پردیسیوں اور فنکاروں کی گمنامی: ایک المیہ یا سزا؟
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )پردیسی مزدور، مشہور اداکار، ماڈلز یا اکیلے رہنے والے افراد جو زندگی میں کبھی مجبوری یا کبھی شہرت کی بلندیوں پر ہوتے ہیں، مگر موت اتنی گمنام کہ لاشیں مہینوں، دنوں بعد ملتی ہیں۔ زیادہ تر لوگ اسے “اعمال کا نتیجہ” کہہ کر ٹال دیتے ہیں، لیکن ہر بات اور عمل کا اسلامی زاویہ ہے۔
اسلام میں موت کا وقت، جگہ اور طریقہ اللہ کے اختیار میں ہے۔
قرآنِ مجید میں ہے۔ (سورۃ لقمان: 34)
“وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ”
“اور کوئی نفس نہیں جانتا کہ وہ کس زمین میں مرے گا۔”
مفہوم: نہ تنہائی میں مرنا برا ہے۔ نہ شہرت میں مرنا اچھا ہے۔ اصل پیمانہ “نیت” اور “اعمال” ہیں۔
صوفیانہ رواج میں موت کو ظاہری حالات سے نہیں تولا جاتا۔ بلکہ ان کی تعلیم یہ ہے کہ؛ کیا وہ شخص دل سے اللہ کو یاد کرتا تھا؟ کیا اس نے کسی کو تکلیف دی؟ کیا اس کی روح عاجزی اور خاکساری میں ڈوبی رہی؟
حدیث نبوی ہے: (مسلم شریف)
“مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے، ہر حال میں وہ اللہ کی رحمت میں ہوتا ہے۔ اگر اسے کوئی تکلیف پہنچے تو وہ صبر کرتا ہے، اور یہ اس کے لیے خیر ہے۔ اگر اسے نعمت ملے تو شکر کرتا ہے، اور یہ بھی خیر ہے.”
لوگوں کی رائے قرآنِ مجید کا قانون یا معیار نہیں ہوتی۔ لوگوں کا کہنا کہ “یہ بدچلن/ برے یا گناہ گار لوگ ہیں، ان پر سختی یا پکڑ آئی۔” یہ بات کرنا یا فیصلہ لوگوں کے ہاتھ میں نہیں ہے۔
قرآنِ مجید کہتا ہے:(سورۃ النجم: 30)
“إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اهْتَدَىٰ”
“تمہارا رب بہتر جانتا ہے کون ہدایت پر ہے اور کون گمراہ”
قرآنِ مجید فرماتا ہے: (سورۃ الحجرات: 11)
“وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ ۖ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ”
“ایک دوسرے کو برے القاب سے نہ پکارو، ایمان کے بعد فاسق نام بہت ہی برا ہے”
گناہ گار کی موت پر ہدایت کا دروازہ بند نہیں ہوتا۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:(صحیح البخاری، کتاب الدعوات)
“بندہ اپنی زندگی میں جتنا بھی گناہگار ہو، اگر وہ آخری لمحے میں سچے دل سے توبہ کر لے، تو اللہ اسے معاف فرما دیتا ہے۔
صحیح حدیث ہے: (صحیح بخاری)
“ایک بدکار عورت نے پیاسے کتے کو پانی پلایا، اللہ نے اسے بخش دیا اور جنت عطا کی۔”
صوفیانہ اصول بھی یہی ہے کہ : دل اللہ کے ساتھ ہو تو تنہائی بھی قربت الہیٰ ہے۔ حضرت رابعہ بصریؒ، ایک خوبصورت عورت اور غلامی سے آزاد شدہ تھیں۔ ان پر بھی وقت کے لوگ طرح طرح کی باتیں کیا کرتے تھے، مگر آپ راتوں کو سجدوں میں روتی تھیں۔ حضرت رابعہؒ کا مشہور قول ہے:
“لوگوں کی نظر میں جو بدنام ہوں، وہ اگر اللہ کے سامنے رو رو کر گزر جائیں تو وہی اللہ کے مقرب بندے بن جاتے ہیں۔”
لاش کا دیر سے ملنا یا دفن کا طریقہ ظاہری دنیا کے عوامل سے ہے۔ اسلام میں نہ تو لاش کا جلدی یا دیر سے ملنا ثواب یا عذاب کی دلیل ہے، اور نہ ہی بے گورو کفن ہونا بدبختی کی نشانی۔ درحقیقت یہ ہماری سوسائٹی کی بے حسی ہے۔
حدیث شریف ہے: (مسلم شریف)
“مومن مومن کا بھائی ہے، وہ نہ اسے چھوڑتا ہے۔ نہ اس کی بے توقیری کرتا ہے۔”
ہماری دعا بھی یہ ہونی چاہیئے۔
اے اللہ! ہمیں ایسی زندگی دے کہ تیرے محبوب بندوں میں شمار ہوں، اور ایسی موت دے کہ تیری رحمت اور لوگوں کی دعائیں ہمارے ساتھ ہوں۔ آمین”