Daily Roshni News

پاکستانی معاشرے کی منافقت ۔۔۔تحریر۔۔۔حمیرا علیم

پاکستانی معاشرے کی منافقت

تحریر۔۔۔حمیراعلیم

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ پاکستانی معاشرے کی منافقت ۔۔۔تحریر۔۔۔حمیرا علیم )بلوچستان میں ایک جوڑے کے قتل کی ویڈیو پر لوگوں اور میڈیا کی دو رائے ہیں۔لیکن اب باوجود ذرائع سے  یہ کنفرم ہو چکا ہے کہ دونوں شادی شدہ اور بچوں والے تھے لیکن نفس کے ہاتھوں مجبور ہوئے اور غیر شرعی تعلقات کی وجہ سے قبیلے نے انہیں قتل کر دیا۔اگرچہ سزا ان کی رجم ہی تھی مگر قبیلے یا برادری کی بجائے یہ عدالت کا کام تھا کہ سزا دے۔چونکہ بلوچستان،  کے پی اور سندھ میں صدیوں سے قبائلی نظام ہی رائج ہے۔یہ لوگ ہر معاملہ جرگے میں ہی نمٹاتے ہیں عدالت یا پولیس اسٹیشن نہیں جاتے۔اس لیے انہوں نے خود ہی مجرمین کو سزا دے دی۔

پاکستان میں مرد و زن کے لیے دوہرے معیار ہیں۔اگر کوئی غیر مسلم فارنر لڑکی ہزاروں میل دور سے آ کر کسی پاکستانی مرد سے شادی کرے تو سب اسے سراہتے ہیں۔سوشل، الیکٹرانک ،پرنٹ میڈیا پر تحسین کے ڈونگرے برسائے جاتے ہیں۔ “ماشاءاللہ، کیا قسمت والا لڑکا ہے”, “اسلام کی برکت ہے”, “سچی محبت کبھی ہارتی نہیں”۔اور اگر وہ کسی مقامی لڑکی سے اپنی مرضی سے شادی کر لے تب بھی اہل خانہ ، برادری قبیلہ اس کی مردانگی پر شک کرتا ہے نہ ان کی غیرت جاگتی ہے۔

       لیکن جونہی کوئی پاکستانی لڑک کسی پاکستانی لڑکے سے اپنی پسند سے شادی کا فیصلہ کرے تو پورا معاشرہ بپھر جاتا ہے۔ خاندان کی عزت داو پر لگ جاتی ہے قبیلہ ہتھیار اٹھا لیتا ہے۔ اور بسا اوقات وہی لڑکی اپنے ہی باپ، بھائی، چچا یا قبیلے  کے ہاتھوں ماری جاتی ہے۔ بلوچستان کی اپنی ماں سمیت قتل ہونے والی تین لڑکیاں ہوں یا کسی اور صوبے میں لو میرج کرنے والیاں۔ان کا جرم صرف یہ تھا کہ انہوں نے اپنی زندگی کا فیصلہ خود کرنا چاہاجس کے نتیجے میں وہ غیرت کی بھینٹ چڑھا دی گئیں۔

        یہ دوہرا معیار کھل کر بتاتا ہے کہ مسئلہ نہ مذہب ہے، نہ اخلاقی اقدار بلکہ مسئلہ ہے مرد کی خود ساختہ برتری اور عورت کی آزادی سے خوف۔ کیونکہ دین تو مرد و عورت دونوں کے لیے ایک جیسا معیار رکھتا ہے اور افضل اسے کہتا ہے جو اپنی عصمت کی حفاظت کرے۔پھر مرد لو میرج کرے تو اس کی اور خاندان کی عزت پر حرف کیوں نہیں آتا۔اور عورت کرے تو وہ بدچلن اور قابل تعزیر کیوں ہوتی ہے؟

        المیہ یہ ہے کہ آج کے دور میں “پسند کی شادی” کا مطلب بھی بگاڑ دیا گیا ہے۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں، مذہب اور اخلاقیات کی حدود کو پھلانگ کر سالوں سال کے تعلقات کو محبت سمجھ بیٹھتے ہیں۔ وہ خفیہ فون کالز، میسجز، ملاقاتوں، حتیٰ کہ جسمانی تعلقات کو بھی پاکیزہ محبت کا نام دے دیتے ہیں۔ اور جب معاشرہ یا خاندان اس پر اعتراض کرے تو فوراً کورٹ میرج یا بھاگ کر شادی کر لیتے ہیں۔جب کہ پاکیزہ محبت صرف وہی ہے جس میں جسم کی ہوس نہ ہو۔

        اسلام میں پسند کی شادی منع نہیں ہے لیکن اس کے اصول مقرر ہیں۔ قرآن میں غیر محرم مرد و عورت کے درمیان بلا ضرورت بات چیت، خلوت، تعلق، یا خفیہ دوستی کو سختی سے منع کیا گیا ہے۔ نبی کریم ﷺ کی واضح حدیث ہے:

لا نكاح إلا بولي.

ولی کے بغیر نکاح نہیں۔ترمذی

لڑکی اپنی مرضی سے نکاح ضرور کر سکتی ہے لیکن اس میں ولی (یعنی باپ، بھائی، چچا ، محرم رشتے وغیرہ) کی اجازت لازم ہے۔ کیونکہ خاندان کا کردار اس رشتے میں اہم ہے۔ والدین کو اندھیرے میں رکھ کر، جھوٹ بول کر، یا بغیر مشورہ کے کیے گئے نکاح کو علماء کرام پسند کی شادی نہیں بلکہ گناہ کہتے ہیں۔ اس میں زنا، والدین کی نافرمانی، جھوٹ، اور فریب جیسے کبیرہ گناہ شامل ہو جاتے ہیں۔

     نوجوان نسل کو یہ حقیقت بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ پسند کی شادی کے نام پر کی گئی بیشتر کورٹ میرج کیسز انجام کار ناکام ہو جاتی ہیں۔ ان میں محبت، عزت، اور اعتماد کا وہ رشتہ قائم نہیں رہتا جس کا خواب نوجوان دیکھتے ہیں۔ شروع میں جو محبت نظر آتی ہے، وہ وقت کے ساتھ بوجھ بن جاتی ہے۔ اور اگر خاندان، برادری یا قبیلہ معاف بھی کر دے، تب بھی ایسے جوڑوں کی زندگی عموماً بے سکونی، شک، اور شرمندگی میں گزرتی ہے۔

       معاشرتی، خاندانی، اور مذہبی بنیادوں پر قائم شادی زیادہ پائیدار ثابت ہوتی ہے۔ کیونکہ اس میں والدین کی رضا، خاندان کا تعاون، اور برکت شامل ہوتی ہے۔ جو لڑکے لڑکیاں کئی سال خفیہ تعلقات میں رہنے کے بعد شادی کرتے ہیں وہ پہلے ہی ایک دوسرے کے عیب دیکھ چکے ہوتے ہیں اور اکثر یہ رشتہ بوجھ بن جاتا ہے۔

     یہ بات بالکل درست ہے کہ اسلام نے عورت کو پسند  کی شادی کی اجازت دی ہے۔ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں کئی مثالیں ملتی ہیں کہ لڑکیوں نے خود آ کر نکاح کی خواہش ظاہر کی اور انہیں عزت کے ساتھ ان کے حق کے مطابق جواب دیا گیا۔ لیکن آج ہم اسی دین کے ماننے والے ہو کر اپنی ہی بیٹیوں کو قتل کر دیتے ہیں۔

     اگر کوئی لڑکا لڑکی کسی کو پسند کرتے ہیں تو اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے والدین سے بات کریں، اپنا موقف بتائیں، اور شریعت کے دائرے میں رہ کر رشتہ طے کریں۔ اگر والدین بغیر کسی ٹھوس وجہ کے انکار کریں تو علما، خاندان کے بزرگ یاکسی قاضی کے ذریعے مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن خفیہ دوستی، فرار، جھوٹ، یا خفیہ نکاح کسی صورت اسلامی نہیں۔

     معاشرے کو بھی منافقت اور دوہرا معیار ختم  کرنا ہو گا ۔ کیا ہم واقعی اسلام پر عمل کرنا چاہتے ہیں، یا صرف اپنی مردانگی، غیرت اور جھوٹی عزت کا دفاع کر رہے ہیں۔ اگر ہم غیر ملکی لڑکیوں کے ساتھ پاکستانی لڑکوں کی شادی پر خوش ہوتے ہیں، تو اپنی بیٹی کو بھی حق دینا پڑے گا کہ وہ اپنے لیے شریکِ حیات کا انتخاب کر سکے۔

       محبت بری چیز نہیں لیکن  اسلام صرف محرم سے کرنے کی شرط رکھتا ہے اور نامحرم سے کسی بھی قسم کے تعلقات سے روکتا ہے۔اور جس وجہ سے روکتا ہے وہ بھی ہمارے سامنے ہی ہے۔جب اللہ رسول کسی کام سے منع کرتے ہیں تو اس میں ہمارا ہی فائدہ ہوتا ہے۔اس کے خلاف جانے سے ایسے ہی معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔

      پسند کی شادی کو جرم نہ بنائیں۔لیکن اسے نفس کی تسکین کا ذریعہ بھی نہ بنائیں۔ والدین، لڑکے، لڑکیاں، سب کو اپنے کردار کو درست کرنا ہوگا۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی بچوں کی بات سنیں اور شرعی بنیاد پر ان کے لیے بہتر فیصلہ کریں۔ بچوں کو چاہیے کہ وہ اپنے والدین سے جھوٹ بول کر یا غیر شرعی تعلقات میں الجھ کر اپنی زندگی خطرے میں نہ ڈالیں۔اگر والدین اپنے بچوں کی رائے کا احترام کریں اور اپنی انا کا مسئلہ نہ بنا لیں۔اور بچے بھی غلط راستے اختیار کرنے کی بجائے شرعی، اخلاقی قانونی طور پر شادی کر کے محبت کا رشتہ قائم کریں تبھی ایک پرسکون معاشرہ قائم ہو سکے گا۔ حدود میں رہ کر کی گئی پسند کی شادی ہی اصل محبت ہے جس پر رب کی رحمت نازل ہوتی ہے۔

Loading