پاکستانیوں کا آم سے محبت کا رشتہ کوئی معمولی بات نہیں
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )گرمی کا بھرپور آغاز ہو چکا ہے۔ پنکھے رینگنے لگے ہیں، اے سی بجلی کی منتیں کرنے لگے ہیں، اور لوگ سائے کو دیکھ کر ایسے دوڑتے ہیں جیسے سبزی والے آلو پر رعایت لگا دیں۔ مگر جناب، پاکستانی گرمی صرف گرمی نہیں ہوتی، یہ ایک موسمی تہذیب ہے۔ اور اس تہذیب کا سب سے اہم، سب سے میٹھا اور سب سے رسیلا رکن آم ہوتا ہے۔
جی ہاں، آم۔ وہی زرد، پیلے، سنہرے رنگ کا پھل، جس کی خوشبو سے فریج بھی مہکنے لگتا ہے اور دل بھی۔ آم وہ واحد پھل ہے جس پر کوئی فلسفیانہ مضمون لکھیں تو وہ بھی شہرت حاصل کر جائے، اور اگر کوئی عاشق اس کے بہانے خط لکھے تو محبوب کے دل تک پہنچ جائے۔ اس کی نہ صرف اقسام درجنوں ہیں، بلکہ چکھنے کے انداز بھی مختلف، کھانے کے طریقے بھی نرالے، اور اس سے جڑی یادیں بھی انمول ہوتی ہیں۔
پاکستانیوں کا آم سے محبت کا رشتہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ جیسے کسی سیاستدان کا وعدہ، ویسے ہی ہمارا آم سے عشق ہوتا ہے، یعنی شدید، بے قابو اور کبھی نہ ختم ہونے والا۔ جیسے ہی مئی جون کے مہینے آتے ہیں، گویا قوم آم آم ہو جاتی ہے۔ کوئی کیریوں کے اچار کی ترکیبیں نکال رہا ہوتا ہے، تو کوئی چونسا اور انور رٹول کی قیمتوں پر بحث کر رہا ہوتا ہے۔
ایک محقق کا کہنا ہے کہ اگر آم کا سیزن چھ مہینے طویل کر دیا جائے، تو ملک میں 25 فیصد جھگڑے خود بخود ختم ہو جائیں۔ کیونکہ جو قوم آم چوس رہی ہو، وہ کسی سے لڑنے کے لیے ہاتھ کہاں خالی رکھے گی؟
اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آم صرف ذائقے کی چیز ہے، تو آپ نے پاکستانی سیاست کی تاریخ کبھی نہیں دیکھی۔ آم یہاں سفارتی تعلقات کا ذریعہ بھی ہے اور سیاسی مہمان نوازی کا بہترین ہتھیار بھی۔ بڑے بڑے لیڈران نے آم کی پیٹیاں بھجوا کر اپنے رشتے ٹھیک کیے ہیں اور دشمنیاں مٹائی ہیں۔
مرحوم جنرل ضیاء الحق نے اندرا گاندھی کو جو آم بھجوائے تھے، وہ آج تک بین الاقوامی تعلقات کی نصابی کتابوں میں بطور ‘آم ڈپلومیسی’ یاد کیے جاتے ہیں۔
کئی سیاستدان تو آم کی پیٹیوں کے ساتھ اپنی تصویر سوشل میڈیا پر ایسے لگاتے ہیں جیسے وہ کسی امن کانفرنس سے واپس آئے ہوں۔ اب اسے ہم چونسا سفارت کاری کہیں یا انور رٹول پالیسی، بات وہی ہے کہ آم صرف پھل نہیں، ایک سٹریٹیجک آلہ بھی ہے۔
اپ نے غور کیا ہوگا کہ آم کھانے کے انداز سے کسی کی شخصیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ جو لوگ آم کاٹ کر پلیٹ میں کھاتے ہیں، وہ عموماً تہذیب یافتہ اور خود پر قابو رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں جو لوگ آم چوستے ہیں، وہ زندگی سے بھرپور، نڈر اور اکثر قمیض کے داغوں کے ساتھ پائے جاتے ہیں اور جو آم کو نچوڑ کر گلاس میں ڈال کر پیتے ہیں، وہ یا تو بزرگ ہوتے ہیں، یا پھر وہ لوگ جو خود کو حساس معدے والا سمجھتے ہیں۔ ایک اور طبقہ بھی ہے، جو صرف مہنگے آم خریدتا ہے تاکہ سوشل میڈیا پر ان کی تصویریں لگا کر زندگی کے اصل مزے دکھا سکے۔ وہ چونسا کے ساتھ فرنچ قہوہ پیتے ہیں اور پھر کہتے ہیں، ہم دیسی بھی جدید ہو گئے ہیں۔
اگر آپ نے محبوب کو آم نہیں بھیجے، تو گویا آپ نے خط لکھے بغیر عشق کرنے کی کوشش کی ہے۔ آم بھیجنا دراصل عشق کا میٹھا اقرار ہے۔ پرانے وقتوں میں جب ایس ایم ایس نہیں تھے، تب آم ہی پیغام رسانی کا ذریعہ تھے۔ محبوبہ اگر آم کھا کر آم کی گٹھلی کے ساتھ دھاگا باندھ کر واپس بھیج دیتی، تو یہی سمجھا جاتا کہ راہ ہموار ہے۔ آج بھی کئی نوجوان اپنے دل کی بات کہنے کے لیے آم کی پیٹی کا سہارا لیتے ہیں۔ وہ الگ بات ہے کہ بعض دفعہ پیٹی والد صاحب کے ہاتھ لگ جاتی ہے، اور پھر آم کی جگہ چھتر کھانے پڑ جاتے ہیں۔
پاکستان میں آم کی اقسام پر لوگ ایسے بحث کرتے ہیں جیسے مذہبی فرقے پر بات ہو رہی ہو۔
بھائی! سندھڑی جیسا کوئی آم نہیں ہے!
نہیں جناب! انور رٹول ہی اصل بادشاہ ہے!
ارے بھائی”چونسا کھاؤ تو پتہ کہ چلے آم کیا ہوتا ہے”
پھر کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو زبان کو جغرافیے سے جوڑتے ہیں کہ بھائی یہ لاہور کا چونسا ہے، یہ تو جنت سے آیا لگتا ہے۔ سندھ کا آم ہے تو خوشبو ہی الگ ہے۔ گویا آم نہ ہوئے، ثقافتی نمائندے ہو گئے۔
جون جولائی کے مہینے میں آم کی قیمتیں سن کر بندہ آم کھانے کے بجائے آم دیکھنے پر قناعت کرتا ہے۔
ایک بار ایک دکاندار نے چونسا کی قیمت 450 روپے کلو بتائی، تو ساتھ ہی وضاحت دی کہ
بھائی یہ چونسا نہیں، ‘ولایتی پیار’ ہے۔
یعنی اب آم کی قیمت کا تعین ذائقے سے نہیں، شاعر کی طرح جذبات سے ہوتا ہے۔ اور اگر خدانخواستہ آپ نے آم خریدے اور وہ اندر سے خراب نکل آئے، تو واپسی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ دکاندار بس اتنا کہے گا کہ
بھائی، یہ آم ہے، لیڈر تو نہیں جو وعدہ پورا کرے۔
دیہات میں آم درخت سے توڑا جاتا ہے، چھاؤں میں رکھا جاتا ہے، اور پھر صحن میں بیٹھ کر، قمیض کا دامن پھیلا کر کھایا جاتا ہے۔ اس کے بعد بچی ہوئی گٹھلیاں بکریوں کو کھلائی جاتی ہیں۔
شہروں میں آم فریج سے نکال کر کریم کے ساتھ کھایا جاتا ہے، پھر سوشل میڈیا پر تصویر لگا کر لکھا جاتا ہے۔
“ایک آم اور اُداس بھری شام”
شہر اور دیہات کی آم دوستی میں بس اتنا ہی فرق ہے جتنا اصل محبت اور انسٹاگرام کی محبت میں ہوتا ہے۔
کیا آپ نے کبھی دوپہر کے وقت چوری چھپے کسی کے باغ سے آم توڑے ہیں؟ یا کسی پرانے درخت کے نیچے بیٹھ کر کیریاں کاٹ کر نمک مرچ لگا کر کھائی ہیں؟ یہ سب یادیں آم کے ساتھ جڑی ہوتی ہیں۔ آم صرف ذائقہ نہیں دیتے، ماضی کا در بھی کھولتے ہیں۔
امی کی وہ آواز کہ “باہر مت پھرو، دھوپ ہے، اور آم ابھی پکا نہیں ہے یا نانی کی وہ مہک دار پیٹی جو ہر سال خانیوال سے آتی تھی۔ یہ سب خوشبوئیں، آوازیں، اور ذائقے آم کی شکل میں گرمی کو جیسے واپس لوٹا دیتے ہیں۔
پاکستانیوں سے آم چھین لینا ایسا ہی ہے جیسے برگر سے چٹنی یا چائے سے بسکٹ چھین لینا۔ یہ صرف پھل نہیں، ہماری روحانی غذا، معاشرتی رشتہ، اور محبت کی علامت ہے۔ اگر آپ نے آم چوسنے کے بعد ہاتھ نہ دھوئے ہوں، قمیض پر داغ نہ لگایا ہو، یا گٹھلی دانتوں سے نہ نوچی ہو، تو معذرت کے ساتھ کہ آپ نے آم نہیں کھایا، بس تصویر دیکھی ہے۔
تو اگلی بار جب آپ آم کھائیں، تو شکر کریں کہ آپ پاکستانی ہیں۔ وہ خوش نصیب قوم، جسے آم بھی ملتے ہیں، اور آم سے محبت بھی۔۔۔۔!!
والسلام
اظہر حسین بھٹی