Daily Roshni News

ڈاکٹر ایس کے بٹ بتاتی ہیں کہ

ڈاکٹر ایس کے بٹ بتاتی ہیں کہ

ہالینڈ(ڈیلی  روشنی نیوز انٹرنیشنل )میری عالمانہ و عاملانہ زندگی میں یہ تیسری موت تھی جس کا سبب جنات تھے اور یہ موت اتنی اذیت ناک تھی کہ لاش کے ناخن تک نیلے پڑ گئیے تھے

جسم پر جگہ جگہ ایسے نشانات پائے جا رہے تھے جو ظاہر کرتے تھے کہ گزرنے والے کے آخری سانسیں لیتے وقت کتنے اذیت ناک لمحے  تھے مجھے اس جوان بچی کی موت کا اتنا صدمہ تھا کہ میں چاہ کر بھی کچھ نہیں کر پائی تھی۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر صاحبہ بتاتی ہیں کہ یہ گزشتہ رمضان کا واقعہ ہے میں رمضان کے آخری ایام میں اعتکاف بیٹھی ہوئی تھی کہ میرے بچوں نے مجھے بتایا میرے استاد محترم کی کال آ رہی ہے میں نے جواباً کہا کہ أپ ان کو بتا دیں میں اعتکاف میں ھوں بچوں نے میرا پیغام میرے استاد محترم تک پہنچا دیا مگر فوراً مجھے استاد محترم کی طرف سے حکم ہوا کہ بات کرنا ضروری ہے کسی کی زندگی کا سوال ہے ۔۔۔۔۔

میں نے یہ سوچتے ھوئے بات کر لی کہ کسی ایک انسان کی جان بچانا پوری انسانیت کی جان بچانے کا اجر رکھتی ہے میرے استاد محترم نے اپنے کسی کولیگ کا ذکر کرتے ھوئے بتایا کہ ان کی بیٹی کو جنات کا سایہ ہے وہ بچی انتہائی تکلیف میں ہے جیسے بھی ممکن ہے ہو ان کی مدد کرو میں نے استاد محترم کی بات مکمل ھونے کے بعد جواب دیا کہ أپ بچی کی والدہ سے کہیں کہ مجھے بچی کی تصاویر وغیرہ بھجوا دیں میں کوشس کرتی ہوں میری بات مکمل ہونے کے بعد کال بند ھو گئی اور میں اپنی عبادات میں مشغول ھو گئی کچھ ہی دیر بعد مجھے اس لڑکی کی تصاویر موصول ھو گئی تھیں جنہیں دیکھنے کے بعد میں نے اپنے نوری علم سے حساب لگا لیا تھا بچی کس قدر اذیت میں ہے اس پر جنات کس قدر غالب آ چکے ہیں

خیر میں نے بچی کی والدہ سے ساری تفصیلات ڈسکس کیں اور ساتھ ہی ان کو پہلی فرصت میں اپنی بچی میرے گھر لے کر آ جانے کے لئیے کہا ساتھ ہی ان کو کچھ تعویزات لکھ کر دئیے جن میں سے کچھ جلانے کے لئیے تھے کچھ گھر میں لٹکانے کے لئیے تھے اور کچھ گھول کر پلانے کے لئیے تھے

اپنے اس عمل سے فارغ ہونے کے بعد میں اپنی عبادات میں مشغول ہو گئی مجھے کچھ دیر بعد بچی کی والدہ کا پیغام دوبارہ موصول ہو گیا کہ اس کی طبعیت بہتر ہے شام کو پھر مجھے پیغام ملا کہ بچی کی حالت بہت بہتر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات گئیے پھر مجھے اچانک اطلاع پہنچائی گئی کہ لڑکی کی  طبعیت بہت خراب ہے میں نے لڑکی کے لئیے پڑھائی شروع کر دی ساتھ ہی اسی تکلیف کی حالت میں میں نے بچی کی تصاویر  بھیجنے کا کہا تو مجھے تصاویر کی بجائے بچی کی ویڈیوز بھیج دی گئی تھیں میں نے دیکھتے ہی اندازہ لگا لیا بچی کی تکالیف میری سوچ سے کہیں زیادہ ہیں اور اس کے گھر والے  میرے بتائے گئے ورد کو نہیں کر رہے ہیں میں نے بچی کو فی الفور اپنے پاس لانے کا کہا اور ساتھ ہی بتایا کہ بچی کی حالت انتہائی نازک ہے کسی بھی ہنگامی صورتحال کے لئیے ذہنی طور پر تیار رہیں

بچی کا تعلق پٹھان فیملی سے تھا وہ شادی شدہ تھی سواپ کی رہائشی تھی اور دو معصوم بچوں کی ماں تھی وہ چاہ کر بھی بچوں کو سینے نہیں لگا پاتی تھی کیونکہ اسے جنات ایسا نہیں کرنے دیتے تھے تھک ہار کر وہ اپنی بے بسی پر رو دیتی تھی ۔۔۔۔۔

میں نے بچی کی والدہ سے کہا کہ وہ بچی کو لے کر جلد از جلد میرے پاس پہنچیں تو اس نے اپنے شوہر سے بات کی مگر ان کو سسرال سے اجازت نہ ملی پٹھانوں کی روایتی غیرت آڑے آ گئی  یہاں تک مجھے أج بھی یاد ہے وہ چھبیسواں روزہ تھا جب بچی کی انتہائی تکلیف دہ حالت کا مجھ سے ذکر کیا گیا میں نے فوراً سے بچی کا حساب کتاب لگا کر بتا دیا کہ اس کا خون جل کر خشک ہو چکا ہے جسم میں پانی کی کمی ہو چکی ہے أپ یہاں نہیں لا سکتے تو بچی کو ہسپتال لازمی لے جائیں

مجھے اچھی طرح یاد ہے وہ جمعرات کی رات تھی بچی کے گھر والوں نے اسے صبح یعنی بروز جمعہ ہسپتال لے جانے کا وعدہ کیا مگر میرے علم کے مطابق بچی کو اس وقت کسی نوری عامل کی یا ایک بہترین ڈاکٹر کی سخت ضرورت تھی میرے کہنے پر انہوں نے بتایا کہ قرب و جوار بلکہ آس پاس کے اضلاع کے تمام عاملوں نے کوشش کر لی ہے مگر کوئی بہتر نتیجہ نہیں نکلا ۔۔۔۔۔۔

جب مجھے کوئی سبیل نظر نہ آئی تو میں نےاس فیملی کو صاف صاف بتا دیا کہ أپ کی بچی کے پاس وقت تھوڑا ہے اگر وہ جمعے کا دن نکال جاتی ہے تو ان شاء اللہ وہ بچ جائے گی نہیں تو بصورت دیگر جو اللہ تعالیٰ کو منظور ہوا ۔۔۔

میری بات سن کر ان کی فیملی سخت تفکر میں نظر آنے لگی مگر اس کے باوجود بچی کو میرے پاس نہ لایا گیا یہاں تک کہہ بچی اپنے گھر میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر گئی اس کے دو معصوم بچے دنیا میں رہ گئے میری محنت رائیگاں چلی گیی میں چاہ کر بھی ان دو معصوم بچوں کے لئیے ان کی ماں اور ممتا کو بچا نہ سکی اس میں سب سے زیادہ قصوار ان بچوں کے نانا ابو اور مر جانے والی لڑکی کے والد صاحب تھے جو اپنی اولاد کی موت سے پہلے میری بات کا یقین کرنے کے لئیے تیار نہ تھے ۔۔۔۔۔

بیٹی کو اذیت ناک اور عبرت ناک موت مل جانے  کے بعد ڈاکٹر صاحب نے مجھے گھر أنے کی دعوت دی اور میں اپنے استاد محترم سے اجازت لے کر وہاں گئی جاتے ہی پہلی نظر میں ہی مجھے پتہ چل گیا کہ اس گھر کے چپے چپے پر جنات قابض ہیں ایک کمرے میں میرے بھیجے گئیے تعویزات لٹکائے گئیے تھے چھت پر بھی ایسی ہی حالت تھی وہ خوبصورت پہاڑوں پر ویرانے میں بنا ہوا گھر تھا ایسے علاقہ جات ویسے ہی جنات کے بہترین مسکن ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔

خیر میں لمبے سفر کے بعد وہاں پہنچی تھی میں نے کچھ دیر کے لئیے أرام کیا اور جب اٹھی تو سارے گھر میں گھوم پھر کر نقطہ أغاز کا مقام ڈھونڈ لیا اور الحمدللہ شدید تر تکلیف اور اذیت سے گزرنے کے بعد اپنی اور اپنی اولاد کی جان خطرے میں ڈالنے کے بعد اپنے نوری علم سے جنات پر قابو پا کر ان کو گھر سے بیدخل کر دیا

اس کے بعد ان کے گھر کو کیل کر دیا گیا تاکہ أئندہ کوئی شرار گھر میں داخل نہ ہو سکے اس کے بعد جن فیملی ممبران پر جنات کا سایہ تھا ان کے علاج کا مرحلہ أیا

باقی سب کے مسئلے تو تھوڑی تگ و دو کے بعد حل ھو گئیے مگر ایک معصوم بچی جس کو جنات اگلی میت بنانا چاہتے تھے اس کو بچانےکے لییے بہت محنت کرنا پڑی

میں جوں جوں ورد کرتی جاتی توں توں تکلیف بڑھتی جاتی یہاں تک مجھے کئی بار عمل بیچ راہ چھوڑنا پڑا أخر کار فیصلہ ہوا کہ سوئی ھوئی بچی پر کلام شریف پڑھا جائے

یوں جب بچی گہری نیند میں تھی تو مخصوص ورد وظائف کے ذریعے اس پر قابض جنات کو ہمیشہ کے لئیے دفع کر کے میں سرخرو ھہ گئی فیملی کی خوشی کی انتہا نہ رہی مجھے وہاں ان  کے رشتہ داروں کی طرف سے دعوت نامے موصول ھوئے میں کسی دعوت پر تو نہ جا سکی  البتہ تمام پر بیمار لوگ کا علاج معالجہ ضرور کر دیا اور وہاں سے ہزاروں لاکھوں دعائیں سمیٹ کر واپس آ گئی ۔۔۔۔

اختتام

Loading