کائناتی اندھیرے
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )اندھیرا ایک بہُت ہی خوفناک چیز ہے
جو نڈر سے نڈر شخص کو بھی خوفزدہ کر سکتا ہے
مضبوط ترین اعصاب کو
بھی چٹخا سکتا ہے
اندھیرا انسان کے اندروہموں ، وسوسوں، خوف، گھبراہٹ
اور بوکھلاہٹ کو جنم دیتا ہے۔۔۔۔
جب مصنوعی روشنیاں ایجاد نہیں ہوئی تھیں دُنیا توہم پرستی کے گھیرے میں تھی
روشنیوں کی آمد کے ساتھ ہی توہم پرستی
بہُت محدود ہوگئی
مگر کیا آپ جانتے ہیں کہ
کائنات مجموعی طور پر ایک تاریک جگہ ہے۔ کھربوں ستاروں کے چمکنے کے باوجود یہ وسعتوں میں اتنی بے کنار ہے کہ روشنی کے تمام ذرائع مل کر بھی اس کی تاریکی کو شکست نہیں دے سکتے۔ یہ ستارے درحقیقت تاریک جنگل میں اڑتے ننھے جگنووں جیسے ہیں،
جیسے لاکھوں کروڑوں جگنو بھی مل کر جنگل کی گھنگھور اندھیری رات کونہیں ٹال سکتے
بالکل ویسے ہی کائنات میں کھربوں کی تعداد میں موجود ستارے بھی کائناتی اندھیروں کو ٹالنے سے قاصرنظر آتے ہیں۔۔۔۔
چمکتے دمکتے حرارتیں برساتے سورج کی
روشنی فاصلے کے ساتھ اپنا اثر کم کرتی جاتی ہے۔۔۔
صرف پلوٹو تک پہنچتے پہنچتے بہت مدھم ہوجاتی ہے۔ پلوٹو زمین سے تقریباً 40 گنا زیادہ فاصلے پر ہے، جہاں سورج کی روشنی تقریباً ایک زیرو واٹ بلب کی روشنی والا دھندلا ماحول بنا پاتی ہے۔۔۔۔
یہ روشنی زمین پر پڑنے والی دھوپ کے مقابلے میں تقریباً 1,600 گنا زیادہ کمزور ہوتی ہے۔
اور
نظامِ شمسی کے گرد موجود بادل نما ساخت (oort clouds) میں سورج ایک روشن نقطے جیسا لگنے لگتا ہے
یہ علاقہ برفانی اجسام، دُم دار ستاروں (comets)، اور پتھریلے ذرات پر مشتمل ہے۔ یہ سورج سے دور تقریباً 2,000 AU (Astronomical Units) سے لے کر 100,000 AU تک پھیلا ہوا ہے۔
یہاں سورج کی روشنی بہُت مدھم ہو جاتی ہے
وہاں مکمل اندھیرا تو نہیں ہوتا، کیونکہ وہاں پس منظر میں دوسرے ستارے اور کہکشائیں بھی چمک رہی ہوتی ہیں۔ لیکن سورج اور دیگر ستاروں کی مجموعی روشنی بھی بہت کمزور ہوتی ہے اور انسانی آنکھ کے لیے ہر طرف ایسی رات جیسا تجربہ ہوگا۔
جس میں ستاروں کی روشنی کی وجہ سے مکمل اندھیرا نہیں ہوتا
اگر آپ Oort Cloud میں کھڑے ہوں تو آپ کو سورج صرف ایک روشن ستارے کی طرح دکھائی دے گا، جیسے ہمیں زمین سے دوسرے ستارے نظر آتے ہیں۔۔۔۔
سورج کی ثقلی اجارہ داری تقریباً دو نوری سال تک ہے مگر اس کی روشنی ایک نوری سال سے بھی بہُت کم فاصلے پر بکھر کر اپنی طاقت کھو دیتی ہے
کہکشاؤں
(بشمول ملکی وے ) کے ستاروں کا اوسط فاصلہ تقریباً 5 نوری سال (Light Years) کے قریب ہے۔
یعنی آپ اگر برق رفتاری سے بھی کسی ستارے کی جانب سفر کریں تو زیادہ تر وقت اندھیرے میں گزاریں گے
کہکشاں سے نکلنے کے بعد یہ اندھیرے اور زیادہ خوفناک ہوجائیں گے کیونکہ
کہکشاؤں کا اوسط فاصلہ تقریباً 2 سے 3 ملین نوری سال کے درمیان ہوتا ہے۔
مثلاً لوکل گروپ (Local Group) کی دو بڑی کہکشاؤں ملکی وے اور اینڈرومیڈا کے درمیان فاصلہ تقریباً 2.5 ملین نوری سال ہے۔
یعنی ایک لائٹ سپیڈ اسپیس شپ پر سوار ہوکر آپ جب اینڈرومیڈا کی جانب سفر کرتے ہوئے ایک پچیس لاکھ سال لمبی رات میں وقت گزاریں گے۔۔
اندھیروں کی کہانی یہیں پر ختم نہیں ہوتی
بلکہ یہ تو اپنے کلائمکس کی جانب بڑھ رہی حس۔۔۔۔
بہت بڑے کاسمک پیمانے پر، یعنی سپر کلسٹرز کے بیچ فاصلہ لاکھوں سےکروڑوں نوری سال تک ہو سکتا ہے۔
یعنی وہاں اندھیرے کروڑوں نوری سال تک پھیلے ہیں
اور کائنات میں سب سے طویل خوفناک اندھیری اور ویران جگہیں cosmic voids ہیں
جہاں کروڑوں نوری سال تک روشنی کی ایک کرن تک دستیاب نہیں ہوتی
اندھیروں کے ان بحرِ ظلمت میں کوئزروں کی عظیم روشنیاں بھی دم توڑ جاتی ہیں
اب تک کا سب سے بڑا دریافت شدہ Cosmic Void:
جینٹ ووڈ “Giant Void” ہے، جس کی لمبائی تقریباً 1.3 ارب نوری سال (1.3 Billion Light Years) ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سچ بتاؤں تو
اندھیرا ہی اس کائنات کی اصل فطرت ہے۔ روشنی محض ایک عارضی واقعہ ہے جو کسی اور مرکز یا پھر ستارے کے دل سےنکلتی ہوئی حرارت کے ساتھ پیدا ہوتی ہے، لیکن وقت کے ساتھ وہ ستارہ بجھ جاتا ہے اور آخرکار تاریکی پھر غالب آ جاتی ہے۔۔۔۔
روشنی محدود ہے، اور کسی سورس کی محتاج ہے لیکن تاریکی لا محدود ہے اور کسی ذریعے کی محتاج نہیں، ایک ستارے کی روشنی لاکھوں نوری سالوں تک سفر کر سکتی ہے، لیکن جب وہ تھک کر بجھ جاتی ہے تو تاریکی ہمیشہ کے لیے اس کی جگہ لے لیتی ہے۔ کائنات کی وسعت میں روشنی کی یہ چھوٹی چھوٹی جھلکیاں ہمیں جینے کا سامان مہیا کرتی تو ہیں، مگر عارضی ہیں جن کا انجام صرف گھنگھور اور گھٹا ٹوپ تاریکی ہی ہے۔۔۔
سائنس کا کہنا ہے کہ اندھیرا بذات خود کچھ نہیں، روشنی کی غیر موجودگی کو اندھیرا کہتے ہیں
مگر کائناتی تناظر میں روشنی ایک عارضی چیز ہے اور اندھیرے ابدی حقیقت ہیں۔۔۔
ہم تاریکی سے دور بھاگنے والے اور روشنیوں
میں رہنے کی تگ و دو کرنے والے
اس اندھیاری حقیقت سے منہ تو
چھپا سکتے ہیں، آنکھ تو چرا سکتے ہیں
مگر اس سے اپنا دامن نہیں چھڑا سکتے
ایک دن۔۔۔۔
ان اندھیروں کی آغوش میں صرف ہم نے
ہی نہیں اس کائنات کے ہر ستارے سیارے، سیارچے اور ہر ذرے نے ڈوبنا ہے۔۔
پھر کبھی نہ ابھرنے کیلئے۔۔
مجھے ستارے بزبان شاعر یہ کہتے ہوئے
محسوس ہوتے ہیں
“ہمارا کیا ہے!!!
ہم تو چراغِ شب کی طرح
اگر جلے بھی تو بس اتنی روشنی ہو گی
کہ جیسے تند اندھیروں کی راہ میں جگنو
ذرا سی دیر کو چمکے،
چمک کے کھو جائے
پھر اس کے بعد
کسی کو نہ کچھ سجھائی دے۔
نہ شب کٹے نہ سراغِ سحر دکھائی دے۔….