چیونٹی ملکہ
)قسط نمبر(2
تحریر۔۔نعیم قریشی(M.A. Islamic Studies)
بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور اگست 2013
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹر نیشنل ۔۔۔چیونٹی ملکہ۔۔۔تحریر۔۔۔نعیم قریشی)چیونٹی کے سر پر انڈے دیتی ہے۔ ان انڈوں سے لاروا نکل کر چیونٹی کے دماغ کا رخ کرتا ہے اور وہ مر جاتی ہے۔ ان کی بستی میں چھ چھ میٹر گہری گیلریاں ہوتی ہیں اس بستی کی تعمیر میں یہ چیونٹی پینتالیس ٹن مٹی کھود نکالتی ہے۔
مزدور چیونٹیاں: مزدور چیونٹیاں غلہ جمع کرتی ہیں اور ان کو خانوں میں ذخیرہ کرتی رہتی ہیں جو ضرورت پڑنے پر استعمال میں لایا جاتا ہے ۔ مزدور چیونٹیاں اتنی محنتی ہوتی ہیں کہ بعض اوقات اپنے جسم سے دس گنا وزن اٹھا کر لے جاتی ہیں۔
انجینئر چیونٹیاں: انجینئر چیونٹیاں اپنی ہنر مندی کے اعلیٰ نمونے پیش کرتی ہیں یہ ایک بڑا سا کمرہ بناتی ہیں جو شاہی محل کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔ یہ کمرہ انتہائی صاف ستھرا رکھا جاتا ہے اس میں ملکہ قیام کرتی ہے ۔ مزدور اور کارکن دونوں ملکہ کی خدمت گزاری میں مصروف رہتےہیں اور شاہی محل گیلریوں کے ذریعے ہر طرف سے ملا ہوتا ہے۔ ان گیلریوں میں جگہ جگہ عام خانے ہوتے ہیں جن ہے میں یا تو غذا کا ذخیرہ ہوتا ہے یا مزدور کارکن رہتے ہیں۔ یہ چیونٹیاں چھوٹے چھوٹے ٹیلے زیر زمین گھروندوں پر بطور چھت بناتی ہیں ۔ یہ ٹیلے صنوبر کی سوئی نما پتوں اور چھوٹی چھوٹی شاخوں سے بنائے جاتے ہیں ۔ 2 میٹر تک بلند ٹیلے بھی دیکھنے میں آئے ہیں۔ ان کا قلعہ اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ اس پر پانی کا کوئی اثر نہیں ہوتا اور شدید تپش بھی اس پر اثر انداز نہیں ہوتی ۔
درزی چیونٹیاں: چیونٹیوں میں ماہر درزی بھی ہوتی ہیں ۔ یہ زیادہ تر جنگلوں میں رہتی ہیں اور درختوں پر بسیرا کرتی ہیں۔ ان کے کارکن بڑی مہارت سے پتوں کا Cocoon بنا کر انڈوں سے نکلنے والے چھوٹے کیڑے ( لاروے ) ان میں حفاظت سے رکھ دیتی ہیں اور اس طرح یہ پرندوں کے حملوں سے محفوظ رہتی ہیں۔ یہ چیونٹیاں سینے پرونے میں اس قدر ماہر ہوتی ہیں کہ ان کی جوڑی ہوئی کوئی چیز ایسی معلوم ہوتی ہے کہ کسی ماہر درزی نے سلائی کی ہو۔ درختوں پر رہنے والی یہ چیونٹیاں اپنے گھروندے چتوں سے بناتی ہیں۔ جب نئے گھروندے کی ضرورت ہوتی ہے تو چیونٹیاں شاخوں پر ایسی جگہ تلاش کرتی ہیں جہاں پر پتوں کو بآسانی ملایا جاسکتا ہو۔ پتوں کو باہم ملانے کے لئے یہ پتوں کو کھینچتی ہیں۔ دونوں پتوں کے کناروں پر چھٹی ہوئی چیونٹیوں سے اور دوسری چیونٹیاں لٹک جاتی ہیں اور ایک زندہ پل بنایا جاتا ہے۔ پھر اس پل میں شامل کچھ چیونٹیاں اپنی ساتھیوں پر چڑھنا شروع کر دیتی ہیں ۔ اس طرح زنجیری پل چھوٹا ہوتا چلا جاتا ہے اور پتوں کے کنارے ایک دوسرے کے قریب آجاتے ہیں۔ کچھ چیونٹیاں ان پتوں کو جبڑوں اور ٹانگوں سے پکڑے سے رکھتی رکھ ہیں اور کچھ پرانی بستی میں جا کر لاروے لاتی ہیں جنہیں اسی مقصد کے لئے تیار کیا گیا تھا۔ لاروے کے منہ کے نیچے ایک سوراخ ہوتا ہے جہاں سے ریشم نکلتا ہے۔ لاروے کے منہ کو پتوں کے جڑے ہوئے کناروں پر ملایا جاتا ہے ۔ یوں نکلنے والے ریشم سے درزی چیونٹیاں پتوں کے کناروں کو جوڑ دیتی ہیں۔
بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور اگست 2013