چھوٹاکام
تحریر۔۔۔اشفاق احمد
(قسط نمبر2)
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ چھوٹاکام۔۔۔ تحریر۔۔۔اشفاق احمد) محبتیں بڑھ رہی تھیں اور ہم ان سے ملنے چلے گیے، افریقہ اور پاکستان کے کچھ رائٹر چینی حکام سے ملے۔
ایک گاؤں میں بہت دور پہاڑوں کی اوٹ میں کچھ عورتیں بھٹی میں دانے بھون رہی تھیں۔ دھواں نکل رہا تھا۔ میرے ساتھ شوکت صدیقی تھے۔ کہنے لگے، یہ عورتیں ہماری طرح سے ہی دانے بھون رہی ہیں۔ جب ہم ان کے پاس پہنچے تو دو عورتیں دھڑا دھڑ پھوس، لکڑی جو کچھ ملتا تھا، بھٹی میں جھونک رہی تھیں اپنے رومال باندھے کڑاہے میں کوئی لیکوڈ (مائع) سا تیار کر رہی تھیں۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ یہ آپ کیا کر رہی ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ ہم سٹیل بنا رہی ہیں۔ میں نے کہا کہ سٹیل کی تو بہت بڑی فیکٹری ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم غریب لوگ ہیں اور چین ابھی آزاد ہوا ہے۔ ہمارے پاس کوئی سٹیل مل نہیں ہے۔ ہم نے اپنے طریقے کا سٹیل بنانے کا ایک طریقہ اختیار کیا ہے کہ کس طرح سے سندور ڈال کر لوہے کو گرم کرنا ہے۔
یہ عورتیں صبح اپنے کام پر لگ جاتیں اور شام تک محنت اور جان ماری کے ساتھ سٹیل کا ایک ڈلا یعنی پانچ چھ سات آٹھ سیر سٹیل تیار کر لیتیں۔ ٹرک والا آتا اور ان سے آکر لے جاتا۔انہوں نے بتایا کہ ہمیں جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے ہم اس سٹیل کی بدلے لے لیتے ہیں۔
میں اب بھی کبھی جب اس بات کو سوچتا ہوں کہ سبحان اللہ، ان کی کیا ہمت تھی۔ ان کو کس نے ایسے بتا دیا کہ یہ کام ہم کریں گی توملک کی کمی پوری ہوگی۔ چھوٹا کام بہت بڑا ہوتا ہے۔ اس کو چھوڑا نہیں جا سکتا، جو کوئی اسے انفرادی یا اجتماعی طور پر چھوڑ دیتا ہے، مشکل میں پڑ جاتا ہے۔
اٹلی میں ایک مسٹر کلاؤ ایک بڑا سخت قسم کا یہودی تھا۔ اس کی کوئی تیرہ چودہ منزلہ عمارت تھی۔ صبح جب میں یونیورسٹی جاتا تو وہ وائپر لے کر رات کی بارش کا پانی نکال رہا ہوتا اور فرش پر ٹاکی لگا رہا ہوتا تھا یا سڑک کے کنارے جو پٹری ہوتی ہے اسے صاف کر رہا ہوتا۔ میں اس سے پوچھتا کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں، اتنے بڑے آدمی ہو کر۔ اس نے کہا یہ میرا کام ہے، کام بڑا یا چھوٹا نہیں ہوتا، جب میں نے یہ ڈیوٹی لے لی ہے اور میں اس ڈسپلن میں داخل ہو گیا ہوں تو میں یہ کام کروں گا۔
میں نے کہا کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ اس نے کہا کہ یہ انبیاء کی صفّت ہے، جو انبیاء کے دائرے میں داخل ہونا چاہتا ہے۔ وہ چھوٹے کام ضرور کرے۔ ہم کو یہ نوکری ملی ہے۔ حضرت موسٰی علیہ السلام نے بکریاں چَرائی تھیں اور ہم یہودیوں میں یہ بکریاں چَرانا اور اس سے متعلقہ نچلے لیول کا کام موجود ہے تو ہم خود کو حضرت موسٰی علیہ السلام کا پیروکار سمجھیں گے۔
اس نے کہا کہ آپ کے نبی اپنا جوتا خود گانٹھتے تھے۔ قمیض کو پیوند یا ٹانکا خود لگاتے تھے۔ کپڑے دھو لیتے تھے۔ راستے سے جھاڑ جھنکار صاف کر دیتے تھے، تم کرتے ہو؟ میں کہنے لگا مجھے تو ٹانکا لگانا نہیں آتا، مجھے سکھایا نہیں گیا۔ وہ آدمی بڑی تول کے بات کرتا تھا۔ مجھے کہتا تھا دیکھو اشفاق تم استاد تو بن گئے ہو، لیکن بہت سی چیزیں تمہیں نہیں آتیں۔ جب کام کرو چھوٹا کام شروع کرو۔ اب تم لیکچرار ہو کل پروفیسر بن جاؤگے۔ تم جب بھی کلاس میں جانا یا جب بھی لوگوں کو خطاب کرنے لگنا اور کبھی بہت بڑا مجمع تمہارے سامنے ہو تو کبھی اپنے سامنے بیٹھے ہوئے لوگوں کو مخاطب نہ کرنا۔ ہمیشہ اپنی آواز کو دور پیچھے کی طرف پھینکنا۔ وہ لوگ جو بڑے شرمیلے ہوتے تھے، شرمندہ سے جھکے جھکے سے ہوتے ہیں، وہ ہمیشہ پچھلی قطاروں میں بیٹھتے ہیں۔ آپ کا وصف یہ ہونا چاہئے کہ آپ اپنی بات ان کے لئے کہیں۔ جب بات چھوٹوں تک پہنچے گی تو بڑوں تک خود بخود پہنچ جائےگی۔ میں اس کی باتوں کو کبھی بھلا نہیں سکتا۔
جب میں اپنے بابا جی کے پاس آیا تو میں نے کلاؤ کی یہ بات انہیں بتائی، انہوں نے کہا کہ دیکھو کچھ ہماری ڈیوٹیاں ہوتی ہیں، مثلاً یہ کہ مجھے سکھایا گیا کہ سوئی میں دھاگہ ڈالنا سیکھو۔ سبزیاں چھیلنے کی تو میری پریکٹس ہو چکی تھی۔ اب بابا جی نے فرمایا کہ سوئی میں دھاگہ ڈالنا سیکھو۔ اب یہ بڑا مشکل کام ہے۔ میں کبھی ایک آنکھ بند کرتا اور کبھی دوسری آنکھ کانی کرتا، لیکن اس میں دھاگہ نہیں ڈالتا تھا۔
خیر! میں نے ان سے کہا کہ اچھا جی دھاگہ ڈال دیا، اس کا فائدہ؟ کہنے لگے کہ اس کا یہ فائدہ ہے کہ اب تم کسی کا پھٹا ہوا کپڑا، کسی کی پھٹی ہوئی پگڑی سی سکتے ہو۔ جب تک تمہیں لباس سینے کا فن نہیں آئےگا، تم انسانوں کو کیسے سیؤ گے، تم تو ایسے ہی رہوگے، جیسے لوگ تقریریں کرتے ہیں۔ بندہ تو بندے کے ساتھ جڑےگا ہی نہیں۔ یہ سوئی دھاگے کا فن آنا چاہیئے۔ ہماری مائیں بہنیں بیبیاں جو لوگوں کو جوڑ کے رکھتی تھیں، وہ یہ چھوٹے چھوٹے کاموں سے کرتی تھیں۔
آپ ایک لمحے کے لئے یہ بات سوچیں کہ اس ملک کی آبادی 14 کروڑ ہے اور ان 14 کروڑ بندوں کو کس طرح کھانا مل رہا ہے۔ کیا کوئی فیکٹری انہیں کھانا فراہم کرتی ہے یا کوئی ٹرک آتا ہے؟ آپ اپنے گھر تشریف لے جائیں گے اور ٹھنڈا ’’بسا‘‘ بینگن گرم کرکے یا ا مّاں سے کہیں کہ دال ڈال دیں، مکس کرکے گھی ڈال دیں، اس طرح ہمیں کھانا مل رہا ہے اور ان چھوٹے کاموں سے کتنی بڑی آبادی پل رہی ہے۔ آپ اس بارے ضرور سوچیئےگا کہ اگر کام فیکٹر ی يوں اور بڑی بڑی چیزوں سے ہی ہوتے تو پھر تو سب بھوکے رہ جاتے۔ یہ تو خواتین کا ہی خاصا ہے کہ وہ سب کوکھانا بناکر دیتی ہیں۔
آپ ان چند بڑے بڑے اشتہاروں کی طرف نہ دیکھیں، جن میں لڑکیاں برگر کھارہی ہوتی ہیں۔ ان کے ہونٹ آدھے لپ اسٹک سے لال ہوتے ہیں، آدھی کیچپ سے لال۔ بڑا خوبصورت اشتہار ہوتا ہے جیسے شیرنی ہرن کا ’’پٹھا‘‘ کھا رہی ہو۔ گھر کے لوگوں کو بسم اللہ پڑھ کر کھانا دینے کا سارا درجہ خواتین ہی کو حاصل ہے۔ جب گھروں میں یہ خواتین کھانا پکانے کے لئے نہ ہوں تو مرد تو بھوکے رہ جائیں۔ ان مردوں کو تو نہ کھانا پکانا آتا ہے نہ گھر چلانا۔
یہ ضرور یاد رکھییے کہ انبیاء کی غلامی یا ان کے نوکری میں شامل ہونے کے لئے چھوٹے کام کو ضرور اختیار کریں۔ اگر آپ ان کی نوکری چاہتے ہیں تو! کیونکہ انہوں نے یہ کام کئے ہیں۔ میرا منجھلا بیٹا جب ایف اے میں تھا تو کہنے لگا مجھے دو بکریاں لے دیں، پیغمبروں نے بکریاں چَرائی ہیں، میں بھی چراؤں گا، ہم نے اس کو بکریاں لے دیں، لیکن وہ پانچویں چھٹے دن روتا ہوا آ گیا اور کہنے لگا یہ تو بڑا مشکل کام ہے۔ میں ایک کو کھیت سے نکالتا ہوں تو دوسری بھاگ کر ادھر چلی جاتی ہے۔ پھر اس نے دونوں کے گلے میں رسی ڈال دی۔
میں نے باباجی سے پوچھا کہ انبیاء کو بکریاں چرانے کا حکم کیوں دیا جاتا تھا، تو بابا جی نے فرمایا کہ چونکہ آگے چل کر زندگی میں ان کو نہ ماننے والے لوگوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ ان کا کفار سے واسطہ پڑنا تھا۔ اس لئے ان کو بکریوں کے ذریعے سے سکھایا جاتا تھا، کیونکہ دنیا میں جانوروں میں نہ ماننے والا جانور بکری ہی ہے۔ اپنی مرضی کرتی ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ اب ہمارا کرکٹ کا موسم ہے، جو کہ ہمیشہ ہی رہتا ہے، اس پر غور کریں۔ میں تو اتنا اچھا watcher نہیں ہوں، لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ ہر بیٹسمین اپنے مضبوط ہاتھوں اور مضبوط کندھوں اور پر استقلال جمائے ہوئے قدموں، اپنے سارے وجود اور اپنے سارے Self کی طاقت کے ساتھ ہٹ نہیں لگاتا، بلکہ اس کے سر کی ایک چھوٹی سی جنبش ہوتی ہے، جو نظر بھی نہیں آتی۔ اس جنبش کے نہ آنے تک نہ چوکا لگتا ہے نہ چھکا۔ لگتا ہے جب وہ بیلنس میں آتی ہے، تب شارٹ لگتی ہے۔
سرکس کی خاتون جب تار پر چلتی ہے وہ بیلنس سے یہ سب کچھ کرتی ہے۔ میں ابھی جس راستے سے آیا ہوں، مجھے آدھ گھنٹہ کھڑا رہنا پڑا، کیونکہ ہماری بتی تو سبز تھی، لیکن دوسری طرف سے آنے والے ہمیں گزرنے نہیں دیتے تھے اور راستہ نہ دے کر کہہ رہے تھے کہ کر لو جو کرنا ہے، ہم تو اس ڈسپلن کو نہیں مانتے۔
یہ سوچ خطرناک ہے، بظاہر کچھ باتیں چھوٹی ہوتی ہیں، لیکن وہ نہایت اہم اور بڑی ہوتی ہیں۔ میں نے تھوڑے دن ہوئے ایک ٹیکسی ڈرائیور سے پوچھا (جیسا کہ میری عادت ہے ہر ایک سے پوچھتا رہتا ہوں، کیونکہ ہر ایک کا اپنا اپنا علم ہوتا ہے) کہ آپ کو سب سے زیادہ کرایہ کہاں سے ملتا ہے۔ اس نے کہا سر مجھے یہ تو یاد نہیں کہ کسی نے خوش ہو کر زیادہ کرایہ دیا ہو، البتہ یہ مجھے یاد ہے کہ میری زندگی میں کم سے کم کرایہ مجھے کب ملا اور کتنا ملا۔ میں نے کہا کتنا، کہنے لگا آٹھ آنے۔ میں نے کہا وہ کیسے؟ کہنے لگا جی بارش ہو رہی تھی یا ہو چکی تھی، میں لاہور میں نسبت روڈ پر کھڑا تھا، بارش سے جگہ جگہ پانی کے چھوٹے چھوٹے جوہڑ سے بنے ہوئے تھے تو ایک بڑی پیاری سی خاتون وہ اس پٹری سے دوسری پٹری پر جانا چاہتی تھی لیکن پانی کے باعث جا نہیں سکتی تھی۔ میری گاڑی درمیان میں کھڑی تھی، اس خاتون نے گاڑی کا ایک دروازہ کھولا اور دوسرے سے نکل کر اپنی مطلوبہ پٹری پر چلی گئی اور مجھے اٹھنی دے دی۔
ایسی باتیں ہوتی رہتی ہیں، مسکرانا سیکھنا چاہیئے اور اپنی زندگی کو اتنا ’’چیڑہ‘‘ (سخت) نہ بنا لیں کہ ہر وقت دانت ہی بھینچتے رہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ ڈسپلن کے راز کو پا لیں گے اور خود کو ڈھیلا چھوڑیں گے اور Relax رکھیں گے۔ اللہ آپ سب کو اور آپ کے عزیز واقارب کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ اللہ حافظ
اشفاق احمد کی کتاب زوایہ (2)سے اقتباس
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ نومبر 2024