Daily Roshni News

پراسرار درویش۔۔۔ مصری ادیب سے انتخاب۔۔۔قسط نمبر2

پراسرار درویش

مصری ادیب سے انتخاب

قسط نمبر2

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ پراسرار درویش۔۔۔ مصری ادیب سے انتخاب) جگہ منتقل کرانا، تجہیز و تدفین کا انتظام کرنا اور شادی و طلاق اور خرید و فروخت۔ جب ان کو میں نے اپنے والد سے فخر کے ساتھ کہتے سنا کہ ‘‘وہ اپنے طویل تجربوں کی بدولت زندگی کے ہر میدان میں لوگوں کی خدمت کرسکتے ہیں تو میرے دل میں دبی خواہش پھر سے ابھر آئی۔ میں نے پوچھا۔
‘‘کیا آپ میرا ایک کام کرسکتے ہیں….؟’’
مسکرا کر انہوں نے مجھے دیکھا اور پوچھا۔
‘‘بتاؤ بیٹے….! تمہیں کیا چاہیے….؟’’
‘‘میں خانقاہ کے شیخ اکبر کو دیکھنا چاہتا ہوں۔’’ میں نے کہا
شیخ عمر نے زور کا قہقہہ لگایا، ان کا ساتھ والد صاحب نے بھی دیا اور پھر شیخ عمر نے کہا: ‘‘میں جو کام انجام دیتا ہوں وہ زندگی سے متعلق اور ذرا سنجیدہ قسم کے ہوتے ہیں۔’’

‘‘لیکن آپ نے تو کہا کہ آپ زندگی کے ہر میدان میں لوگوں کے کام انجام دیتے ہیں۔’’ میں نے کہا۔ ‘‘خانقاہ زندگی کے میدان میں نہیں آتی۔’’انہوں نے کہا۔ ‘‘خانقاہ زندگی کے میدان سے باہر کیسے ہوسکتی ہے….؟’’ میں نے سوال کیا اور والد صاحب نے وہ شعر سنانے کو کہا جسے میں نے خانقاہ میں سن کر یاد کرلیا تھا۔ میں نے وہ شعر خوشی سے پڑھ کر سنایا۔

یہ سن کر شیخ عمر نے والد صاحب سے مخاطب ہوکر کہا ‘‘لوگ اس شعر کو بلا سمجھے پڑھا کرتے ہیں۔’’ انہوں نے مجھ سے کہا ‘‘کیا میں اس کے کسی لفظ کو سمجھتا ہوں۔’’ انہوں نے کہا ‘‘یہ لوگ اجنبی ہیں اور ان کی زبان اجنبی ہے لیکن محلے والے ان پر فریفتہ ہیں۔’’
میں نے کہا ‘‘مگر آپ تو ہر کام انجام دینے پر قادر ہیں۔’’
یہ بات سن کر والد صاحب نے ‘‘استغفر اللہ’’ پڑھا اور شیخ عمر نے مجھ سے پوچھا
‘‘میں خانقاہ کے شیخ کو کیوں دیکھنا چاہتا ہوں۔’’
میں نے جواب دیا، ‘‘صرف اس لیے کہ جو تجربہ بچپن میں مجھے ہوا تھا اس کو پھر پرکھوں اور بس۔’’
والد صاحب نے ان کو شیخ اکبر کو میرے دیکھنے کا واقعہ سنایا تو شیخ فکری ہنسے اور بولے‘‘میں نے بھی شیخ اکبر کو دیکھنے کی خواہش کی تھی۔’’
‘‘سچ مچ۔ ’’میں نے سوال کیا۔
انہوں نے کہا، ‘‘ایک دن میں نے اپنے دل میں سوچا کہ سارا محلہ شیخ اکبر کا نام لیتا رہتا ہے، کسی نے بھی ان کو نہیں دیکھا ہے اس لیے شیخ اکبر کو دیکھنا چاہیے۔ میں خانقاہ گیا اور کسی ذمہ دار آدمی سے ملنا چاہا۔ خانقاہ کے درویشوں نے مجھے پریشانی، حیرانی اور ناراضی سے دیکھا اور کسی قسم کی مدد کے لیے تیار نہ ہوئے۔ عمر فکری صاحب کو افسوس ہوا کہ خواہ مخواہ ان کو پریشان کیا۔ درویشوں کے رویے سے وہ جان گئے کہ خانقاہ کے اندر جائز طریقہ سے جانا ممکن نہیں اور ناجائز طریقہ قانون شکنی ہے اور اس لیے قطعی مناسب نہیں ہے۔
‘‘اس لیے آپ اپنی خواہش کی تکمیل سے باز آگئے؟’’ میں نے سوال کیا۔
انہوں نے جواب دیا، ‘‘یہ بات نہیں۔ میں نے محلے کے معمر اور جانے مانے لوگوں سے پوچھا۔ ان میں سے کچھ نے کہا کہ وہ شیخ اکبر کو دیکھ چکے ہیں، لیکن ہر ایک نے ان کا حلیہ مختلف بتایا جو ممکن نہیں ہوسکتا۔ اس کا مطلب میرے نزدیک یہ ہوا کہ کسی نے بھی شیخ

اکبر کو نہیں دیکھا ہے۔’’

عربی زبان کے نوبل انعام یافتہ مصری ادیب

نجیب ب محفوظ 1911تاء 2006ء

مصری مصنف اور ناول نگار نجیب محفوظ Naguib Mahfouz عرب دنیا کے وہ پہلے مصنف تھے جن کو ادب کا نوبل پرائز ملا۔ نجیب 11 دسمبر 1911ء کو مصر کے شہر قاہرہ کے ایک نچلے متوسط طبقے میں پیدا ہوئے۔ وہ پانچ

بھائیوں اور دو بہنوں کے خاندان میں ساتویں نمبر پر تھے۔ 1919 کے انقلاب مصر نے نجیب محفوظ پر گہرا اثر ڈالا۔ سکنڈری تعلیم مکمل کرنے کے بعد نجیب محفوظ نے موجودہ قاہر و یونیورسٹی میں فلسفے میں گریجویشن اور 1936 میں پوسٹ گریجویشن مکمل کیا۔ اپنے والد کی طرح نجیب محفوظ نے بھی سرکاری ملازمت اختیار کی۔ اس کے بعد انھوں نے ایک پیشہ ور مصنف نے کا ارادہ کر لیا۔ بطور جر نلسٹ انہوں نے الہلال اور الحرم نامی رسالے میں کام کیا۔ نجیب محفوظ نے اپنے 80 سالہ کرئیر میں 5 ڈرامے، بے شمار قلمی اسکرپٹ، 350 سے زائد کہانیاں اور 34 ناول لکھے۔ 1988 میں انھیں ادب کے نوبل انعام سے سر فراز کیا گیا۔ ان کی تخلیقات انگریزی، فرانسیسی، روسی، جرمن اور اردوزبان میں تراجم ہو چکی ہیں۔ نجیب محفوظ نے جو کچھ بھی لکھا، اس میں سیاسی اور سماجی امور پر اُن کی گہری نگاہور ہی۔ انھوں نے یہ کہا کہ انسان کو کسی ناخدا کی تلاش میں بیٹھے رہنے کے بجائے اپنی اور دوسرے انسانوں کی زندگی کو بہتر بنانے کی جہد ہمیشہ کرتے رہنا چاہیے۔ نجیب محفوظ نے اپنی ساری تخلیق میں اس تاریکی اور ناامیدی کو ظاہر کیا، جنھیں انھوں نے اپنے معاشرے میں دیکھا اور سماجی برابری کا جو تصور ان کے ذہن میں تھاوہ یو ٹو پیا ہی رہا۔ انھوں نے وجود کےنظریے پر بات کی ہے۔ نجیب محفوظ 2006 میں 94 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ زیر نظر کہانی نوبل انعام یافتہ عظیم ناول نگار نجیب محفوظ کے مجموعہ حکایات حارتنا ہے ( محلہ کی کہانیاں) سے لی گئی ہیں، کہانیوں کے اس مجموعہ میں مصری سماج کی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کی کچھ جھنگیاں محسوس کی جاسکتی ہیں۔ کہانیوں کا یہ مجموعہ انگریزی زبان میں Stories from Our Neighborhoodاور

Fountain and Tombکے نام سے میں ترجمہ ہو چکا ہے۔

‘‘لیکن میں نے شیخ اکبر کو دیکھا ہے۔’’ میں نے پُرجوش لہجے میں کہا۔
شیخ عمر نے کہا ‘‘تم لوگ جھوٹ تو نہیں بولتے لیکن اپنے اپنے خیال کے مطابق دیکھتے ہو۔’’
میں نے کہا ‘‘شیخ اکبر کو دیکھنا محال نہیں۔ کیا وہ گاہ بہ گاہ خانقاہ کے باغ میں گھوم نہیں سکتے۔’’
انہوں نے کہا ‘‘لیکن تم کو کیا معلوم کہ جس کو تم نے دیکھا ہے وہ شیخ اکبر ہی تھے، کوئی دوسرا درویش بھی تو ہوسکتا ہے۔’’
میں نے کہا ‘‘ٹھیک ہے۔ اس طرح آپ نے سوچ لیا کہ شیخ اکبر کو کسی نے دیکھا ہی نہیں اور نہ ہی دیکھے جاسکتے ہیں۔’’
انہوں نے کہا ‘‘نہیں، ہرگز نہیں۔ میں تو ان کو دیکھنے کا بے حد مشتاق تھا۔
‘‘کیا شیخ اکبر کو دیکھنے کے لیے دوسرے وسیلے نہیں ہوسکتے۔’’
شیخ فکری نے کہا، ‘‘ہاں، عقل نے مجھے جان لیوا خواہش سے آزاد کیا۔ عقل نے باور کرایا کہ خانقاہ کو ہم دیکھتے ہیں۔ درویشوں کو ہم دیکھتے ہیں لیکن شیخ اکبر کو ہم کیوں نہیں دیکھتے؟’’
یہ بات سن کر میرے والد صاحب نے کہا ‘‘اس کا مطلب یہ تو نہیں ہوسکتا کہ شیخ اکبر کا وجود ہی نہیں؟’’
جواب ملا ‘‘نہیں، بات یہ نہیں۔’’
‘‘بات تو صرف یہی ہے۔’’ میں نے کہا لیکن بلاشک کوئی وسیلہ تو ضرور ہوگا جس سے شیخ اکبر کے وجود اور ان کی روایت ثابت ہو۔’’
جواب ملا ‘‘دراصل میں سمجھتا ہوں کہ ایسا کوئی وسیلہ خلافِ قانون ہے اور میں قانون شکنی کرنا نہیں چاہتا۔ یہ کہہ کر وہ بولے شیخ اکبر کو دیکھنے کا فائدہ ہی کیا ہے۔’’
‘‘آخر وہ لوگ خانقاہ کے دروازے بند کیوں رکھتے ہیں؟ میں نے سوال کیا۔
شیخ فکری نے جواب دیا ‘‘دراصل خانقاہ آبادی سے دور بنائی گئی تھی کیونکہ صوفیائے کرام لوگوں سے الگ تھلگ پرسکون ماحول میں رہنا پسند کرتے تھے۔ وقت گزرتا گیا، آبادی بڑھتی گئی اس لیے یہ خانقاہ آبادیوں میں گھر گئی۔ اب وہ درویش تنہائی کے لیے خانقاہ کے دروازے بند رکھنے لگے۔’’
یہ بتا کر شیخ فکری نے مایوس کن مسکراہٹ کے ساتھ کہا، ‘‘میں نے تم کو کئی باتیں بتا دی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ شیخ سے ملنا عام لوگوں کے لیے ممکن نہیں ہے۔ ان سے ملنے کی اجازت نہیں گویا ان سے ملنا ہے تو بغیر اجازت ہی خانقاہ میں داخل ہونا پڑے گا۔

‘‘شیخ اکبر کی یاد بھلائی نہیں جاسکتی۔ آج تک مجھ میں بغیر اجازت خانقاہ میں چلے جانے کی ہمت نہیں، لیکن ساتھ ہی ساتھ بغیر شیخ اکبر کے خانقاہ کے وجود کو بھی تصور نہیں کرسکتا۔ اب حال یہ ہے کہ میں خانقاہ کو صرف مقبرے کی زیارت کے دنوں ہی میں دیکھتا ہوں۔ جب میں خانقاہ کو دیکھتا ہوں تو مسکراتا ہوں اور شیخ یا جس کو میں نے کبھی شیخ سمجھا تھا کی تصویر کو یاد کرتا ہوں اور تنگ راستہ سے قبرستان کی طرف گزر جاتا ہوں۔’’

بھائی پڑوسی، میں تمہیں صاف صاف بتائے دیتا ہوں، بات یہ نہیں کہ مجھے اس کی تعلیمات پر کوئی اعتراض نہیں، قطعاً نہیں، میں نے ایک بار اسے تبلیغ کرتے سنا تھا اور تمہیں کیا بتاؤں، میں خود اس کے مریدوں میں شامل ہونے سے بال بال بچا۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ  نومبر2020

Loading