Daily Roshni News

وقت کو ناپنے کی پہلی کوشش۔۔۔ تحریر۔۔۔ محمد سلیم

وقت کو ناپنے کی پہلی کوشش

تحریر۔۔۔ محمد سلیم

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ وقت کو ناپنے کی پہلی کوشش۔۔۔ تحریر۔۔۔ محمد سلیم)کہتے ہیں وقت ریت کی طرح ہے، ہاتھ میں آ کر بھی نکل جاتا ہے۔ مگر انسان نے ہمیشہ کوشش کی کہ اس ریت کو کسی پیالے میں بھر لے، کسی پیمانے میں تول لے، کسی گنتی میں قید کر لے۔ وقت کو قابو میں لانے کی انسانی جدوجہد اتنی ہی پرانی ہے جتنا خود انسان کا شعور۔

قدیم دنیا میں وقت کا تصور سورج اور چاند کے طلوع و غروب، دن کی روشنی اور رات کے اندھیرے سے جڑا ہوا تھا۔ جب انسان نے زراعت شروع کی، اسے دنوں، مہینوں، اور موسموں کا حساب رکھنے کی ضرورت پڑی۔ وہ جانتا تھا کہ فصل کب بوئی جاتی ہے، کب کاٹی جاتی ہے، اور کب بارش آتی ہے. اور یہ سب جاننے کے لیے اسے “وقت” کو قابو میں لانا ضروری ہو گیا۔

سب سے پرانی اور سادہ گھڑی سورج گھڑی تھی۔ مصر کی ریتلی سرزمین پر، نیل کے کنارے، کسی وقت ایک دانشمند نے ایک لکڑی یا ستون زمین میں گاڑ دیا، اور اس کے سائے سے وقت کا اندازہ لگانا شروع کیا۔ یہ گھڑی وقت پر پہلی گرفت تھی۔ سورج جیسے جیسے آسمان میں چڑھتا، سایہ بدلتا۔ ہر سایہ ایک لمحہ ہوتا، ایک نیا اشارہ۔ مصر کی عبادت گاہوں اور محلات میں یہ سورج گھڑیاں روزمرہ کا حصہ بن گئیں۔

بابل کی تہذیب نے وقت کو مزید تقسیم کیا۔ انہوں نے 60 کے عددی نظام کے تحت گھنٹے، منٹ، اور سیکنڈ کے بیج بوئے۔ آج ہماری گھڑیاں اسی بابل کے خواب کی تعبیر ہیں۔ ان کے فلکیاتی ماہرین نے وقت کی پیمائش میں ریاضی کا استعمال کیا، اور چاند و سورج کے گرد گھومتے کیلنڈر وضع کیے۔

یونان میں، اینکسیمینڈر اور تھیلز جیسے فلاسفرز نے وقت کو کائناتی نظم کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی۔ انہوں نے آسمانی حرکات اور زمین کی ساخت کے ذریعے وقت کو سمجھنے کے لیے مختلف نمونے پیش کیے۔ بعد میں، ہیپارکس نے ایک ایسی چکر دار میز بنائی جو سورج اور چاند کے گرہن کی پیش گوئی کر سکتی تھی، یوں وقت کی ریاضی میں نیا دروازہ کھلا۔

ہندوستان میں وقت کو “کال” کہا جاتا تھا۔ قدیم سنسکرت تحریروں میں وقت کو ایک دیوی تصور کیا گیا ہے، جو سب کچھ نگلتی ہے۔ یہاں آسمانی تقویم، “پنچانگ”، کے ذریعے دن، رات، تیتھی، نکشترا اور یوگ کی تقسیم کی گئی۔ یہ سب کچھ چاند، سورج، اور سیاروں کی چال پر منحصر تھا۔ وقت یہاں روحانیت کے ساتھ جُڑا ہوا تھا. ناپنا صرف دنیاوی ضرورت نہیں بلکہ دھرم کا تقاضا بھی تھا۔

چین میں، “water clocks” یعنی پانی کی گھڑیاں مشہور ہوئیں۔ یہ گھڑیاں اس طرح بنی تھیں کہ ایک برتن سے قطرہ قطرہ پانی نیچے گرتا، اور نیچے والا برتن ایک خاص وقت کے بعد بھر جاتا۔ بعض گھڑیوں میں گیئر سسٹم بھی ہوتا، جو پانی کے دباؤ سے چلتا اور گھنٹی بجاتا۔

اسلامی دنیا نے وقت ناپنے کے فن کو علم اور عبادت کا جزو بنا لیا۔ نمازوں کے اوقات نے مسلمانوں کو سورج کے مقام سے وقت پہچاننے پر مجبور کیا۔ بغداد کے بنو موسیٰ، اندلس کے عباس بن فرناس، اور مصر کے ابن یونس نے فلکیاتی رصدگاہیں قائم کیں۔ ان رصدگاہوں میں بننے والے آلات نے ستاروں کی مدد سے وقت ناپنے کا نیا نظام متعارف کرایا۔

الجزاری، جو بارہویں صدی کا انجینئر تھا، اس نے ایک ایسی پانی کی گھڑی بنائی جو نہ صرف وقت بتاتی تھی بلکہ اس میں خودکار پرندے، موسیقی اور گھنٹیاں نصب تھیں۔ یہ گھڑی محض ایک آلہ نہیں، بلکہ ایک فن پارہ بھی تھی، جو سائنس اور آرٹ کا حسین امتزاج تھی۔

یورپ میں قرونِ وسطیٰ کے بعد چرچ نے گھنٹیوں کے ذریعے وقت کا اعلان شروع کیا۔ ہر گھنٹی ایک لمحے کا اعلان بن گئی۔ سولہویں صدی میں، جب میکانیکی گھڑیاں ایجاد ہوئیں، تو پہلی بار وقت کو ذاتی سطح پر ناپنے کا ہنر عام ہوا۔ لوگ گھڑیاں پہننے لگے، دیواروں پر ٹک ٹک کرنے والے وقت کے محافظ آ گئے۔

اٹھارہویں صدی میں جان ہیریسن نے میرین کرونومیٹر بنایا، جو سمندری سفر میں وقت کے ذریعے طول بلد معلوم کرنے کا ذریعہ بنا۔ اس ایجاد نے سمندروں کو فتح کرنے والوں کو زمین کی حدیں بڑھانے کا موقع دیا۔ وقت نے انسان کو خلا تک پہنچنے کے خواب دیے۔

اور پھر بیسویں صدی آئی، اور وقت کا حساب ایٹم کے تھرتھراتے ذروں سے ہونے لگا۔ ایٹمی گھڑیوں نے ہمیں اتنی درستگی دی کہ ایک سیکنڈ میں ایک ارب حصہ بھی غلط نہ ہو۔ جی پی ایس، مصنوعی سیارے، اور انٹرنیٹ کا سارا نظام انہی ایٹمی گھڑیوں پر قائم ہے۔

انسان نے ہمیشہ اپنے گرد موجود لمحوں کو قید کرنے کی کوشش کی، صرف اس لیے کہ وہ جان سکے وہ کس لمحے میں ہے، اور وہ لمحہ کب ختم ہونے والا ہے۔

یہ کہانی گھڑیوں کی نہیں، انسان کی بے قراری کی ہے۔

#وقت_کی_تاریخ #انسانی_سفر #تہذیبی_علم #محمد_سلیم

Loading