Daily Roshni News

چاند پر ہیلیئم کے لیے جنگ۔۔۔تحریر۔۔۔ثاقب علی

چاند پر ہیلیئم کے لیے جنگ

تحریر۔۔۔ثاقب علی

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹر نیشنل )بڑی طاقتیں کیوں چاند پر واپس جارہی ہیں اور اس دہائی میں اس دوڑ میں کافی تیزی دیکھنے کو ملی ہے۔ اس ضمن میں گزشتہ ایک مضمون “چاند کی دوڑ کیوں” میں تفصیلی بات ہوئی کہ چاند پر واپسی کی دوڑ کے کیا محرکات ہیں۔ ہیلیئم کی تلاش ان میں سے ایک بڑی وجہ تھی اور اس مضمون میں اسی پر بات کریں گے۔

ہیلئم کائنات میں سب سے پہلے بننے والے دو عناصر میں سے ایک ہے اور ہائیڈروجن کے بعد سب سے زیادہ مقدار میں اس کائنات میں ہیلئم پائی جاتی ہے (25 فی صد تک)۔

زمین کی فضاء میں ہیلیئم بہت کم مقدار میں ہے جو فضاء کے ہر دس لاکھ ایٹموں میں سے 5 ایٹم ہیلیئم کے ہوسکتے ہیں اور زمین میں اس گیس کا سب سے بڑا مآخذ قدرتی گیس ہے جس میں 7 فیصد تک اس کا تناسب ہوسکتا ہے۔ ہیلیئم کا استعمال زندگی کے ہر شعبہ میں ناگزیر بن گیا ہے۔

-میڈیکل انڈسٹری میں heliox کے طور پر دمہ اور پھیپھڑوں کی بیماریوں کے علاج کے لیے،

-ایم آر آئی MRI سکین میں مقناطیس کو ٹھنڈا کرنے کے لیے،

-انٹرنیٹ آپٹیکل فائبر کیبلز اور کمپیوٹر چپس کے پیداواری عمل میں، سٹوریج ہارڈ ڈرائیو میں،

– سیٹلائیٹ میںں آلات اور دوربینوں کے کیمروں میں کولنگ کے لیے جیسے جیمز ویب دوربین کے کیمروں کی کولنگ

– ہیڈرون کلائیڈر particle accelerator LHC کے اندر میگنیٹس کو ٹھنڈا کرنے کے لیے۔

-راکٹ فیول ٹینکوں کی صفائی، مائیکروسکوپس، اور گاڑیوں کے ائیر بیگ میں استعمال ہوتی ہے۔

الغرض سائنس و  ٹیکنالوجی کے ان گنت کام ہیلیئم کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتے۔

اب بات کرتے ہیں کہ یہ ساری ہیلیئم جو تمام مذکورہ کاموں میں استعمال ہورہی ہے وہ ہیلیئم-4 (⁴He) ہے جو زمین پر آسانی سے پیدا کی جا سکتی ہے جس میں قطر، الجیریا، روس اور امریکہ سر فہرست ہیں۔

اب بات کرتے ہیں اس ہیلیئم کے ائیسوٹوپ کی جس کی موجودگی چاند پر زمین کی نسبت زیادہ ہے۔ وہ ہیلیئم-3 (³He) ہے جس میں 2 پروٹون اور ایک نیوٹرون ہے۔ ہیلیئم-3  باقی عناصر کے آئیسوٹوپس سے مختلف اس لیے ہے کیوں کہ اس کے نیوکلیئس میں نیوٹرون کی تعداد پروٹون سے کم ہے (عموماً مستحکم آئسوٹوپس میں نیوٹرون کی تعداد زیادہ ہوتی ہے)۔

زمین کو اس وقت سب سے بڑا خطرہ گلوبل وارمنگ سے ہے اور اس کی بہت بڑی وجہ ہائیڈروکاربن فیول سے بجلی کی پیداوار ہے جس کا حل Renewable Energy زرائع ہیں لیکن سپلائی کو بڑھتی طلب کے ساتھ قائم رکھنا بہت مشکل ہے۔  اس مسئلہ کا حل جوہری توانائی ہے جس میں نیوکلیئر فشن کے بجلی گھر تو دنیا بھر میں قائم ہیں لیکن اس میں تابکاری کے خطرات ہونے کی وجہ سے اور اس کے تابکار فضلہ کو ٹھکانے لگانے کے مناسب بندو بست نہ ہونے کی وجہ سے اس کا استعمال نقصانات سے خالی نہیں۔ یہ تابکار فضلہ ہزاروں سال تک اپنی تابکاری (decay) جاری رکھتا ہے کیونکہ اس کی Half Life بہت زیادہ ہوتی ہے۔

نیوکلئیر فیوژن کا عمل جس میں دو ہلکے عناصر کو آپس میں ملا کر بھاری عنصر اور بہت ساری توانائی حاصل ہوتی ہے جیسے ہر ستارے کے اندر یہ عمل توانائی بنانے کا ذریعہ ہے۔ فیوژن کے عمل میں جو عناصر استعمال کیے جا رہے ہیں جیسے کہ ہائیڈروجن کے آئیسوٹوپ ٹریشئیم (T) اور ڈیوٹیریئم (D) کے ملنے سے ہیلیئم اور بہت ساری توانائی بنتی ہے

D + T –> He-4 + n + energy

اور اس کے ساتھ ساتھ تیز نیوٹرون بھی بنتے ہیں۔ یہ تیز نیوٹرون اصل میں خطرے کی گھنٹی ہوتے ہیں۔ نیوٹرون پر چونکہ کوئی چارج نہیں ہوتا اور یہ تیز رفتار نیوٹرون اپنی حرکی توانائی فیوژن ری ایکٹر کی دیواروں کو منتقل کرتے ہیں جس سے ان دیواروں کو کافی نقصان ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ نیوٹرون اپنی انرجی کی منتقلی سے دیواروں میں موجود عناصر کو بھی ری ایکٹو بنا سکتے ہیں جو ری ایکٹر کی لائف پر اثرانداز ہونے کے ساتھ ساتھ باہر کے ماحول کو بھی تابکار بنا سکتے ہیں۔ اب ہیلیئم-3 (³He) کی بات کرتے ہیں، جیسا کہ پہلے ذکر ہوا کہ اس آئیسوٹوپ میں 2 پروٹون اور 1 نیوٹرون ہوتا ہے اور جب اس کو ڈیوٹیریئم کے ساتھ فیوز کیا جاتا ہے تو نیوٹرون کی پیداوار نہیں ہوتی بلکہ پروٹون آزاد ہوتے ہیں جن کو کنٹرول کرنا آسان ہے کیونکہ وہ مثبت چارج کا حامل ہوتا ہے۔ اس قسم کے فیوژن کو Aneutronic Fusion کہا جاتا ہے۔

³He + D –> ⁴He + p + Energy

مزید یہ کہ اس قسم کی فیوژن میں توانائی کی زیادہ مقدار حاصل ہوتی ہے لیکن ہیلیئم-3 اور ڈیوٹیریئم کے درمیان Coloumb Barrier یا دفع کرنے کی قوت (Repulsive force) زیادہ ہوتی ہے تو اس قسم کے عمل میں پلازمہ کو زیادہ درجہ حرارت پر لے جانا پڑتا ہے جس سے رہ ایکٹر کا ڈیزائن تبدیل کرنا پڑے گا۔

اب بات کرتے ہیں کہ کتنی ہیلیئم-3 چاند پر موجود ہے۔ بہت سارے تخمینوں کے مطابق چاند پر 10 لاکھ سے 15 لاکھ ٹن ہیلیئم-3 موجود ہے اور 40 گرام ہیلیئم-3 سے 5000 ٹن کوئلے کو استعمال کرکے حاصل ہونے والی بجلی کے برابر بجلی بنائی جا سکتی ہے۔ یہ توانائی کی مقدار بہت زیادہ ہے لیکن اس کے لیے چاند سے ہیئلیم کو زمین پر لانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ نجی کمپنیوں کی اس دوڑ میں شمولیت اس بات کو واضح کرتی ہے کہ مستقبل میں اس انرجی سورس پر کافی کام ہونےجا رہا ہے اور اس کا حصول کای بھی ملک کی سالمیت کے لیے ضامن ہوسکتا ہے۔

یہ دوسرا مضمون تھا جس میں چاند کی دوڑ کا معاشی پہلو آپ کے سامنے رکھا، امید کرتا ہوں آپ کو یہ تحریر پسند آئی ہوگی۔ کمی، کوتاہی اور غلطی کا امکان ہر تحریر میں عین ممکن ہے لیکن پوری کوشش کرتا ہوں کہ ہر انفارمیشن مستند ہو۔ اگلے مضمون میں نیوکلیئر فیوژن کے پر جاری تحقیق کی بات کریں گے۔

#ثاقب_علی #astrosaqi #backtothemoon

Loading