Daily Roshni News

پرنس کریم آغا خان کی سماجی خدمات  ۔۔۔۔

پرنس کریم آغا خان کی سماجی خدمات  ۔۔۔۔

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )پرنس کریم آغا خان کی کیا شان و شوکت و شخصیت تھی۔ دنیا میں ایک بے تاج بادشاہ کی سی حیثیت تھی۔ پرنس کریم آغا خان کی سب سے بڑی خوبی سماجی خدمات ،  نہ فتنہ، نہ فساد، نہ اپنے لوگوں کو ورغلانا، نہ املاک کا نقصان پہونچانا، نہ دوسروں پر کیچڑ اچھالنا۔ گو کہ ان کی کمیونیٹی پر متعد بار دھشت گردی ہوتی رہی۔ کئی کی جانیں گئیں۔ مگر کبھی کوئی جذباتی یا انتقامی بیانات نہ دئے۔ سوائے صبر کے،  غصہ اسلام میں حرام ہے۔ کبھی ان میں غم غصہ کا اظہار کرتے نہیں دیکھا گیا۔ بس صبر سے مختلف شعبوں صحت، تعلیم، لوگوں کو پسماندگی سےنکالنا، تعمیرات سمیت دیگر کئی سماجی خدمات انجام دیتے رہے۔ ان کی انہی خوبیوں کی وجہ کر کئی ملکوں نے انھیں اپنے ہاں کی شہریت دے رکھی تھی۔ پرنس  کریم آغا خان دنیا بھر کے لوگوں کی مالی، معاشی، علمی اور آبادیاتی مد میں مدد کے لیے ہمہ وقت کمر بستہ رہے۔ ان کا تعمیر کردہ ادارہ آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک کے نام سے مشہور ہے اور بیک وقت کئی زیلی اداروں کی سرپرستی کرتا ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی سے گریجوییشن اور بی اے آنرز اسلامک تاریخ کی ڈگری حاصل کی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے انھوں نے اپنی گراں قدر خدمات اور کوشیش تیز کردی اور آغا خان ڈیولپمنٹ نیٹ ورک کی بنیاد رکھی، جو دنیا کے تقریباً 35 ملکوں میں غربت اور انسانی زندگی کا معیار بہتر بنانے میں تقریباً 80،000 ورکرز کو روزگار ملا۔ جس میں آغا خان فاؤنڈیشن، آغا خان ہیلتھ سروسز، آغاخان پلانگ اینڈ بلڈنگ سروسز، آغاخان ایکنومک سروسز، آغاخان ایجنسی فار مائیکروفائینینس، کے علاوہ فوکس (اف او سی یو ایس) قابل ذکر ہے جس کی براہ راست وہ خود نگرانی کرتے تھے۔ پرنس کریم آغا خان تعلیم کے فروغ پر بہت زور دیتے رہے۔ دنیا کے غریب ترین علاقوں میں اسکولوں اور اسپتالوں کی تعمیر، بجلی کی فراہمی، تعلیمی، ثقافتی اور معاشی ترقی کے مختلف منصوبوں کی سرپرستی کی۔ آغا خان کمیونیتی واحد  وہ اقلیت  کمیونیٹی ہے عورتوں می تعلیم پر ذیادہ زور دی ۔ ان کا کہنا ہے عورت یا  مرد میں سے کسی ایک کو پڑھانا ہے تو عورت پہلے پڑھاؤ۔ عورت پڑھی لکھی ہوگی تو وہ اپنی نسل کو پڑھائے گی۔ وہ اس بات پر زور دیتے رہے کہ تعلیم، اخلاقیات اور امن کامیابی کیلئے اہم ہیں۔پرنس کریم آغآ خان اپنی انہی سماجی خدمات  سے ثابت کر دیا کہ اسلام امن کا مذہب ہے۔ اپنی کمیونیٹی کو  بلندی پر لانے پر لگے رہے۔  آج تک کسی اسمٰعیلی کو نہیں دیکھا گیا کہ وہ خستہ حال  یا مفلس ہو۔ گللت، ہنزہ وغیرہ جہاں ان کی اکثریت ہے۔ وہاں ایک بھی اسمٰعیلی بھیک مانگتا ہوا نظر نہیں آئے گا۔ ان  میں کوئی چور، اچکا، ڈآکو، چرسی، غنڈا بدمعاش ، لفنگا نظر نہیں آئے گا۔ ان کے علاقوں یا اداروں میں آپ کی کوئی چیز خواہ روپیہ ، موبائل ہو ۔ اگر گر جائے یا بھول جائیں تو وہ  بطور امانت ایک جگہ جمع  کرا دی جاتی ہے۔ کوئی اسمٰعیلی چرا نا  ان کی فطرت میں نہیں۔ آپ کی گم ہوئی چیز ان کے ہاں  مل جائے گی۔ ان میں لالچ، طمع، حرس، غیبت، بغض، کینہ نام کی چیز نہیں دیکھا گیا۔ نہ گالم گلوچ کرتے دیکھا گیا۔ بڑے نرم گو ہوتے ہیں۔ آغا خانیوں  پیشہ ورانہ  زندگی میں یہ ذیادہ تر تجارت، تعلیمی اداروں، ڈاکٹر وغیرہ ہی میں ملیں گے۔

پرنس کریم آغا خان مرحوم  کی ان  گنت خدمات کو سرہاتے ہوئے کئی مملک نے انھیں  مختلف  خطابات، اعزازات اور القاب سے نوازا ہے  ۔ جن میں سنہ 1936ء تا 1957ء آپ کو پرنس،  سنہ 1957ء سے اب تک عزت مآب جناب آغا خان چہارم ،   سنہ 1959ء سے سنہ 1979ء تک ہز رائل ہائی نس دی آغا خان چہارم کے خطابات  سے نوازا گیا۔  سنہ 1977ء سے سنہ 2009ء تک کی اعداد و شمار کے مطابق دُنیا کے 20 ممالک نے ان کو اپنے قومی اعزازات سے نوازا، دُنیا کی 19 بہترین جامعات نے ان کو اعزازی ڈگریوں سے نوازا اور دُنیا کے 21 ممالک نے 48 ایوارڈ ان کی گراں قدر خدمات اور انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے پر نوازے۔ دوسرے ممالک کی طرح پاکستان میں ان کو نشان سے بھی نوازا گیا۔

رہی بات  ان کے عقیدوں کی تو اس سے ہمیں کیا لینا دینا۔ ان کا اور خدا کے درمیان کا معاملہ ہے۔ ہر شخص اللہ کے آگے اپنے اعمال کا جوابدہ ہے۔  ہمیں چاہئے کہ  بجائے   دوسروں میں خامیاں ڈھونڈتے  رہیں۔ ان میں کچھ اچھائیوں  و خوبیوں کو بھی دیکھا کریں۔ ہم ترقی اسی وقت کر سکتے ہیں جب دوسروں میں اچھائیوں سے کچھ سیکھیں  اور اپنی خامیوں  پر نظرثانی کرتے رہیں ۔ ریت کو ہم ریت سمجھ کر نظر انداز کرتے رہے  تو اس کے اندر چھپے سونے کی تلاش کیسے ممکن ہوگی۔ اللہ تعالٰی بھی فرماتا ہے۔” عجب نہیں کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور خدا اس میں بہت سی بھلائی پیدا کردے۔ (النساء۔4، آیت۔19)۔  گو کہ یہ آیت میاں بیوی کے آپس کے معاملات کے بارے میں ہے۔ مگر  عام معاملات میں بھی یہ آیت مبارکہ بہت سبق آموز ہے۔

Loading