Daily Roshni News

چاندنی کا زوال

چاندنی کا زوال

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )رات کے آخری پہر کا وقت تھا۔ چاندنی اپنی روشنی میں آہستہ آہستہ مدھم ہو رہی تھی۔ کمرے میں جلتا ہوا پیلا بلب دیوار پر پڑتی ہوئی چاندنی کے ساتھ ایک عجب سا امتزاج پیدا کر رہا تھا۔ فضا میں خاموشی تھی، مگر وہ خاموشی جس میں دل کی دھڑکن بھی کسی شور کی طرح سنائی دیتی ہے۔

اسی خاموشی کے درمیان، عالیہ کھڑکی کے پاس کھڑی تھی — ننگے پاؤں، بکھرے بال، اور آنکھوں میں ایک گہرا خلا۔

یہ خلا صرف نیند کا نہیں تھا، بلکہ برسوں کی تسکین سے محروم روح کا تھا۔

ابتدا

عالیہ لاہور کے ایک متوسط مگر تعلیم یافتہ گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ اس کے والد کالج میں اردو کے لیکچرار تھے اور ماں سلائی کے کام سے گھر کا خرچ چلاتی تھیں۔ عالیہ بچپن ہی سے ایک خاموش مگر مشاہدہ کرنے والی لڑکی تھی۔ وہ دوسروں کی باتوں سے زیادہ ان کے لہجوں کو محسوس کرتی، اور اکثر چھت پر بیٹھ کر چاند سے باتیں کیا کرتی تھی۔

“امی! کیا چاند بھی کبھی اکیلا ہوتا ہے؟” وہ پوچھا کرتی۔

امی مسکرا کر کہتیں، “نہیں بیٹی، چاند کبھی اکیلا نہیں ہوتا۔ بس بادل کبھی کبھی چھپاتے ہیں، جیسے انسان اپنے دل کے دکھ چھپاتے ہیں۔”

یہ جملہ عالیہ کے ذہن میں کہیں ثبت ہو گیا تھا۔

خواب اور حقیقت کا تصادم

کالج میں داخلہ لیا تو اس کے خوابوں کو پر لگ گئے۔ کتابوں سے عشق تو پہلے ہی تھا، اب قلم سے دوستی بھی ہو گئی۔ وہ کہانیاں لکھنے لگی — ایسی کہانیاں جن میں دکھ، محبت، تنہائی اور امید ایک ساتھ چلتے تھے۔ اس کی کہانیاں رسائل میں چھپنے لگیں، اور رفتہ رفتہ وہ “عالیہ افروز” کے نام سے پہچانی جانے لگی۔

اسی دوران حسان اس کی زندگی میں آیا۔

حسان ایک خوش مزاج، شوخ اور زندگی سے بھرپور لڑکا تھا، جو ادب میں کم، عالیہ میں زیادہ دلچسپی رکھتا تھا۔ ان کی ملاقات ایک مشاعرے میں ہوئی۔ حسان کی باتوں میں کشش تھی، اس کی آنکھوں میں یقین، اور لہجے میں وہ نرم دھنک جو دل کو چھو جاتی ہے۔

“عالیہ، تمہاری تحریروں میں اتنا دکھ کیوں ہوتا ہے؟” حسان نے پہلی ملاقات میں پوچھا تھا۔

“شاید اس لیے کہ خوشی کبھی زیادہ دیر ٹھہرتی نہیں…”

“تو پھر میں کوشش کروں گا کہ تمہارے لفظوں میں مسکراہٹ واپس آ جائے۔”

یہ جملہ کسی وعدے کی طرح تھا — مگر وعدے وقت کے سامنے کتنی دیر ٹھہرتے ہیں؟

نئے رنگوں کی شروعات

محبت کے موسم نے عالیہ کی تحریروں میں روشنی بھر دی۔ اب وہ دکھ نہیں لکھتی تھی، بلکہ امید لکھتی تھی۔ حسان اس کے ساتھ ہر لمحہ تھا — شام کی چائے، لائبریری کے گوشے، پرانی کتابوں کی خوشبو، اور کبھی کبھار جھگڑوں کے بعد کی معافیاں۔

مگر محبت کی راہ ہمیشہ ہموار نہیں ہوتی۔ حسان کے گھر والے اس رشتے کے مخالف تھے۔ ان کے نزدیک ایک لکھنے پڑھنے والی لڑکی وہ نہیں تھی جو گھر کی دیواروں میں سمٹ جائے۔

عالیہ نے حسان سے کہا،

“اگر یہ راستہ تمہیں تمہارے گھر سے دور لے جائے تو مت چلو… میں تمہیں کھونا نہیں چاہتی۔”

حسان نے جواب دیا،

“پیار کبھی قربانی مانگتا ہے عالیہ، اور میں یہ قربانی دینے کو تیار ہوں۔”

مگر وقت نے ثابت کیا کہ قربانی ہمیشہ وہی دیتا ہے جس کے پاس کمزور دل ہو، اور حسان کا دل اتنا مضبوط نہیں تھا۔

بچھڑنے کی وہ رات

بارش کی رات تھی، وہی چاندنی دھند سے ڈھکی ہوئی تھی۔ عالیہ لائبریری کے باہر کھڑی تھی۔ حسان کا پیغام آیا —

“ہمیں ملنا ہوگا، آخری بار۔”

وہ جب آئی تو دیکھا، حسان کی آنکھوں میں اضطراب ہے۔

“عالیہ، میں… میں اب یہ سب نہیں کر سکتا۔ امی بیمار ہیں، اور گھر والوں نے میری شادی طے کر دی ہے۔ میں مجبور ہوں۔”

وہ لمحہ جیسے دنیا کے شور کو نگل گیا۔ عالیہ کچھ بولی نہیں، بس چاند کی طرف دیکھا —

“پتا ہے حسان، امی کہتی تھیں چاند کبھی اکیلا نہیں ہوتا… مگر آج میں سمجھ گئی ہوں، کبھی کبھی چاند بھی اکیلا ہوتا ہے، بس بادلوں کے پیچھے چھپ کر روتا ہے۔”

اس کے بعد عالیہ نے اسے پلٹ کر نہیں دیکھا۔

خاموشی کے برس

وقت گزرتا گیا۔ عالیہ اب ایک معروف ادیبہ بن چکی تھی، مگر دل کے اندر ایک سناٹا بسا ہوا تھا۔ وہ لکھتی تھی، مگر ہر لفظ میں اداسی کی خوشبو تھی۔ لوگ کہتے، “تمہاری تحریریں دل کو چیر دیتی ہیں، تمہیں ایسا درد کہاں سے ملا؟”

وہ مسکرا کر کہتی، “کہیں سے نہیں… شاید چاند سے مانگ لیا تھا۔”

اس کی کتابیں مشہور ہوئیں، مگر تنہائی کا زخم کبھی نہیں بھرا۔ ماں بوڑھی ہو گئی تھی، اور والد ریٹائرمنٹ کے بعد خاموش زندگی گزار رہے تھے۔

ایک دن ماں نے کہا،

“بیٹی، شادی کر لو، اب تم اکیلی نہیں رہ سکتیں۔”

عالیہ نے مسکرا کر کہا،

“امی، میں تو بہت پہلے کسی سے وعدہ کر کے بھول گئی تھی۔ اب اگر کوئی آئے بھی، تو دل کا دروازہ خالی نہیں ہے، بس بند ہے۔”

ایک نیا موڑ

سالوں بعد ایک ادبی کانفرنس میں عالیہ کا سامنا ہوا احمد سے — ایک ادیب، مگر زندگی سے بھرپور۔

احمد نے عالیہ کی تحریریں پڑھی تھیں اور ان کا مداح تھا۔

“آپ کے لفظوں میں ایک عجب سچائی ہے، جیسے دل خود بولتا ہو۔”

عالیہ نے پہلی بار برسوں بعد محسوس کیا کہ کوئی اس کے اندر کی گونج سن رہا ہے۔

وقت کے ساتھ ان کے درمیان ایک تعلق پیدا ہوا — مگر یہ تعلق محبت نہیں، احترام تھا۔ احمد جانتا تھا کہ عالیہ کے دل میں کوئی ایسا سایہ ہے جو کبھی مٹ نہیں سکتا۔ وہ کہتا،

“کبھی کبھی سایے روشنی سے زیادہ سچے ہوتے ہیں۔”

اور عالیہ صرف خاموش رہتی۔

اختتام — چاندنی کا زوال

ایک رات احمد نے عالیہ کو فون کیا،

“کل مشاعرے میں تمہارے اعزاز میں ایک تقریب رکھی گئی ہے۔ تمہیں آنا ہوگا۔”

اگلی شام ہال بھرا ہوا تھا۔ عالیہ کو “اردو ادب کی روح” کہا گیا۔ لوگوں نے اس کی تحریروں کو سراہا۔ اس دوران ایک شخص پیچھے سے اٹھا اور پھولوں کا گلدستہ پیش کیا۔ عالیہ نے نظر اٹھائی —

وہ حسان تھا۔

وقت نے اسے بوڑھا کر دیا تھا، مگر آنکھوں میں وہی پچھتاوا۔

“عالیہ… میں نے تمہیں بھولنے کی ہزار کوششیں کیں، مگر ہر کہانی میں تم آتی رہیں۔”

عالیہ نے مسکرا کر کہا،

“میں بھی تمہیں بھولنا چاہتی تھی، مگر ہر کہانی میں تم نہیں، تمہارا سایہ آ گیا۔”

وہ خاموشی سے وہاں سے چلی گئی۔ باہر چاند پورے جوبن پر تھا — مگر اس کی روشنی میں ایک زوال چھپا تھا، بالکل عالیہ کی طرح۔

چاندنی مدھم ہوئی، اور عالیہ دھیرے دھیرے ہجوم میں گم ہو گئی۔

پیچھے احمد نے دیکھا،

“کچھ لوگ زندہ رہتے ہوئے بھی افسانہ بن جاتے ہیں…”

اختتامی جملہ:

عالیہ کی کتابوں میں اب بھی وہی سطر لکھی ہے —

“محبت ختم نہیں ہوتی، بس چاندنی زوال پذیر ہو جاتی ہے…”

Loading