پیر رومی ؒ
قسط نمبر1
تحریر۔۔۔ابن وصی
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ پیر رومی ؒ۔۔۔ تحریر۔۔۔ابن وصی)ہٹو بچو ! کی آوازیں بلند ہو ئیں ، لوگ جو بازار میں چل پھر رہے تھے ایک طرف کو ہٹنے لگے اور ان کی توجہ آنے والی و سواری کی طرف مبذول ہو گئی۔ زرق و برق لباس میں ایک شخص شان سے آرہا تھا، سواری کے گرد علماء و طلباء کا جمگھٹا تھا، حکام اور امراء بھی آگے آگے چل رہے تھے، ایسا لگتا تھا جیسے کسی شہنشاہ کی سواری گزر رہی ہو۔ سواری جب قریب آئی تو ایک ہجوم پک پڑا، ہر فرد کی خواہش تھی کہ وہ سواری کے قریب پہنچے اور اس نادر روزگار انسان سے ہاتھ ملائے، کسی نے ہاتھ ملا یا کسی نے پاؤں چھوٹے جو نزدیک نہ آسکا اس نے صرف نظر بھر دیکھ لینے پر ہی اکتفا کیا۔ اسی ہجوم میں ایک گدڑی پوش فقیر بھی تھا، لوگوں کے ہنگاموں سے بے نیاز ایک طرف کھڑا یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ لوگوں کا ہجوم چھٹا اور سواری آگے بڑھی تو اس گدڑی پوش نے پوچھا۔ یہ کون ہیں…. جن کی سواری کی یہ دھوم ہے۔۔؟
کسی نے اُسے بتایا کہ ” یہ قونیہ کے مشہور عالم دین اور فقیہ حضرت جلال الدین رومی ہیں“۔ گیری پوش پر وجدانی کیفیت طاری ہو گئی اور کہا یہی تو وہ شخص ہے جسے میں ڈھونڈ رہا تھا …. اس زمانے میں ایشائے کو چک کو سلطنت روم کہا جاتا تھا۔ اپنے وقت کی علمی شخصیت مولانا جلال الدین نے علم و فضل میں وہ مقام حاصل کر لیا تھا کہ انہیں مولائے روم کہا جانے لگا۔ مولانا کو کئی علوم اور طرزِ بیان میں ایسا کمال حاصل تھا جب آپ خطاب کرتے تولوگ پتھر کی طرح ساکت و جامد ہو جاتے۔ ان کے حلقہ تدریس میں بڑے بڑے علماء اور فقیہ ایک طالب علم کی حیثیت سے مؤدب بیٹھے رہتے۔
ایک دن مولانا جلال الدین مجلس میں اپنے شاگردوں کو درس دے رہے تھے کہ گدڑی پوش اجنبی جو ظاہری حلیے سے ایک عام شخص معلوم ہوتا تھا مجلس میں داخل ہوا، اس نے اجازت لینے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی اور صفوں کو چیرتا ہوا مولانا کے پاس صحن میں تالاب کی منڈیر پر جا بیٹھا۔ مولانا کے شاگردوں کو اجنبی کی یہ حرکت سخت ناگوار لگی، لیکن استاد کے احترام میں خاموش رہے۔ مولانا روم بھی درس دیتے رہے۔ ایسا لگتا تھا کہ اس اجنبی کو موالانا کے درس میں کوئی دلچسپی نہ تھی وہ تو کتب خانے اور قریب رکھی ہوئی قیمتی کتابوں کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔ درس کے دوران مولانا کے شاگرد استاد سے مختلف سوالات کر رہے تھے، اس وقت اجنبی نے بھی ایک قیمتی کتاب اٹھائی اور مولانا سے پوچھنے لگا۔
این چیست؟ ( یہ کیا ہے؟“۔ جلال الدین کو اپنی علمی مجلس میں ایک عام فقیر کا اس طرح سوال کرنا بہت بُرالگا۔ انہوں نے فقیر کی طرف دیکھتے ہوئے ناگواری سے کہا کہ این آن علم است که تو نمی دانی (یهوہ علم ہے جسے تم نہیں جانتے“۔
خیلی خوب (بہت خوب “ تالاب کی منڈیر پر بیٹھے اجنبی نے جواب دیا اور انہوں نے عالم جلال الدین کی قلمی کتا بیں اٹھا کر پانی سے بھرے ہوئے حوض میں ڈال دیں۔
یہ منظر دیکھ کر جلال الدین نے غصہ میں کہا : ” این چه کاری بود کردی؟ در این کتاب با نسخه های قیمتی و دست نوشت بای منحصر به فرد پدرم بود. ارے یہ تو نے کیا کر دیا ؟ ان کتابوں میں قیمتی نسخے اور میرے والد کی برسوں کی علمی ریاضت سے لکھے منفر د مخطوطات بھی تھے۔“
اجنبی نے یہ سنا تو کہا کہ ”فکر کیوں کرتے ہو“ اپنا ہاتھ حوض میں ڈالا اور تمام کتا ہیں صحیح سالم باہر نکال کر رکھ دیں۔
کتابوں کے سوکھے اوراق دیکھ کر ظاہری علم
کے ماہر جلال الدین پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ انہوں نے اجنبی فقیر سے پوچھا
ایں چیست؟ ( یہ کیا ہے؟“۔ اس گدڑی پوش فقیر نے جواب دیا، ” ایں آں علم است که تو نمی دانی (یہ وہ علم ہے جسے تم نہیں جانتے“۔
ادھر کتابوں کو الٹ پلٹ کر دیکھ کر مولانا جلال الدین کے اندر کی دنیا بھی جیسے الٹ پلٹ ہو گئی، انہیں یوں محسوس ہوا جیسے روح کی پیاس جو انہیں بے قرار رکھتی ہے اس کی سیرابی کا انتظام یہی شخص کر سکتا ہے۔ یہ خیال آتے ہی ان کی آنکھوں نے اس اجنبی کو مجلس میں ڈھونڈا، لیکن وہ شخص نہ جانے کب وہاں سے نکل گیا تھا۔
مولانا جلال الدین رونی نے ایک نظر مریدوں کو دیکھا اور اپنی دستار اور قیمتی کتابوں کو چھوڑ کر ننگے پاؤں اجنبی کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ قونیہ کے لوگ حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ قونیہ کا سب سے بڑا عالم نگے پاؤں کسی کی تلاش میں دنیا و مافیہا سے بے خبر چلا جارہا تھا۔ کچھ دور جاکر گدڑی میں ملبوس وہ شخص مولانا روم کو نظر آگیا۔ مولانا نے آگے بڑھ کر اس کے دونوں ہاتھ تھام لیے اور منت سماجت کر کے اپنے ساتھ لے آئے۔
یہ اجنبی کوئی اور نہیں، حضرت شمس تبریز تھے۔ روایات کے مطابق یہ واقعہ 642 ہجری کا ہے ، اب جلال الدین حضرت شمس تبریز کے ساتھ حجرے میں گوشہ نشین ہو گئے ، جب مولانا حجرے سے باہر آئے تو آپ کی دنیا ہی بدل چکی تھی۔ نہ وہ زرق برق کا لباس رہا، نہ شان و شوکت، نه وعظ گوئی، نہ علمی مجلسیں وکتا ہیں۔ کہاں تو یہ عالم تھا کہ کتابوں اور وعظ کے سواء دوسرا کام ہی نہیں تھا، اب یہ حال ہوا کہ انہوں نے خاموشی اختیار کرلی، زیادہ وقت عالم وجد میں رہتے۔ حضرت شمس تبریز کی چند روزہ صحبتوں نے مولانا روم کو نیم مجذوب درویش بناڈالا تھا۔ مولانا خود فرماتے ہیں:
بیچ چیزی خود بخود نشد
بیچ آین خود بخود تیغی نشد
مولوی برگز نہ شد مولائے روم
تا غلام شمس تبریزی نشد
چیزیں خود بخود وجود میں نہیں آتی، لوہا خود سے تلوار نہیں بن سکتا اسی طرح مولوی مولائے روم ہر گزنہ بن پاتا اگر شمس تبریز کا غلام نہ بنتا۔) رومی کار وشن کلام اسرار در موز کا ایک خزینہ اور معرفت و عرفان کا ایک گنجینہ ہے۔ آپ کی شاعری میں اللہ اور نبی کریم علیم سے محبت کا اظہار ، پند و نصائح کے موضوعات ، فلسفیانہ عقائد اور حکمت کارنگ نمایاں ہے۔
رومی کی تعلیمات بتاتی ہیں کہ ظاہری و باطنی تمام علم انسان کے اپنے باطن میں موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صوفیاء انسان کو اپنے باطن کے کھوجنے پر پر زور دیتے ہیں۔
مولانارومی کے اشعار انسان کو اپنی اصل، یعنی اپنے باطن کی جانب متوجہ کرتے ہیں۔
ای نسخه ی نامه ی الهی که توئی
وی آینه ی جمال شابی که توئی
بیرون زئونیست برچه در عالم بست
در خود به طلب بر آنچه خوابی که توئی
کیا تم نہیں جانتے، خدا کے پیغام کا اصل نسخہ تم ہی ہو ، تم ہی وہ آئنہ ہو جس میں شاہ کا جمال اور صفات نظر آتی ہیں، اِس کائنات میں جو کچھ ہے، تمہارے اندر بھی موجود ہے۔ خود اپنے اندر جھانکو، تم جس کے متلاشی ہو وہ تمہیں مل جائے گا۔) رومی انسانی کے اصل وجود کا ذکر کرتے ہیں: اول بر آدمی خود صورت است بعدازاں جاں کو جمال سیرت ست اوّل بر میوه جز صورت کے ست بعد ازاں لذت که معنى وليست (یعنی انسان کی ابتدا خود صورت ہے اور اس کے بعد باطن کا جمال ہے ،ہر میوے کا جز صورت ہے اس کے بعد لذت ہے جو اس کے معنی ہیں) رومی کے اشعار میں شرف انسان، تکریم آدم اور علم الاسماء کا ذکر جابجا موجودہ ہے۔ آدم آئینه اسما کند وجه عکس خود در صورتش پیدا کند نقش آدم را رقم نوعی زند که دو عالم را در او پنهان کند آدم کو اللہ نے اپنے اسماء کا آئینہ یعنی اپنی صفات کا مظہر اور صورت پر تخلیق کیا ہے، آدم کے نقش میں دو عالم پنہاں ہیں۔)
آدم خاکی زحق آموخت علم۔۔۔۔جاری ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ دسمبر2021