پڑھ رہے تھے وہ شبنم سے کر کے وضو
اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو
تحریر۔۔۔ صوفیہ رفعت
بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور ستمبر2019
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔تحریر۔۔۔صوفیہ رفعت)اللہ تعالیٰ نے مخلوق میں نظام قائم کیا ہے کہ ایک لباس مغلوب ہوتا ہے ، دوسرا لباس غالب ہو جاتا ہے۔ دل کہتا ہے کہ تلاش کرو کسے چھپایا جا رہا ہے، کون ہے جو انجانی دنیا سے حسین سے حسین ترلباس میں آتا ہے اور نہ جانے کہاں چلا جاتا ہے۔
گھر میں پودے اگانے کا خیال آیا ۔ خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لئے زسری گئی۔ نگاہ سرخ رنگ کے جاذب نظر لیبل پر پڑی جو ہرے بھرے پتوں کے بیچ ٹماٹروں کی تصویر کے ساتھ کسی پیکٹ پر بہت سج رہا تھا۔ لیبل پر لال رنگ کے خوب صورت ٹماٹروں نے سبز پتوں پر ایسا رنگ جمایا جیسے سرخ جوڑے میں ملبوس دلہن سبز رنگ کی سیج پر بیٹھی ہو۔ دل نے فیصلہ سنایا کہ گھر میں ٹماٹرا گائے جائیں ۔
نرسری میں چھ چھوٹے گملوں میں ٹماٹر کے بیچ فروخت کے لئے پہلے سے مٹی میں ڈال دیئے گئے تھے۔ مجھے محسوس ہوا کہ بیج کے راز کو راز رکھنے کے لئے مٹی پردہ بن گئی ہے۔ قدرت کا عجب نظام ہے کہ پیج مٹی میں پیدا ہوتا ہے مٹی میں اس کی پرتیں کھلتی ہیں اور رنگوں کی بو قلمونی کے بعد بیج مٹی کے رنگ میں رنگ جاتا ہے۔ بیج کے اپنے رنگ کہاں ہیں؟ گملے خریدنے کے بعد گھر آکر باورچی خانہ کی کھڑکی ۔میں رکھے ۔ کھڑ کی کافی بڑی اور پوری شیشہ کی ہے۔
مجھے تجربات کا شوق ہے۔ اس سے پہلے میں نے گھر میں کوئی شے نہیں اگائی ۔ پہلا تجربہ تھا اس لئے میں بے حد پر جوش تھی کہ پہلی بار کسی پودے کو روز بروز بڑھتا ہوا دیکھوں گی ۔ دل انجانی خوشی سے سرشار تھا۔ ممکن ہے خوشی اس بات کی تھی کہ یہ تجربہ ذہن کے دریچے کھولے گا اور بیج کھلنے کے ساتھ زندگی کی پر تیں بھی کھلیں گی ۔ کھڑکی پر سفید جالی دار نفیس پردوں کے درمیان رکھے چھ گملے میری توجہ اور محبت کا مرکز بن گئے ۔ صبح سب سے پہلے گملوں میں مٹی دیکھنا، اندرمحو استراحت لیکن خاموشی سے حرکت کرتے ہوئے بیجوں سے محبت بھری باتیں کرنا اور پانی دینا معمول بن گیا۔ آس اور امید کا ایک پودا میرے اندراگ گیا تھا جو گملوں میں موجود پودوں کی افزائش کا منتظر تھا۔
میں پودوں سے پودوں کی زبان میں بات کرنا چاہتی تھی۔ اور اپنے اندر پودے کی کیفیات محسوس کئے بغیر یہ ممکن نہیں ۔ ایک روز مٹی کے درمیان دبے ہوئے پیج کو تصور کی آنکھ سے دیکھ رہی تھی کہ قرآن کریم کی آیت ذہن میں آئی۔
کون موت سے زندگی اور زندگی سے موت کو نکالتا ہے اور کون امر کی تدبیر کرتا ہے؟“ (یونس: ۳۱)
اللہ تعالیٰ نے مخلوق میں نظام قائم کیا ہے کہ ایک لباس مغلوب ہوتا ہے ، دوسرا لباس غالب ہو جاتا ہے۔ دل کہتا ہے کہ تلاش کرو کسے چھپایا جا رہا ہے، کون ہے جو انجانی دنیا سے حسین سے حسین تر لباس میں آتا ہے اور نہ جانے کہاں چلا جاتا ہے۔ بظاہر بے حرکت نظر آنے والی شے کے اندر تخلیق کے کتنےراز خوابیدہ ہیں۔ گملوں کو صبح وشام نگاہِ شوق سے دیکھتی ۔ غائب کو ظاہر اور ظاہر کو غیب میں دیکھنے کی جستجو نے مجھے بے قرار کر دیا۔ میری خوشی ، بے قراری اور پودوں سے انسیت کا جذبہ انہونا نہیں۔ ایک اللہ والے سے لو گی ، اس نے دل میں اللہ کی محبت کی شمع روشن کی اور زندگی کو قریب سے دیکھنا سکھایا۔ ہر شے میں قدرت کی صناعی کی طرف متوجہ کیا اور معرفت کے لئے بے قرار کر دیا۔ یہ اب پروانہ دن رات اس جستجو میں ہے کہ شمع سے جاملے میں اور روشن ہو کر روشنی پھیلائے ۔
ایک خوب صورت صبح حسب معمول گملوں کے پاس گئی۔ خوشی کی لہر دل و دماغ پر چھا گئی۔ دو گملوں میں کے مٹی کی کوکھ سے دو نھی منی نازک کو نپلیں نمودار ہو چکی تھیں۔ بیج فنا ہوا لیکن پودے کی شکل میں موجود رہا۔ قدرت کی صناعی کا حسین شاہ کار بیج کھل گیا تھا اور بظاہر نازک لیکن مضبوط پودا بننے کے لئے تیار نھا تنا سر پر دو پتے سجائے امید سحر کا پیغام دے رہا تھا۔ کیا پیج میں سے پودے کا نکلنا مجو بہ نہیں۔؟
میں نے دیکھا کہ گملے میں مٹی ماں کا بطن تھی اور قدرت نے ماں کے پیٹ میں کیسی کیسی تصویریں بنا میں ! یہ صورتیں ظاہر ہونے سے پہلے کتنے مراحل طے کرتی ہیں۔ ایک کے بعد ایک تغیر سے گزرتی ہیں۔ ہر مرحلہ جانتا ہے کہ یہ مرحلہ بھی گزر جائے گا۔ ہم ظاہر ہو کر غیب اور غیب میں سے پھر ظاہر ہوں گے، حرکت جاری رہے گی۔ جب تک زندگی، زندگی سے واقف ہو جاتی، بیج مٹی کے گملے میں ہو یا ماں کے رحم یں ، بوقلمونی جاری رہے گی ۔ اور یہ ساری کوشش علیم قیقت کی معرفت کے لئے ہے۔
بیج نے مٹی کی ممتا سورج کی روشنی میں موجود حسین ، توانائی میں تمازت ، پانی کی ٹھنڈک اور ٹھنڈک موجود قدرت کی نعمتیں ، ہوا کی لوریاں اور محبت کی یں قبول کیں۔ وسائل کے استعمال اور ان وسائل ے تعاون کر کے مختلف مراحل طے کرتے ہوئے ننھا
بیج پودے کی صورت میں زندگی پر نازاں تھا۔ خیال نے سرگوشی کی کہ اللہ تعالیٰ کی چاہت دیکھو اگر بیچ قدرت کے فراہم کردہ وسائل سے فائدہ نہ اٹھاتا پھر بھی نعمتیں خدمت پر مامور ہیں۔ بیج کا وجود خالق کی چاہت کا اظہار ہے ورنہ وہ غیب سے ظاہر نہ ہوتا۔
ٹھنڈک کے احساس سے لبریز سبز پتوں سے سجے پودوں کو گملوں سے زمین پر منتقل کیا کیوں کہ وہ کافی بڑے ہو گئے تھے۔ پانچ گملوں میں بیج دار فانی میں ظاہر ہو چکے تھے مگر چھٹے گملے پر خاموشی طاری تھی ۔ گہر اسکوت تھا جس نے ذہن میں سوالات پیدا کر دئیے۔ چھٹے گملے سے پودا نمودار کیوں نہیں ہوا ؟ کیا وہ ناقص بیچ تھا اور کیا بیچ ہوتا ہے؟ کیا بیچ نے سے بے توجہی برتی ہے؟ باقی بیجوں کی طرح اس نے محبت کی لہروں، ہوا، پانی ، روشنی اور سے فائدہ کیوں نہیں اٹھایا ؟ کہیں وہ فنا اور تغیر سے خوف زدہ تو نہیں؟ فنا و بقا سے لاعلمی بھی وجہ ہوسکتی ہے لیکن بیچ تو فنا سے واقف ہے۔ یا بیچ اس زون میں داخل نہیں ہونا چاہتا جہاں وہ بیج کے بجائے پودا کہلاتا!بیج خاموش رہا، میں نے بھی بھلا دیا اور توجہ باقی پانچ گملوں پر مرکوز کردی۔ بعد میں احساس ہوا کہ چھٹے پیج کے نہ کھلنے پر غور کرتی تو پیج ضرور اپنی خاموشی توڑتا اورمجھے بتا تا کہ وہ پودا کیوں نہیں بنا۔
دوں کے ساتھ وقت گزارنا بہت اچھا لگتا تھا۔ دل سین کے لئے عجیب سی محبت اور خوشی کے ملے جلے بذبات تھے۔ میں نے ان سے باتیں کیں اور ان کی افزائی کی۔ اور یہ سلسلہ اس وقت سے ہے جب سے میں ان کو گھر لائی تھی ۔
اب آنکھیں پودوں پر پھل دیکھنے کی مشتاق تھیں۔ بخش بھی پوری ہوئی۔ ایک دن پانی دیتے وقت پتوں کے نیچے چھپے گول مٹول سبز رنگ ٹماٹروں پر نظر پڑی۔ کہنے کو وہ ٹماٹر تھے اور ساری دنیا کے لئے پھل لیکن میرا تعلق ان سے ایسا تھا جیسے ماں کا بچوں سے ہے۔ فرط جذبات سے اللہ کا شکر ادا کیا۔ کچھ پودوں پر پھل آچکے تھے، باقی پر انتظار کا سماں مجھے بے پھل پودوں کی فکر لاحق ہوئی ۔ ان کو دیکھ کر میں سوچتی تھی کہ کیا ان کا بھی دل ہوتا ہے۔ میں انہیں دیکھتی ہوں ، یہ بھی مجھے دیکھتے اور میرے جذبات وس کرتے ہوں گے۔ ان کی بھی زبان ہے۔ کیا یہ میرے جذبات و احساسات سے واقف ہیں۔ کیا یہ بھی میرے لئے ایسے جذبات رکھتے ہیں جیسے میں ان ے لئے رکھتی ہوں ۔ وہ کون سا نظام ہے جو خاک میں سے رنگوں کو ظاہر کرتا ہے؟
خیالات کی یلغار بڑھتی گئی۔ پھر ایک حمد کے اشعار ذہن میں خیال بن کر اترے، یان پر ورد بن کر فضا میں رس گھولنے لگے اور سماعت ان سے لطف اندوز ہوتی رہی ۔
میں بوقتِ سحر جب چمن میں گیا
ٹہنیوں پر کھلے پھول تھے جابجا
گل کے پتوں سے میں نے سنی یہ صدا
پڑھ رہے تھے وہ شبنم سے کر کے وضو
اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو
یہ زمین جب نہ تھی آسماں جب نہ تھا
کوئی یہاں جب نہ تھا کوئی وہاں جب نہ تھا
پڑھ رہے تھے وہ سب مل کے یہ روبرو
اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو
پوچھا بلبل سے میں نے کہ تو یہ بتا
کس کے رخسار گالوں پہ ہے تو فدا
کس کے غم میں ہے یہ تیری حالت بتا
بولی آنکھوں سے اپنے بہا کر لہو
اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو
عرض کی میں نے سنبل سے اے جستجو
صبح شبنم سے کرکے تو تازہ وضو
جھوم کر کون سا ذکر کرتی ہے تو
سن کے کرنے لگی دم بدم ذکر ھو
اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو
واقعی میں پودوں کے راز کوسمجھ نہیں پائی کیوں کہ میں اپنی زندگی کے راز سے نا واقف تھی۔
گیند نما سبز ٹماٹر پتوں کی اوٹ سے مجھے مسکراتے ہوئے دیکھ رہے تھے ۔ کچھ دنوں بعد سبز ٹماٹر سرخ لبادہ اوڑھ کر ایثار کے جذبہ سے سرشار ہماری غذا بننے کے لئے تیار تھے۔ اپنے اندر توانائی کو نئے روپ میں ڈھالنے کے منتظر تھے۔ ان پودوں کے ساتھ دینی و روحانی بالیدگی کا سفر میں نے بھی طے کیا ۔ ہمارے شب و روز ایک تھے ۔ فرق یہ تھا کہ وہ ایثار سے واقف تھے اور میں ایثار کرنا سیکھ رہی تھی ۔ خیالات کے اس سفر پر میں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اس نے مجھے اندر باہر زندگی کی طرف متوجہ کیا اور میری زندگی کے پودے کی دیکھ بھال کے لئے اپنے ایک مہربان دوست کو میرا راہ نما بنایا۔ اللہ کے دوست نے بتایا کہ زندگی اللہ سے محبت کا نام ہے۔ اللہ سے محبت کرنے والا اندھیروں سے نکل کر روشنی میں سفر کرتا ہے۔ ابر رحمت اس پر سایہ کرتی ہے اور رحیم و کریم لی اللہ کی معرفت عطا ہوتی ہے۔
بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور ستمبر2019