پاکستان کا ایٹم بم
ڈاکٹر عبد القدیر خان کی لازوال قربانیوں کا ثمر ہے۔
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ پاکستان کا ایٹم بم اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان)عبد القدیر خان اور ایٹمی پروگرام ۔۔۔لیکن پہلے ایک نشئي کا قصہ ۔ایک نشئی شام کو جب بھی گھر آتا ،بیوی سے پوچھتا کیا پکایا
وہ ہمیشہ کہتی دال ،سبزی ،چٹنی ،وہ خود مزدوری کرتی تھی
اور لوگ بھی خیرات دیتے تھے ،وہ بیوی کو مارنا شروع کر دیتا
روز روز کی مار سے تنگ آ کر ایک دن اس عورت نے کتا پکڑا ،اسکا گوشت
بنایا اور پکا کر رکھ دیا ،خاوند حسب روایت آيا بولا ،کیا پکایا ،بولی ،گوشت
بہت خوش ہوا جلدی لاؤ ،کتا پکانے کا عمل انکا آٹھ دس سال کا بیٹا دیکھ
رہا تھا ،جونہی ماں نے گوشت اس کے والد کے سامنے رکھا ،بچے نے دل دہلا دینے والی چيخ ماری ،باپ نے بھی کھانا چھوڑ دیا ،ماں بھی دوڑی اور محلہ
بھی اکٹھا ہوگيا ،ہر کوئی پوچھتا ،کیوں روتا ہے ،بولا عجیب الجھن میں ہوں
بولتا ہوں تو ماں ماری جاتی ہے ،نہیں بولتا تو باپ کتا کھاتا ہے
٭٭
ملکی راز بلکل اسی طرح ہوتے ہیں ،بتائے جائیں تو دنیا مارتی ہے ،نہ بتائے جائیں تو جاہل جگتیں اور طعنے مارتے ہیں
کوئی ملک ،حتی کہ انبیاء علیہ سلام بھی راز افشا نہیں کرتے ،ہر گھر کے راز
ہوتے ہیں ،کوئی بتاتا ہے کہ رات کو ابے نے امی کو پیٹا ہے ،
ملکوں کے بے شمار راز ہوتے ہیں ،سن 1974 میں انڈیا نے پہلا ایٹمی دھماکہ
کیا ،بھٹو نے بھی ایٹمی پروگرام شروع کرنے کا پروگرام شروع کرنے کا کہا
کچھ بھی نہیں تھا ،سب کچھ چوری کرکے لانا تھا ،اور ایٹمی پروگرام بھی
خفیہ رکھنا تھا ،امریکا ایٹم بم استعمال کر چکا تھا ،اس نے وزنی بم جسکو
ڈرٹی بم کہتے ہیں وہ استعمال کیئے ،اس بم کو اٹھانے اور لے جانے کی صلاحیت کی پاکستان کو اس وقت امید نہیں تھی ،ہائيڈروجن بم ،یورنیم
بم اور پلوٹنیم بم کی آپشنز پاکستان کے پاس تھیں
ڈاکٹر اے کیو خان کو لایا گيآ ،انہوں نے کسی سخت پہاڑ کی تہہ میں ایٹمی
آلات لگآنے کا مشورہ دیا ،سرگودھا کریانہ اور کہوٹہ میں کھدائي کی گئی
سارے آلات چوری کرکے لائے گئے ،سمگل کرکے لائے گئے ،سنٹری فیوجز بنانے
کا مرحلہ بہت دشوار تھا ،وہ مٹیریل جو سنٹری فیوجز میں استعمال ہوتا
تھا دنیا دینے کو تیار نہیں تھی ،اسرائيل ،امریکا ،انڈیا اور یورپ کو یقین تھا
پاکستان ایٹم بم بنانے جا رہا ہے،لہذہ پابندیاں اور نگرانی شروع ہوئی
بے پناہ پیسہ خرچ ہونا تھا ،پیسہ غلام اسحاق خان کے حوالے کیا گيا ،اور
اے کیو خان انچارج تھے ،ڈاکٹر خان کہتے ایک ارب روپیہ دے دیں غلام اسحاق خان دے دیتے اور پوچھتے نہ کہ کیا کرنا ہے نہ لکھا جاتا نہ حساب
تھا ،تین جگہیں کریانہ ،کہوٹہ ،نیلور پر مشکوک سائیٹس بنائي گئیں تاکہ
دشمن کنفیوز رہے ،فوج ،ایئر فورس کو صرف سیکورٹی دی کئی ،صرف آرمی چیف اور غلام اسحاق خان اور ڈاکٹر خان کو معلوم تھا
بے شمار ہیروز ہیں گمنام اس پروگرام کے ،یاد رہے ڈاکٹر خان مرحوم صرف
مٹیریل فزکس کے ماسٹر ہیں یعنی سنٹری فیوجز بنا کر یورنیم کو ان رچمنٹ
کیلئے تاکہ وہ اس میعار پر پہنچ جائے جس سے بم بن سکے
یوں چند سالوں میں کولڈ ٹیسٹ کر دیا گيا اور اس وقت کے صدر ضیا الحق
مرحوم کو بتا دیا گيا کہ ایٹمی دھماکے کیلئے تیار ہیں ،پہلے چین میں برف میں ٹیسٹ کرنے کا پروگرام بنا ،لیکن ٹیکنالوجی لیک نہ ہو ،خاموشی
پھر کولڈ ٹیسٹ کریانہ پہاڑی میں کیا گيا جو کامیاب رہا
تب ضیا الحق نے چاغی میں سرنگ بنانے کا کہا تاکہ ہاٹ ٹیسٹ کیا جا سکے
لیکن پابندیوں کے ڈر سے ٹیسٹ روک دیا گيا ،لیکن ضیا الحق نے بم بنانے کا
حکم دے دیا ،یوں 55 بم تیار کر لیئۓ گئے ،بم کا وزن ایک ہزار کلو گرام تھا
اور اسکو انڈیا تک لے جانے کیلئے کچھ تھا نہیں ،ایف سولہ پر پابندی تھی
میراج بھی نگرانی میں تھے لیکن میراجز پر بم لگآنے کی جگہیں بنا دی
گئیں ،لیکن فوری طور پر چين سے ایم 11 میزائل خریدے گئے تب دنیا
کو یقین ہوا ،پاکستان نے بم بنا لیا ،تب انڈیا اور اسرائیل نے کہوٹہ پلانٹ
تباہ کرنے کا سوچا ،اسرائيلی ایف 15 انڈیا پہنچ گئے ،انڈیا فوج بارڈر
پر لے آيا ،تب ضیا الحق نے براہ راست راجیو کو دھمکی دی اور تاراپور
کا بھی بتایا ،انڈیا نے پھر دھماکے کیئے ،اور نواز شریف کی حکومت نے
29 مئی 1999 کو چاغی میں چھ دھماکے کروا دیئے
ضیا الحق نے خوشاب جوہر آباد میں پلوٹینیم کا پلانٹ لگآیا ،جسکو
بم کیلئے استعمال کرنے کیلئے مشرف نے دو پلانٹ اور بنا دیئے
اور یوں چھوٹے سے چھوٹا پلوٹینیم بم جو النصر پر فٹ ہو سکے تیار ہوا
ہمیں میزائل ٹیکنالوجی کی ضرورت تھی ،ڈاکٹر خان کا شمالی کوریا سے رابطہ تھا اور میزائل ٹیکنالوجی حاصل کر لی تھی لیکن نیو کلیئر کے بدلے
ساتھ ڈاکٹر خان نے سوچا اگر بم ایک ملک تک محدود رہتا ہے تو ایک ملک
تباہ ہونے کی صورت میں عالم اسلام خطرف میں ہوگا تو ڈاکٹر صاحب نے
ایران اور لبیا کو ٹیکنالوجی دینے کا کام شروع کیا اور سنٹری فیوجز دیئے
امریکی دباؤ پر دونوں ملکوں نے سنٹری فیوجز امریکا کے حوالے کیئے
تب دنیا کو پتہ چلا کہ پاکستانی یورنیم بم کتنے خطرناک ہیں
یوں پاکستان پر تین ملکوں کو ایٹمی ٹیکنالوجی دینے کا الزام ثابت ہوگيا
اور پاکستان کے خلاف کیس بن گيآ
پاکستان پر پوری دنیا بشمول اسلامی دنیا پابندی لگآ دیتی ،ایٹمی ٹیکنالوجی کا ادارہ کے لوگ پاکستان آئے اور جرائم کی لسٹ دی
چونکہ ساری ڈیلنگ ڈاکٹر خان نے کیں تھی ،یعنی ملک ،فوج اس میں ملوث
نہ تھے ،جو کاغذات دکھائے گئے سب ڈاکٹر خان کے دسخط تھے ،ایران کو سنٹری فیوجز ڈاکٹر خان نے دیں ،لیبیا کو ڈاکٹر خان نے دیں لیکن شمالی کوریا
نے عالمی ادارے سے تعاون نہیں کیا اور نام نہیں بتایا ،اور نہ انہیں گھسنے دیا
یوں سارا کیس پاکستان پر نہیں بنا نہ کسی آرمی چيف نہ کسی صدر کے دستخط تھے ،یہ راز کسی سویلین وزیراعظم نے بعوض ڈالرز امریکا کو بیچا
یا کسی ریٹائرڈ سائنسدان نے یا کسی ڈاکٹر صاحب کے دشمن نے
یوں دنیا نے ڈاکٹر خان پر ایٹمی ٹیکنالوجی پھیلانے کا کیس بنا اور ڈاکٹر خان
کو گرفتار کر کے عالمی عدالت انصاف میں پیش کیا جائے
یوں ڈاکٹر صاحب نے قوم سے معافی مانگي اور صدر نے اس جرم پر جو مشترکہ پاکستان نے کیا اس پر ڈاکٹر اے کیو خان کو معافی دے دی
اور کسی عدالت میں یا پاکستان سے باہر لے جانے پر پابندی لگآ دی
ڈاکٹر صاحب کو فوجی کمانڈوز کی نگرانی میں اسلام آباد میں رکھا گيا
تاکہ اغواء نہ ہوں
یاد رہے دو لوگ جو کشمیریوں کو اسلحہ فراہم کرتے تھے اسلام آباد سے
انڈیا نے اغواء کروائے ،زندہ ہیں یا مردہ معلوم نہیں ،انکی بیویاں آج تک
احتجاج کر رہی ہیں ،اسلام آباد سے اغواء ،،سری نگر یا جموں جو کلاشن کوف پہنچتی ہے وہ بندوق اتنی خطرناک نہیں وہ بندہ خطرناک ہے جو وہاں
تک پہنچاتا ہے کیسے پہنچاتا ہے جبکہ نو لاکھ فوج وادی میں موجود ہے
یہ خفیہ بم بنانا جرم نہیں تھا ،جتنا بڑا جرم ایران ،لیبیا اور شمالی کوریا کو
ٹکنالوجی دینا تھا ،جبکہ ایران اور لبیا نے معاہدوں سمیت ،سنٹری فیوجز سمیت سب کچھ امریکا کے حوالے کیا ،دھماکے ہو چکے تھے ،خفیہ طور پر
دنیا جان گئی تھی پاکستان کے پاس فرانس سے زیادہ بم ہیں ،یورپ غصے سے
پھٹ رہا تھا
اگر ڈاکٹر خان کو عالمی ادارہ عدم ایٹمی پھیلاؤ والے لے جاتے جس پر پاکستان
نے دستخط کیئے ہیں ،صرف این پی ٹی پر نہیں کیئے کہ پہلے انڈیا کرے
انڈیا کرتا نہیں ،لیکن ایٹمی بم کا مواد منتقل نہیں کیا جا سکتا
یوں فوج نے مرتے دم تک ڈاکٹر خان کی نگرانی کی تاکہ دشمن اغواء نہ کرے
ڈاکٹر صاحب کو اسلام آباد سے باہر جانے کی اجازت نہیں تھی
پاکستان کا ایٹم بم ڈاکٹر اے کیو خان کی لازوال قربانیوں کا ثمر ہے
ڈاکٹر خان کے ساتھ کسی نے زیادتی نہیں کی ،انکو ایم ایچ میں کرونا کا علاج
کیا گيا ،وہ فوج کے تھے اور فوج انکی
پرویز مشرف نے وہی کیا جو اسے کرنا چآہئیے تھا ،لیکن زرداری ،نواز شریف
اور عمران نے کیا کیا ،کیا انکی نظر بندی ختم کی ،جی نہیں
ڈاکٹر خان جب انٹرویو کیلئے جاتے تو ایئر فورس کے جہاز میں جاتے ،سٹوڈیو
کے باہر فوج ہوتی
پاکستانیوں کو جو کچھ باہر سے نظر آتا ہے وہ لگتا ہے ڈاکٹر صاحب کے
ساتھ زیادتی کی گئی ،لیکن اگن انہیں شہید کر دیا جاتا یا اغواء ہو جاتے
تو ملک کی کیا عزت رہ جاتی
اور پھر وہ اس عمر میں ٹارچر برداشت کر سکتے اور راز رکھ سکتے
جو کچھ ہوا ڈاکٹر صاحب کے اپنے مشورے اور مرضی سے ہوا
اور ڈاکٹر خان ہیرو ہمیشہ رہیں گے اور آج ثابت ہوگیا
ڈاکٹر خان کے ساتھ سلوک جو نظر آتا تھا اصل میں وہ نہیں تھا
آرمی چيف انہیں سیلیوٹ کرتے تھے
پرویز مشرف کے الفاظ کے ڈاکٹر خان میرے بھی ہیرو ہیں ،عقل والوں
کیلئے کافی تھے
بعض اوقات بیٹے قتل کرے تو باپ ذمے داری لے لیتا ہے ،اسکو قربانی کہتے ہیں
سارے ایرانی ٹاپ کے ایٹمی سائنسدان اسرائيل نے قتل کر دیئے ،چار ایرانی ایٹمی سائنسدان ملائشیا کی فلائیٹ ایم 417 پر سمندر برد ہوگئے
اور پاکستان کے کسی سائنسدان کی طرف کسی نے میلی آنکھ سے نہیں
دیکھا نہ دنیا کو معلوم ہے کتنے بم ہیں کہاں پڑے ہیں ،یہ سب کچھ مشرف بنوا گيا ،امریکی سی آئی اے نے کہا ہم پاکستان کے ایٹمی اثاثوں اور کمانڈ اینڈ کنٹرول کا سراغ لگانے میں کامیاب نہیں ہوئے ابھی تک ایسا کوئی ایٹم بم نہیں بنا جو مشرف کے بنائے زمین دوز پہاڑوں کی تہہ میں پہنچ سکے
لیکن اندھے کیا جانیں
کاش ڈاکٹر صاحب تفصیل بتا جاتے
The truth is as narrated here.
صابر حسین۔