Daily Roshni News

کاش میں نے..… انسان کے سب سے بڑے  پانچ پچھتاوے

کاش میں نے..… انسان کے سب سے بڑے  پانچ پچھتاوے

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز  ا نٹرنیشنل )کیا آپ نے کبھی سوچا ہے…

کہ جب انسان کی سانسیں آہستہ ہو جائیں، دل زندگی کے آخری دھڑکنوں کو گنے،

اور آنکھوں کے سامنے پوری زندگی فلم کی طرح چلنے لگے  تو اُس لمحے سب سے زیادہ دکھ کس بات کا ہوتا ہے؟

یہ کوئی ادبی خیال یا افسانوی منظر نہیں، بلکہ ایک حقیقت ہے. وہ حقیقت جس کا سامنا ہر اس انسان کو ہوتا ہے جو زندگی کی آخری دہلیز پر کھڑا ہوتا ہے۔

یہی سوال آسٹریلیا کی ایک نرس، بونی وئیر (Bonnie Ware) نے خود سے کیا۔ وہ کئی برسوں تک ایسے مریضوں کی دیکھ بھال کرتی رہیں جو زندگی کے آخری ایام گزار رہے تھے۔

ان لوگوں نے اپنے دل کے سب سے گہرے، چھپے ہوئے دکھ بونی سے بانٹے۔ وہ دکھ جو کبھی کسی کو نہ کہے گئے، وہ پچھتاوے جو ساری زندگی انسان کے اندر سلگتے رہے… اور آخر میں، زبان پر آ گئے۔

بونی وئیر نے ان تجربات کو ایک کتاب کی شکل دی:

“The Top Five Regrets of the Dying”

یہ صرف ایک کتاب نہیں  ایک آئینہ ہے، جو ہر زندہ انسان کو اپنی زندگی پر نظرِثانی کا موقع دیتا ہے۔

بونی کے مشاہدے بتاتے ہیں کہ مرنے والوں کو مال و دولت، شہرت یا کامیابی کا افسوس نہیں ہوتا  بلکہ دکھ ان باتوں کا ہوتا ہے جو دل نے چاہا مگر ہم نے دنیا کے ڈر سے چھوڑ دیا، جو کہہ سکتے تھے مگر چپ رہے، جنہیں وقت دے سکتے تھے مگر مصروف رہے، اور جن لمحات میں ہم خوش رہ سکتے تھے مگر ’کبھی اور‘ پر ٹال دیا۔

یہی وہ سچ ہیں جنہیں جان لینا، مان لینا، اور بدل دینا زندگی کا سب سے بڑا شعور ہے۔

آئیے جانتے ہیں کہ وہ کونسے پچھتاوے ہیں جو لوگوں کو ہوتے ہیں.

  1. کاش! میں نے دوسروں کی بجائے اپنی زندگی اپنی مرضی سے جی ہوتی۔

یہ وہ سب سے عام پچھتاوا تھا جس کا اظہار تقریباً ہر مریض نے کیا۔

ہم میں سے کتنے ہی لوگ ہیں جو “لوگ کیا کہیں گے” کے خوف میں اپنی پوری زندگی گزار دیتے ہیں؟

ہمارا کیریئر، ہماری شادی، ہمارے لباس، ہمارا طرزِ زندگی سب کچھ کسی اور کی توقعات پر مبنی ہوتا ہے۔

ہم اپنے خوابوں کا گلا گھونٹ کر، دوسروں کو خوش دیکھنے کی کوشش میں خود سے بیوفائی کر بیٹھتے ہیں۔

یاد رکھیں:

یہ زندگی آپ کی ہے۔

یہ تحفہ آپ کو اللہ نے دیا ہے، اور آپ ہی کو اختیار ہے کہ اسے کیسے گزارنا ہے۔

سماج کی آوازوں سے زیادہ اپنے اندر کی آواز کو سنیں. وہ سچ بولتی ہے، وہ آپ کی اصل ہے۔

  1. کاش! میں نے اتنی محنت نہ کی ہوتی۔

ہم ایک ایسی نسل بن چکے ہیں جو ہر صبح دفتر کے لیے جاگتی ہے،

اور ہر رات تھک کر بستر پر گرتی ہے — لیکن اندر سے خالی۔

بونی کے مطابق، زیادہ تر لوگ — خاص طور پر مرد جو ساری زندگی صرف کمائی اور کام میں الجھے رہے۔

اور تب جا کے، زندگی کے آخر میں انہیں احساس ہوا کہ انہوں نے اپنے بچوں کو بڑا ہوتے نہیں دیکھا، اپنے شریکِ حیات کو وقت نہیں دیا،

اور ان لمحات کو گنوا دیا جن میں صرف ہنسی، سکون، اور اپنائیت تھی۔

رزق کی تلاش بُری نہیں، لیکن اگر وہ آپ سے آپ کا آپ ہی چھین لے تو قیمت بہت زیادہ ہے۔

کام کے ساتھ زندگی بھی ضروری ہے اور زندگی وہ ہے جو دوسروں کے ساتھ گزارنے سے مکمل ہوتی ہے، نہ کہ فائلوں اور میٹنگز سے۔

  1. کاش! میں نے اپنے جذبات کا اظہار کرنے کی ہمت کی ہوتی۔

ہماری تربیت میں اکثر یہ سکھایا جاتا ہے کہ جذبات چھپانا ہی عظمت ہے۔

مرد کو رونا نہیں چاہیے، عورت کو شکایت نہیں کرنی چاہیے،اور رشتوں میں خاموشی کو برداشت کہا جاتا ہے۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ جو بات دل میں رہ جائے،وہ ناسور بن جاتی ہے اور جو جذبہ زبان تک نہ آئے، وہ رشتوں کو اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے۔

محبت ہے تو اظہار کریں، ناراضی ہے تو نرمی سے کہہ دیں،معافی مانگنی ہے تو دیر نہ کریں  کیونکہ جب وقت گزر جائے، تو نہ لفظ باقی رہتے ہیں، نہ موقع۔

  1. کاش! میں اپنے دوستوں سے رابطے میں رہتا۔

دوستی وہ رشتہ ہے جو اختیار سے بنتا ہے، اور دل سے جیتا جاتا ہے۔

ہم سب کی زندگی میں کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کے بغیر کبھی زندگی مکمل نہ لگتی تھی لیکن مصروفیات، فاصلے، اور وقت نے ہمیں الگ کر دیا۔

بونی نے بتایا کہ مرنے والوں کو ان دوستوں کی سب سے زیادہ یاد آئی جن سے وہ برسوں سے نہ ملے تھے۔

انہیں وہ ہنسی، وہ وقت، وہ بے فکری یاد آئی جو انہوں نے گنوا دی تھی۔

کیا آپ کے دل میں بھی کوئی ایسا دوست ہے جس سے سالوں سے بات نہیں ہوئی؟

تو آج ہی رابطہ کریں کیونکہ زندگی بہت مختصر ہے، لیکن ایک سچا دوست، ساری عمر کا سہارا ہوتا ہے۔

  1. کاش! میں نے خود کو خوش رہنے دیا ہوتا۔

یہ پچھتاوا سب سے زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے کیونکہ یہ اندر سے آتا ہے۔

ہم اکثر خوشی کو ایک منزل سمجھتے ہیں.

“جب نوکری ملے گی تو خوش ہوں گا”

“جب بچہ ہو جائے گا تو خوشی آئے گی”

“جب ریٹائر ہوں گا تب سکون ہو گا”

مگر وہ لمحہ کبھی آتا ہی نہیں…

بونی کے مطابق، لوگ ساری زندگی دوسروں کو خوش کرنے، رسم و رواج نبھانے، اور محفوظ رہنے کی دوڑ میں لگے رہے۔

اور اس چکر میں انہوں نے خود کو جینا ہی بھلا دیا۔

خوشی کوئی دکان کی چیز نہیں، یہ ایک فیصلہ ہے۔

فیصلہ کہ ہم ہر دن، ہر لمحہ، اور ہر حال میں شکر کے ساتھ جئیں۔

تو خود کو آج ہی اجازت دیں خوش ہونے کی، سانس لینے کی، اور جینے کی۔

دوستوں، زندگی کے آخری لمحے میں صرف ایک سوال باقی رہ جاتا ہے:

“کیا میں نے واقعی جیا… یا صرف گزارا؟”

یہ سوال آپ کی دولت، آپ کے عہدے، آپ کی فالوور لسٹ یا آپ کے بنک بیلنس سے نہیں پوچھے گا۔

یہ سوال آپ کی روح سے پوچھا جائے گا — اور روح صرف سچ بولتی ہے۔

بونی وئیر کے یہ پانچ پچھتاوے محض مرتے ہوئے لوگوں کے جملے نہیں…

یہ ہم سب زندہ انسانوں کے لیے وارننگ بیل ہیں جو ہمیں چیخ چیخ کر یاد دلاتے ہیں کہ اگر آج نہیں جاگے، تو کل صرف آنسو اور افسوس باقی رہیں گے۔

ہم میں سے ہر ایک روز زندہ تو ہوتا ہے،لیکن کتنے لوگ ایسے ہیں جو روز زندگی جیتے ہیں؟

ہم وہ قوم بن چکے ہیں جو صبح اپنی مرضی سے نہیں بلکہ موبائل کے الارم سے جاگتی ہے،اور رات سونے سے پہلے سوچتی ہے: “ایک دن میں خوش ہو جاؤں گا”.

لیکن وہ دن کبھی نہیں آتا۔

یاد رکھیں:

زندگی کی سب سے بڑی غلطی یہ نہیں کہ ہم مر جاتے ہیں… بلکہ یہ ہے کہ ہم مرنے سے پہلے جینا بھول جاتے ہیں۔

تو دوستو، یہ فیصلہ آج کریں کہ آپ وہ انسان نہیں ہوں گے جو آخری سانس میں کہے “کاش!”

آپ وہ انسان ہوں گے جو کہے:

“الحمدللہ، میں نے زندگی کو پوری شدت سے جیا… دل سے، سچائی سے، اور مکمل خودی کے ساتھ۔”

اپنی زندگی کی سمت بدلنا بڑی تبدیلی نہیں مانگتا، صرف ایک سچا لمحہ کافی ہوتا ہے اور شاید وہ لمحہ یہی ہو۔

آج…

اگر کسی دوست کو کال نہیں کی، تو کر لیں

اگر کسی سے معافی نہیں مانگی، تو مانگ لیں

اگر خود سے سچ نہیں بولا، تو بول لیں

اور اگر خوش ہونے کی اجازت نہیں دی، تو دے دیں

کیونکہ:

زندگی وہ نہیں جو آپ جیتے ہیں. زندگی وہ ہے جو آپ محسوس کرتے ہیں۔اور اگر آپ نے محسوس کرنا سیکھ لیا تو پھر نہ کوئی پچھتاوا ہوگا، نہ کوئی ادھوری کہانی۔

اگر آپ چاہتے ہیں کہ یہ پیغام کسی اور کی زندگی بھی بچا لے،

تو اسے صرف شیئر نہ کریں. اسے نیک نیت کے ساتھ آگے بڑھائیں:

کہ کوئی اور بھی کل کا افسوس، آج کی آنکھ سے دیکھ سکے۔

توصیف اکرم نیازی

Tausif Akram Niazi

Corporate Trainer | Mindset Coach | Behavior Change Facilitator

Loading