وہ6زاویے
تحریر۔۔۔ڈاکٹر صابر حسین خان
ہالینڈ(ڈیلی رو شنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ وہ6زاویے۔۔۔ تحریر۔۔۔ڈاکٹر صابر حسین خان)آزاد سے ملاقات ہوئے لگ بھگ 3 سال ہونے کو آرہے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب وہ باقاعدگی سے ہر ہفتے میرے پاس آتا تھا۔ ہر ہفتے گھنٹے دو گھنٹے تک ہمارا سیشن ہو تا
تھا اور ہم گھل کر باتیں کرتے تھے۔ آزاد کی پورے ہفتے کی کارگردگی کا جائزہ لیتے۔تجزیہ کرتے اور گھل کر آزاد کی کمیوں اور کو تاہیوں پر گفتگو ہوتی۔ کبھی کسی مضمون، کسی کالم یا کسی کتاب کے ابواب پر بات چیت ہوتی اور کبھی کسی فلم یا واقعے کے اہم نکات کا پوسٹ مارٹم کیا جاتا اور گزارے ہوئے ہفتے میں جو کمی بیشی رہ جاتی، اُسے اگلے ہفتے میں دور کرنے کے وعدے کے ساتھ ہماری میٹنگ (Adjourn) ہو جاتی۔ یہ اور بات ہے کہ اگلے ہفتے کی ملاقات میں بھی کم و بیش انہی کمیوں کی بابت نشان دہی ہوتی جو گذشتہ کئی برسوں سے ہر ہفتے باقی رہتیں۔
شاید یہ آزاد کی مجبوری تھی، اُس کی فطرت تھی یا اُس کی شخصیت ہی کچھ ایسی تھی کہ تمام تر خواہش اور کوشش کے باوجود اُس سے کچھ نہ کچھ چھوٹ جاتا۔ ہر شخص کی کچھ نہ کچھ مجبوری ہوتی ہے۔ ہر شخص کی فطرت اور شخصیت میں کچھ نہ کچھ کمی ہوتی ہے۔ جیسے میری مجبوری ہے کہ مجھ سے بالکل خالص خشک علمی مضامین نہیں کیے جاتے۔
موضوع کتنا ہی خالص خشک و علمی کیوں نہ ہو، جب تک اُس کے عرق سے کوئی کہانی نہیں بنے گی، اُسے لفظوں میں ڈھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح خالص جان دار فرضی کہانی بھی کبھی نہیں لکھ پایا۔ کہانی ہو تو سچی ہو اور دل کے تاروں کو چھولینے والی ہو۔ پھر یہی نہیں جب تک کہانی اور کرداروں کے بیچ فلسفے اور نفسیات اور تصوف کے تڑکے نہ لگے ہوں تو بھی کہانی پوری نہیں ہو پاتی۔ اب اسی بات کو لے لیجیے۔ آزاد کے مسئلے، مرض یا بیماری کو سیدھے الفاظ میں یا پھر زیادہ سے زیادہ ایک کیس اسٹڈی یا ہسٹری کی شکل میں بیان کیا جاسکتا تھا کہ یہ اور یہ علامات اور یہ اور یہ بیماری اور یہ اور یہ اس کا علاج۔ لیکن کچھ جگہوں اور کچھ لوگوں کے ساتھ ہم لگے بندھے طریقوں کے مطابق نہیں چل پاتے۔ آزاد کی طرح کے کچھ لوگ اتنے
Dynamic Volatile اور Energetic اور Active ہوتے ہیں کہ پھر ہمیں اُن کی بیماری کے ساتھ اُن کی طبیعیت، مزاج، شخصیت اور نفسیات کو
بھی لے کر چلنا پڑتا ہے۔
صرف دواؤں سے مسئلہ حل نہیں ہو پاتا یا یوں کہہ لیں کہ دل نہیں مانتا۔ لگتا ہے ہم ڈنڈی مار رہے ہیں۔ پوری دیانت نہیں برت رہے۔ لکھتے وقت بھی یہی لگتا ہے کہ کالم ہو یا مضمون اُسے کوئی بھی نام دیا جائے، بات جب تک تمام پہلوؤں سے بیان نہ ہو تو نہ مزہ آسکتا ہے اور نہ ہی دل سے دل تک کا سفر طے ہو سکتا ہے۔ بات دل سے کی گئی ہو تو بات میں وزن ہوتا ہے۔ اور بات میں وزن ہو تو بات دیر تک اور دور تک ہمارے ساتھ ساتھ رہتی ہے اور کسی نہ کسی صورت ہمارے کام آتی رہتی ہے۔
آزاد بھی دل والا نوجوان تھا۔ اس سے میرا تعلق بھی لگ بھگ 10 سال تک رہا۔ آزاد کی عمر جب 20 سال تھی، ویب سائٹ پر درج معلومات پڑھ کر اُس نے مجھ سے رابطہ کیا تھا۔ بہت کم نوجوانوں کو اتنی کم عمری میں اللہ تعالیٰ اتنا شعور یا ادراک عطا کرتا ہے کہ وہ اپنی شخصیت و نفسیات کے منفی پہلوؤں کو جان سکیں اور جانچ سکیں اور پھر اُن کو دور کرنے کی جستجو و تگ و دو میں بھی لگ سکیں، اور وہ بھی آزاد کی طرح بالکل تن و تنہا۔ اپنے ماں باپ، بہنوں بھائیوں اور دوستوں کے علم میں لائے بغیر ۔
اکیلے کیوں آئے ہو آزاد! تمہارے گھر والوں کو علم ہے کہ تم یہاں آئے ہو علاج کے لیے۔ بار والدہ یا بڑے بھائی کو کم از کم ضرور ساتھ لے کر آنا۔“
مجھے آج بھی پہلی ملاقات یاد ہے جب آزاد کی تفصیلی کہانی سن کر اور اس کے مختلف نفسیاتی عوارض کی علامات جان کر میں نے اُس سے یہ سب کہا تھا۔ سوال ہی پیدا نہیں ہو تا سر ! میں نے آپ کو اپنے بارے میں سب کچھ بتا دیا ہے۔ میرے گھر میں کسی کو نہ کچھ پتا ہے اور نہ ہی میں اُن کو کچھ بتا سکتا ہوں اور نہ بتاؤں گا۔ میں نہ پڑھتا ہوں نہ کماتا ہوں۔ بھائی میرا خرچہ برداشت کرتے ہیں۔ دو سال پہلے اُن کو میں نے اپنے مسائل بتانے کی کوشش کی تھی۔ اُنہوں نے جھڑک دیا مجھے۔ کہا کہ فضول باتیں ہیں۔ فارغ پھرتے ہو اس لیے دماغ فالتو سوچوں سے بھر گیا ہے۔ پڑھو اور کام کرو۔ لیکن میں کیسے کام کروں۔ کیسے پڑھوں سر! میرا دماغ مستقل چالو رہتا ہے۔ ایک کے بعد ایک سوچ آتی رہتی ہے۔ انتہائی واہیات۔ فضول۔ اوٹ پٹانگ۔ عجیب عجیب خیالات آنے لگتے ہیں۔ شدید گناہ کا احساس ہوتا ہے۔ دِل چاہتا ہے خودکشی کرلوں۔ ہر وقت طبیعت میں ھبراہٹ رہتی ہے۔ شدید احساس کمتری میں مبتلا ہوں۔ دل کہتا ہے میں بہت بڑا آدمی بنوں گا۔ میں بڑے بڑے کام کرنے کے لیے پیدا ہوا ہوں۔ لیکن پھر دماغ میں خیال آتا ہے نہ میرے پاس تعلیم ہے نہ دولت اور نہ مجھے بات کرنا آتی ہے۔ نہ کوئی ہنر ہے۔ میں کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ ناکامی میں ہی میری زندگی گزرے گی۔ اس سے بہتر ہے مر جاؤں۔
بشکریی ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جولائی 2017