Daily Roshni News

ڈپریشن ختم نہیں ہوتی، یہ کیا ہوتی ہے اور کیوں ہوتی ہے؟۔۔۔حضرت واصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ

سوال:- مجھے یہ مسئلہ رہتا ہے کہ ڈپریشن ختم نہیں ہوتی، یہ کیا ہوتی ہے اور کیوں ہوتی ہے؟

حضرت واصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ حضرت واصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ)جواب:-دیکھو یہ مسئلہ  Practical  ہے کہ ڈپریشن کیوں ہوتی ہے اور کیسے ہوتی ہے  – ڈپریشن کی سادہ سی تعریف یہ ہے کہ ڈپریشن انسان کو اس وقت ہوتی ہے جب وہ چاہتا کچھ اور ہے اور اسے ملتا کچھ اور ہے، اور جو اسے ملتا ہے اس کو وہ پسند نہیں کرتا  – تو دو چیزیں ہوتی ہیں جو ڈپریشن کا باعث بنتی ہیں  ، ایک تو یہ ہے کہ پسند نہ ملے اور دوسری یہ کہ ناپسند مل جائے یعنی وہ جو چاہا وہ نہ ملا اور جو ملا، وہ پسند نہیں ہے  – تو ڈپریشن کا معنی یہ ہے کہ یہ تقدیر  ، نصیب  ، یا حاصل اور خواہش کے درمیان فاصلے کا نام ہے  – اور جب ڈپریشن کی عادت بن جائے اور اس کا تجربہ ہو جائے تو پھر ہوا تیز چلے  ، تب بھی ڈپریشن ہوتی ہے اور بند ہو جائے، تب بھی ڈپریشن ہوتی ہے  ، بارش ہو تب بھی ڈپریشن ہوتی ہے اور بارش نہ ہو تب بھی ڈپریشن ہوتی ہے، شادی خوشی پہ ڈپریشن ہوتی ہے، غمی پہ ڈپریشن ہوتی ہے اور پھر بندے کا نام ہی ڈپریشن ہو جاتا ہے  – یعنی  Depressed Feelings  والے کو  Depression  کہتے ہیں  – تو کسی پسند کا چھن جانا  ، ڈپریشن کا باعث ہے اور کسی ناپسند کا زبردستی مل جانا کہ اب یہ کرنا ہی پڑے گا  ، یہ ڈپریشن کا باعث ہے  – جب ڈپریشن کا باعث صحیح ہو جانے کے بعد بھی انسان کو ڈپریشن سے نجات نہ ملے یا پسند والا واقعہ حاصل نہ ہو  ، اور ناپسند والے سے نجات نہ ہو  ، تو ڈپریشن  Permanent Stay  کر جاتی ہے  ، مستقل ہو جاتی ہے اور اس کی Roots  پیدا ہو جاتی ہیں  –  یہ بھی ایک بیماری ہے  – جب اس کی Roots  یا جڑیں پیدا ہو جائیں  ، جب یہ گہری ہو جائیں تو پھر ہر شے ہی ڈپریشن ہے پھر انسان کہتا ہے کہ

                    کچھ ایسا حادثہ گزرا ہے دل پر

                    ہزاروں  حادثے  یاد  آ  گئے  ہیں

یعنی ہر ہونے والا واقعہ  ، ہر گزر چکنے والے واقعہ کے پاس جا پہنچتا ہے  – پھر انسان کو روئے ہوئے پر پھر سے رونا پڑتا ہے  – یعنی جس پر آپ ایک بار رو چکے ہو  ،  Already  رو چکے ہو  ، ماتم کر چکے ہو  ، اس کو دفن کر چکے ہو  ، وہ مدفون دوبارہ ظاہر ہونا شروع ہو جاتا ہے  –  یہ ہے ڈپریشن  ، پھر وہی پرانی کیفیت آ جاتی ہے  – اگر ناپسند حاصل ہو جائے تو انسان پکار اٹھتا ہے کہ نجات چاہیے  ، بعد میں وہ کہتا ہے کہ بس سب سے نجات چاہیے  ، کیونکہ اب وہ اپنے آپ سے تنگ آ چکا ہے  –  یہ ہے ڈپریشن اور پھر ڈپریشن جہاں ایک بار جگہ بنا لے  ، کہتے ہیں پھر وہ جگہ نہیں چھوڑتی الا یہ کہ رحمت کا کوئی واقعہ کہیں سے آ جائے  ، کوئی بچانے والا آ جائے  ، کوئی رحمت کا بگولہ آ جائے اور آپ کو اڑا کر لے جائے یا رحمت کا کوئی سیلاب آ جائے جو پرانی بنیاد ہی ہلا دے  ، پھر غم بھی چلا جاتا ہے  ، مشکل والی کتاب بھی چلی جاتی ہے  ، عمارت بھی چلی جاتی ہے بلکہ عمارت والا بندہ بھی چلا جاتا ہے  ، پھر نہ وہ دن رہے  ، نہ غم رہا ، نہ غم والے رہے  ، نہ غم ساز رہے اور نہ غم باز رہے یعنی کہ کوئی بھی نہ رہا اور ہر شے ہی چلی گئ  – ڈپریشن کی ایک  Physical Ailment  بھی ہے یعنی ایک Physical cause ہے جس کا Physique  سے تعلق ہے  – جو شخص Over work  کرتا ہے  ، بہت زیادہ محنت کرتا ہے  ، دفتر کے بعد بھی بیٹھتا ہے تو وہ تھک جاتا ہے اور پھر پریشان ہو جاتا ہے کیونکہ جسم ساتھ نہیں دیتا  – وہ پھر پریشان ہوتے ہوتے  ، پہلے صحت کھوتا ہے اور پھر جسمانی بیماری  Mental  بیماری بن جاتی ہے  – اور یہ Mental  یعنی دماغی دقت جو ہے ڈپریشن بن جاتی ہے  – اصل میں صحت اس وقت ساتھ نہیں دیتی جب انسان  Outing  کرنا چھوڑ دے اور زندگی کے واقعات سے لا تعلق رہنا شروع کر دے  – مثلا کبھی پہاڑوں پہ آپ جاتے ہیں  ، Hiking  کرتے تھے اور پہاڑوں پر بھاگے دوڑے  ، بادلوں کی طرح پھرتے تھے اور ایک زمانہ آ گیا کہ پہاڑ دیکھ کے وحشت ہو جاتی ہے  – یہ دقت کی بات ہے  – اس کو ڈپریشن بولتے ہیں  – بعض اوقات ہم ساری عمر بھاگتے رہتے ہیں اور خاص طور پر قبرستان سے بھاگ جاتے ہیں  – اور اگر اپنے ہاتھوں سے کچھ پیاروں کو قبرستانوں میں اتارا جائے تو پھر قبرستان بھی پیارے لگنے شروع ہو جاتے ہیں کیونکہ اب قبرستان سے تعارف ہو جاتا ہے  – جب پتہ چل جائے کہ زندگی موت کی طرف جا رہی ہے تو پھر ڈپریشن ہی ڈپریشن ہے اور پھر یہ ساری زندگی ڈپریشن بن جاتی ہے  – “وہ جن کے بغیر زندگی میں گزر نہیں ہوتا تھا اب ساری عمر ان کے بغیر گزر کرنا پڑ جائے گی ” جب یہ خیال آ جائے کہ اس کے بغیر گزر کرنا پڑ جائے گا  ، تو یہ ڈپریشن Permanent  ہو گی، مستقل ہو گی  – اگر کوئی سے دو شخص ہوں اور آپ ان کو پانچ گھنٹے کے لئے  Detain  کر لیں  ، ان میں سے ایک شخص کو کہیں کہ تمہیں پانچ گھنٹے کے بعد چھوڑ دیا جائے گا اور دوسرے کو کہیں کہ تمہیں  Release  کرنے کا ابھی پتہ نہیں ہے  – تو جس کو پتہ ہو گا کہ پانچ گھنٹے کے بعد رہا ہو جانا ہے  ، وہ اگر چھے گھنٹے بھی قید میں رہے تو اسے کچھ نہیں ہو گا  – اور جسے یہ معلوم نہیں کہ کب رہا ہونا  ، وہ پانچ گھنٹے سے پہلے ہی مر جائے گا  – حالانکہ دونوں کے پانچ پانچ گھنٹے ہیں لیکن جس کے پاس  Hope  نہیں یا امید قائم نہیں  ، وہ مر جائے گا  – کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ سزا تھوڑی دیر کی ہے لیکن امید قائم نہیں رہتی  ، ایسی صورت میں ڈپریشن پیدا ہو جائے گی  – اور کبھی کبھی یہ ہوتا ہے کہ امید قائم رہتی ہے کہ ایک دن بھلا زمانہ آئے گا کیونکہ کوئی بھی بات ہمیشہ نہیں رہے گی امید کا قائم رہنا زندہ رکھتا ہے  – میاں محمد بخش رحمتہ اللہ علیہ صاحب نے ایک شعر کہا ہے کہ

       کی ہویا جے میں قیدی ہویا تے سدا نہ قیدی رہناں

       اک  دن داتا مہر کریسی تے  رل سنگتاں دے بہناں

یعنی کیا ہوا کہ اگر میں قید ہو گیا ہوں لیکن سدا قید میں نہ رہوں گا کیونکہ ایک دن اللہ کی مہربانی سے پھر سے دوستوں میں جا ملوں گا  –  A time  will come when I will be out of it  ایک وقت ایسا آئے گا جب میں اس سے نکل جاوءں گا  – تو اگر Hope  ختم ہو جائے تو چھوٹی بات بھی گوارا نہیں ہوتی  –  ڈپریشن کا سب سے بڑا Cause  جو ہے وہ  Hopelessness  یعنی نا امیدی ہے  – اس کو  Pessimism  یا قنوطیت بھی کہتے ہیں  – جس شخص کو کسی پر بھروسہ نہ ہو  ، بلکہ اپنے نصیب پر بھی بھروسہ نہ ہو  ، وہ آدمی ڈپریشن کا شکار ہو جائے جاتا ہے ایسا آدمی زندگی میں مختلف مقامات پر Hope  یا امید ختم کرتا جاتا ہے اور ناامیدی پھیلاتا رہتا ہے  – اللہ نے بار بار کہا ہے کہ میری رحمت سے مایوس نہ ہونا  – تو مایوسی جو ہے ڈپریشن کا ایک Major cause  یعنی بڑا سبب ہے – مایوسی کیا ہوتی ہے؟ کہ انسان کے ذہن میں Hope  ہی ختم ہو جائے  ، امید کا چراغ گل ہو جائے  – اس لیے آپ  Hope  کو ضائع نہ ہونے دینا  – Hope کو واضح کرنے کے لئے بتایا گیا ہے کہ جہاں سب راستے ختم ہو جائیں  ، وہاں سے راستہ نکلتا ہے اور جب اندھیرا گہرا ہو جائے تو وہاں سے روشنی پیدا ہوتی ہے  – کوئی رات دنیا میں ایسی نہیں آئی جس کے بعد دن نہ آیا ہو ______

گفتگو 5__ صفحات نمبر _23242526_27

حضرت واصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ

Loading