Daily Roshni News

“ڈپریشن دراصل اور کچھ نہیں بس ‘ایمان کی کمزوری’ کی نشانی ہے “

“ڈپریشن دراصل اور کچھ نہیں بس ‘ایمان کی کمزوری’ کی نشانی ہے “

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ) “ڈپریشن دراصل اور کچھ نہیں بس ‘ایمان کی کمزوری’ کی نشانی ہے ” یہ وہ جملہ تھا جس نے دل و دماغ میں غدر مچا دیا. سارا وقت دماغ میں “ایمان کی کمزوری” ہی کنڈلی مارے بیٹھا رہا. کچھ لفظ کیسے وجود ہلا دینے والے ہوتے ہیں ناں؟ دل کیا، اس کمنٹ کا جواب دوں کہ لوگو۔۔۔! ہتھ ہولا رکھا کرو. اتنے بڑے بڑے جملے، اتنے سفاک؟ جس چیز سے کبھی گزرے نہ ہوں اسکے بارے میں اتنے بڑے بڑے جملے نہیں بولا کرتے.

جانے ان” کمزور ایمان”والوں میں سے کتنے ہوں گے جنہوں نے ڈپریشن کی انتہاؤں میں کہ جب لفظ بھی گم ہو جاتے ہوں گے، کہ جب چند لفظ بولنے پر بھی تھکن سے ہانپتے ہوں گے، انکی خالی آنکھوں نے حسرت سے آسمان کو کتنے لمحے تکا ہو گا. اللہ آپ تو سب جانتے ہیں ناں. ان خالی آنکھوں کے سوال اللہ نے دیکھے ہوں گے.

کتنے ہی ہوں گے، جہنوں نے کئی کئی گھنٹے سجدے کی حالت میں گزارے ہوں گے. اللہ سے مدد مانگتے ہوئے، اللہ مجھے بھی ان اندھیروں سے نکال جس طرح تو نے اپنے نبی یونسؑ کو مچھلی کے پیٹ سے نکالا. مجھے بچا لے. سکینت دے دے، کی گردان کرتے ہوئے.

اور آپ کو کیا پتہ انہیں میں سے کسی “کمزور ایمان” والے نے استغفار، آیت کریمہ کی تسبیحات سانسوں کے آنے جانے کی طرح کی ہوں گی. ہر پینک اٹیک پر جائے نماز کی طرف لپکتا ہو گا، اللہ کے سامنے کھڑا ہونے کے لیے. کئی کئی گھنٹے قرآن کی تلاوت کی ہو گی، دل کی ویرانی ختم کرنے کے لیے. کئی کئی دن مسلسل آنسوؤں سے اللہ سے فریاد کی ہو گی کہ بس آپ میرے سے نظر مت ہٹائیے گا. بس میرے ساتھ رہیے گا. اپنے ہونے کا احساس بس رکھئیے گا.

اللہ کو اسکا امتحان شائد اس طرح ہی مقصود ہو گا. اس امتحان کی وجہ سے ہی سہی، اللہ کو اسکا یوں بھاگ بھاگ کے اپنی طرف آنا جانے کتنا پسند ہو گا. چاہے رونے کے لئیے ہی سہی.

وہ اگر غلطی سے کبھی کسی کو کچھ بتا بھی بیٹھے. اس آس میں کہ شائد کوئی “سننے” والا مل جائے تو اسکو آپکا طنزیہ اور افسوس بھرے انداز میں کیا جانے والا سوال کہ “ابھی تک اس غم سے نہیں نکلے۔۔۔۔؟؟؟ اس بیماری سے نہیں نکل سکے۔۔۔؟؟؟” کتنے ہی خولوں میں سمیٹ جاتا ہو گا. اور اگلی دفعہ آپ سے تو کیا، کسی سے بھی کچھ کہنے کی ہمت نہیں پائے گا کہ آپ تو فٹ فتوٰی جڑ دیں گے: ” اصل میں تم خود ہی اس بیماری سے نہیں نکلنا چاہتے”

اور بہت سوں کو تو پھر مر جانا آسان لگتا ہو گا. ایک تو درد کی انتہائیں. اور اوپر سے کوئی ہاتھ بڑھا کر مدد کرنے والا بھی جب دور دور تک کوئی نہ دِکھے.

کیا کبھی آپ نے کسی کینسر کے مریض سے کہا کہ تم اس لئیے اس بیماری سے نہیں نکل پا ریے کہ اصل میں تم خود ہی ٹھیک ہونا نہیں چاہتے؟ تمہارا تو دراصل ایمان ہی کمزور ہے. جن کا ایمان اللہ پہ مضبوط ہو وہ کینسر میں مبتلا نہیں ہوتے وغیرہ وغیرہ

تو میرے پیارے لوگو۔۔۔۔!!!

یقین کیجئیے.

جسطرح ہر تالے کی چابی الگ ہوتی ہے، اسطرح ہر دل الگ ہوتا ہے. اور ہر دل کو آزمانے کے، امتحان لینے کے اللہ کے طریقے الگ، ہر ایک کا پرچہ الگ.

ایمان کی کمزوری، ناشکراپن، اور اللہ سے دوری کا ٹیگ لگانے سے پہلے بس یہ دیکھ لیا کریں کہ اردگرد ماحول کتنا اور کس حد تک غیر فطری ہے. جب کبھی آپ کے نظامِ تعلیم نے غم کو برتنے کا، ٹراما سے گزرنے کا طریقہ ہی نہ سکھایا ہو. جہاں اداسی، ڈپریشن ، غم اور اینگزائٹی جیسے ایموشنز پر جی بھر کر شرمندہ کیا جاتا ہو، وہاں انسانوں کا مینٹل ہیلتھ ایشوز کا شکار ہو جانا کوئی ایسی انہونی بات تو نہیں.

اور پھر جب انسان خود ہی اس دلدل سے نکلنے کا طریقہ ڈھونڈ رہا ہو تو، کچھ وقت تو لگتا ہے ناں. غم کی سائیکولوجی سمجھنے میں، اپنے تالے کی چابی ڈھونڈنے میں. کہ ایک ہی طریقہ، ایک ہی چابی ہر کسی کے لئیے نہیں ہوتی. اور کون جانے چابی مل جانے پہ یہی ٹوٹا ہوا تارا ماہ کامل بن جائے؟

جو تکلیف آپکو کبھی نہیں آئی اسکا یہ مطلب نہیں کہ وہ اس دنیا میں وجود ہی نہیں رکھتی. غم کی شدتوں میں دل فارغ، بالکل خالی بھی ہو جاتا ہے.

یہ تو قرآن بھی ہمیں بتاتا ہے.

 وہ یعقوبؑ کا اپنے حزن کی کہانیاں اللہ کو سنانا. تکلیف کی شدتوں میں حضرت آسیہؓ کا اللہ کے پاس، بہت پاس، جنت میں امن والے گھر کا سوال کرنا.حضرت ایوبؑ کا اللہ سے اپنی تکلیف کا حال کہنا. وہ ام سلمہؓ کا مکہ حجرت کے وقت بیٹے کا چھین لیا جانا اور ایک لمبے عرصے تک انکا روزانہ مدینہ میں مکہ سے آنے والے راستے کو بیٹھ کر تکتے رہنا اور رونا یہاں تک کہ بیٹا واپس مل گیا. ان ہستیوں کو اللہ نے کبھی انکے ایموشنز کی وجہ سے شرمندہ نہیں کیا.

ہمارے رب نے تو کچھ بھی بے وجہ نہیں بنایا. موجودہ حالات میں اتنے لوگوں کا ڈپریشن اور اینگزائٹی ,کا شکار ہوتے جانا. بتاتا تو ہے کہیں کچھ بہت بری طرح غلط ہے جس کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے.

اور کیا پتہ انہیں لوگوں میں سے کوئی “چن” لیا جائے. غلط کو ٹھیک کرنے کے لئیے. تو بس، اپنی طاقت کے مطابق گرے ہوؤں کو ہاتھ بڑھا کر تھامنے کا ہنر سیکھنا شروع کر دیں. زخموں پہ مرہم لگانے کا ہنر. مرہم پٹی کرنے کا ہنر.

کسی ایک کو بچا لیں مضبوط ایمان والو، شائد یہی حجت بن جائے.

ڈاکٹر جویریہ سعید نے اپنے سیمینار میں حدیث ” جس نے ایک انسان کی جان بچائی اس نے گویا پوری انسانیت کو بچایا” کا بہت ہی منفرد اور الگ اینگل سے مطلب سمجھایا کہ اپنے درد کو ختم کرنے کے لئیے خودکشی کے لئیے تیار شخص کو بچا لینا، کسی کو سن لینا بغیر کوئی مشورہ یا فتوی دئیے، کسی کو اسکے ڈپریشن کی انتہاؤں پہ میسر آجانا، بار بار میسر آ جانا.

تو میرے پیارے لوگو۔۔۔۔!!!

Depression and anxiety is real, Very real. The pain is real. So stop shaming others for their emotions.

اللہ ہمیں مرہم پٹی کا ہنر سکھا دیں. آسانیاں پیدا کرنے والا بنا دیں. اللہ ہمیں بھی ایسا ہی بے غرض، اپنے بندوں کی مدد کرنے والا بنائیں.

نائلہ صادق

تصویر پنجاب انسٹیٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ کے میرے ایک کلائنٹ نے بنائی تھی

Loading