Daily Roshni News

پاکستانی آرٹسٹس اور آرٹ۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم

پاکستانی آرٹسٹس اور آرٹ

تحریر۔۔۔حمیراعلیم

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ پاکستانی آرٹسٹس اور آرٹ۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم)پاکستانی ملٹی ٹیلنٹڈ قوم ہیں۔ہر فن مولا۔کوئی ایسا کام نہیں جو ہم نہ کر سکیں۔لیکن ایک آرٹ ایسا ہے جو شاید ہی دنیا بھر میں کہیں موجود ہو۔اور وہ ہے ٹوائلٹ آرٹ کسی اسکول، کالج، یونیورسٹی، پبلک پلیس کے ریسٹ روم میں جائیں تو ڈبلیو سی تو ناقابل استعمال ہوتا ہی ہے مگر ٹوائلٹ کی دیواریں فون نمبرز، آئی لو ۔۔۔۔۔، کیا کر رہے ہو شرم نہیں آتی، اور بہت سے اسکیچز سے بھری ہوتی ہیں جن سے ہماری قوم کے ویلے ہونے اور آرٹسٹک ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔

اور یہ صرف ریسٹ روم تک ہی محدود نہیں بلکہ اسکردو سے سیاچن تک کی پہاڑیوں پر بھی نظر آتا ہے۔اب بندہ پوچھے کہ کیا آپ اپنے  محبوب کو ان مقامات کے علاوہ کہیں  اظہار محبت نہیں کر سکتے یا آپ کا محبوب بھی انہی مقامات کا دلدادہ ہے؟چند دن پہلے میرے کچھ رشتے دار عمرہ کی سعادت حاصل کر کے لوٹے اور حسب روایت بہت سی تصاویر بھی بنا لائے۔غار ثور اور  غار حرا پر بھی پاکستانیوں کی درخواستیں اور نام دیکھے تھے مگر شاک اس وقت لگا جب جبل رحمت کی تصاویر دیکھیں اور اس پر بھی اپنے نام کے جھنڈے گاڑنے والوں کی مہریں ثبت دیکھیں۔کوئٹہ میں چند نوجوانوں نے مل کر ایک تنظیم بنا رکھی ہے جو ملک بھر سے شہید شدہ قرآن پاک اکھٹے کر کے قابل مرمت کو دوبارہ قابل استعمال بناتے ہیں اور جو قابل مرمت نہیں انہیں غاروں میں محفوظ کر لیتے ہیں۔ان غاروں میں سے ایک میں قرآن پاک کو شوکیس ٹائپ اسٹینڈز میں رکھ کر زائرین کے لیے کھولا گیا تھا۔جب وہاں گئی تو دیکھا کہ ایک بورڈ پر لکھا ہے خواتین  کا داخلہ ممنوع ہے پوچھا کہ ایسا کیوں ہے؟تو بتایا گیا کہ خواتین ان اسٹینڈز کے نیچے سے گزرتی ہیں کہ ہم نے منت ماننی ہے۔بڑی منتوں کے بعد جانے کی اجازت ملی تو غار میں جا کر آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔جی نہیں قرآن پاک دیکھ کر نہیں بلکہ غار کی چھت، دیواروں اور ان اسٹینڈز پر لکھی دعائیں دیکھ کر۔یا اللہ۔۔۔ سے میری شادی کروا دے، مجھے جاب مل جائے، امریکہ کا ویزہ مل جائے وغیرہم۔

مجھے سمجھ نہیں آتی کہ یہ کیا سائیکی ہے پبلک پلیسز پر کچھ بھی لکھنا، ڈرا کرنا یا اپنے اور محبوب کے نام کے ساتھ دعا لکھنا اس کی کیا منطق ہے۔کیونکہ قرآن حدیث میں تو ایسے کسی کام کے کرنے سے دلی مراد پوری ہونے کا ذکر نہیں۔نہ ہی ٹوائلٹس یا پہاڑ وہ مقامات ہیں جہاں لڑکے لڑکیاں ڈیٹس پر جاتے ہیں کہ وہاں اظہار محبت کیا جائے۔یا شاید جاتے ہوں صرف یہ چیک کرنے کہ ان کے چاہنے والوں نے ان کے لیے کتنا وقت صرف کر کے آرٹ ورک کیا ہے۔

باقی سب کاموں کی طرح ہمیں ان آداب کو بھی سیکھنے کی ضرورت ہے کہ پبلک پلیسز خصوصا ٹوائلٹس کو کیسے استعمال کرنا چاہیے۔کیونکہ مہذب اقوام اپنے بچوں کو بچپن سے ہی اسکولز میں زندگی گزارنے کے طریقے سکھاتی ہیں۔ٹوائلٹس استعمال کر کے انہیں صاف چھوڑنا تاکہ دوسرے لوگوں کو گھن نہ آئے۔پبلک پلیسز کو صاف رکھنا ہمارا فرض پے کیونکہ وہ بھی ہمارے ٹیکس کے پیسے سے ہماری سہولت کے لیے بنائے جاتے ہیں۔

اور یقین مانیے غار حرا، ثور یا جبل رحمت پر نام کنندہ کرنے پر وقت ضائع کرنے کی بجائے اگر آپ دعا کریں تو یقینا آپ کی دلی مراد بر آئے گی۔کیونکہ نہ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اور نہ ہی صحابہ کرام نے ان مقامات پر اپنے نام کنندہ کیے بلکہ عبادات و دعائیں ہی کی ہیں۔ عالمی سطح پر ہم بحیثیت ملک و قوم تو بدنام ہو ہی چکے ہیں اپنے ذاتی وقار کا کچھ تو خیال کیجئے۔

Loading