہرے سے اتاری، تو لڑکی نے انہیں دیکھا اور فوراً ان کی نیت پہچان لی۔ وہ سہم گئی اور بولی:

“میرے باپ نے آپ کے پاس مجھے بطور امانت رکھا ہے۔ امانت میں خیانت کسی نیکوکار کے لیے مناسب نہیں۔”

امام صاحب یکدم گھبرا گئے۔ فوراً گھر سے باہر نکلے، گاؤں سے بھی نکل گئے اور جنگل کی جانب دور تک بھاگتے چلے گئے۔ دل میں خوف اور شرمندگی کے ساتھ وہ سوچ رہے تھے: “میں کتنا بڑا گناہ کرنے والا تھا!”

گاؤں سے کچھ فاصلے پر ایک جھونپڑی میں ایک بزرگ رہتے تھے، جن کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ بہت نیکوکار ہیں، مگر شراب پیتے ہیں۔ امام صاحب چلتے چلتے اسی جھونپڑی کے پاس پہنچ گئے۔

دل میں کچھ سوچ کر وہ بزرگ کے پاس گئے اور باتیں کرنے لگے۔ گفتگو کے دوران انہوں نے استفسار کیا:

“بابا جی، آپ کے بارے میں مشہور ہے کہ آپ بہت نیکوکار ہیں، لیکن یہ شراب کا کیا قصہ ہے؟”

بزرگ نے شراب کی ایک بوتل اٹھائی اور کہا:

“یہ شراب پی لو۔”

امام صاحب نے کہا:

“خدا کا خوف کریں! میں امام مسجد ہوں، یہ شراب کسی صورت نہیں پی سکتا۔”

بزرگ نے کہا:

“صرف ایک بار سونگھ کر دیکھو۔”

امام صاحب نے بوتل ناک کے قریب لائی، تو اس سے کوئی بو نہیں آئی۔ وہ حیران رہ گئے۔ جب انہوں نے بوتل میں موجود شراب کو بہایا، تو دیکھا کہ وہ شراب نہیں بلکہ عام پانی ہے۔

امام صاحب نے پوچھا:

“بابا جی، یہ کیا ماجرہ ہے؟ یہ تو صرف پانی ہے!”

بزرگ نے جواب دیا:

“میں شرابی نہیں ہوں۔ میں نے یہ بوتلیں صرف اس لیے رکھی ہیں کہ لوگ میرے پاس اپنی بیٹیاں امانت رکھوانے نہ لائیں۔”

یہ سن کر امام صاحب کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ ان پر یہ حقیقت واضح ہوئی کہ نیک ہونا خیر کا معاملہ ہے لیکن اپنے آپ کو نیک اور پارسا ظاہر کرنا ایک طرح کی مصیبت بن سکتا ہے، کیونکہ لوگ کبھی کبھی اس حد تک لے جاتے ہیں کہ آپ کی نیکوکاری ہی آپ کے لیے وبال جان بن جاتی ہے۔

__________________________________

Loading