قدت اللہ شہابؒ کے
شہاب نامہ سے اقتباس!!
انتخاب۔۔راجہ قیصر اعجاز
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔کتاب شہاب نامہ سے اقتباس ۔۔۔انتخاب ۔۔۔راجہ قیصر اعجاز) آٹھویں جماعت والے ورنیکیولر امتحان کے بعد میں نےعمر بھر کے لیئے ہر روز ایک مقررہ وقت تک درود شریف پابندی سے پڑھنا عادت بنا لی تو چند روز بعد ایک عجیب خواب نظر آیا۔خوب میں تاحد نظر ایک وسیع و عریض صحرا پھیلا ہوا تھا۔میں اس میں کسی جانب تیز رفتاری سے بھاگتا ہوا چلا جا رہا تھا۔صحرا کی ریت اتنی گہری تھی کہ میری ٹانگیں گھٹنوں گھٹنوں تک اس میں دھنس دھنس جاتی تھیں۔سانس پھول کر جب مزید بھاگنا محال ہو گیا تو میں گھٹنوں کے بل گھسٹتا گھسٹتا آگے بڑھتا گیا۔ کچھ عرصے بعد جب گھٹنے بھی جواب دے گئے تو میں منہ کے بل زمین پر لیٹ گیا۔اور اپنی ٹھوڑی اور پنجے ریت میں گاڑ کر پیٹ کے بل آگے کی جانب رینگنے لگا۔اس شدید مشقت سے میرا سانس بری طرح پھول گیا تھا۔میرے گھٹنے،پیٹ اور ہاتھ شل ہو گئے تھے اور میرے سینے میں درد کی شدید ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔اسی طرح رینگتے رینگتے اچانک ایک جائے نماز نما چٹایء کا ایک کونہ میرے ہاتھ آگیا۔وہ چٹائ ایک کھجور کے درخت کے نیچے بچھی ہوئ تھی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اس پر دو زانو تشریف فرما تھے۔انہوں نے ایک ہلکی ی مسکراہٹ کے ساتھ میری جانب دیکھا اور عین اسی وقت میری آنکھ کھل گئ ۔
جمعہ کی نماز کے بعد میں اسی بوسیدہ سی مسجد میں بیٹھ کر نماز پڑھتا رہا۔کچھ نفل میں نے حضرت بی بی فاطمہ ( رض ) کی روح مبارک کو ایصال ثواب کی نیت سے پڑھے پھر میں نے پوری یکسویٴ سے گڑ گڑا کر یہ دعا مانگی :“یا اللہ میں نہیں جانتا کہ یہ داستاں صحیح ہے یا غلط لیکن میرا دل گواہی دیتا ہے کہ تیرے آخری رسولﷺ کے دل میں اپنی بیٹی خاتون جنت کے لیےٴ اس سے بھی زیادہ محبت اور عزت کا جزبہ موجزن ہو گا۔اس لیے میں اللہ تعالی سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ حضرت فاطمہ کی روح طیبہ کو اجازت مرحمت فرمائیں کہ وہ میری ایک درخواست اپنے والد گرامی صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں پیش کر کے منظور کروا لیں۔درخواست یہ ہے کہ میں اللہ کی راہ کا متلاشی ہوں۔سیدھے سادھے مروجہ راستوں پر چلنے کی سکت نہیں رکھتا۔اگر سلسلہ اویسیہ واقعی ہی افسانہ نہیں بلکہ حقیقت ہے تو اللہ کی اجازت سے مجھے اس سلسلہ سے استفادہ کرنے کی ترکیب اور توفیق عطا فرمائ جائے
اس بات کا میں نے اپنے گھر میں یا باہر کسی سے ذکر تک نہ کیا۔چھ سات ہفتے گزر گئے اور میں اس واقعے کو بھول بھال گیا۔ پھر اچانک سات سمندر پار سے میری جرمن بھابھی کا خط موصول ہوا۔وہ مشرف بہ اسلام ہو چکی تھیں اور نہائیت اعلی درجہ کی پابند صوم و صلوة خاتون تھیں۔انہوں نے لکھا تھا۔
The other night I had the good fortune to see ‘Fatima’ daughter of Hazrat Muhammad (PBUH) in my dream,she talked to me most graciously and said, ‘tell your brother-in-law Qudrat ullah Shahab that I have submitted his request to my exalted Father who has very kindly accepted it’.
یہ خط پڑھتے ہی میرے ہوش و حواس پر خوشی اور حیرت کی دیوانگی سی طاری ہو ئ ۔مجھے یوں محسوس ہوتا تھا کہ میرے قدم زمین پر نہیں پڑ رہے بلکہ ہوا میں چل رہے ہیں۔ یہ تصور کہ اس برگزیدہ محفل میں ان باپ بیٹی کے درمیان میرا ذکر ہوا،میرے روییں روییں پر ایک تیز و تند نشے کی طرح چھا جاتا تھا۔کیسا عظیم باپ صلی اللہ علیہ وسلم اور کیسی عظیم بیٹی۔دو تین دن میں اپنے کمرے میں بند ہو کر دیوانوں کی طرح اس مصرع کی مجسم صورت بنا بیٹھا رہا۔
مجھ سے بہتر ذکر میرا ہے کہ اس محفل میں ہے۔
اس کے بعد کچھ عرصہ تک مجھے خواب میں طرح طرح کی بزرگ ہستیاں نظر آتی رہیں۔جن کو نہ تو میں پہچانتا تھا اور نہ ان کی باتیں سمجھ آتی تھیں اور نہ ہی ان کے ساتھ میرا دل بھیگتا تھا پھر ایک خواب میں ایک نہایت دلنواز اور صاحب جمال بزرگ نظر آےء جو احرام پہنے ایک عجیب سرور اورمستی کے عالم میں خانہ کعبہ کا طواف کر رہے تھے۔میرا دل بے اختیار ان کے قدموں میں بچھ گیا۔وہ بھی مسکراتے ہوےء میری طرف آےء اور مطاف سے باہر حطیم کی جانب ایک جگہ مجھے اپنے پاس بٹھا لیا اور بولے۔میرا نام قطب الدین بختیار کاکی ہے۔تم اس راہ کے آدمی تو نہیں ہو لیکن جس دربار گہر بار سے تمہیں منظوری حاصل ہویء ہے اس کے سامنے ہم سب کا سر تسلیم خم ہے۔
قطب الدین بختیار رحمتہ اللہ علیہ کاکی صاحب نے ایک پیالہ ہمارے درمیان رکھا جس میں کھانے یا پینے کی کویء چیز پڑی تھی۔انہوں نے اچانک فرمایا۔تم یہ زندگی چاہتے ہو یا وہ زندگی؟
خواب میں بھی میرے دل کا چور انگڑایء لے کر بیدار ہو گیا اور اس نے مجھے گمراہ کیا کہ اس سوال میں فوری طور پر موت قبول کرنے کی دعوت ہے یعنی دنیاوی زندگی چاہتے ہو یا آخرت کی زندگی۔مجھے ابھی زندہ رہنے کا لالچ تھا۔اس لیے میں اپنے دل کے چور کی پیدا کی ہویء بد گمانی میں مبتلا ہو گیا۔حضرت کچھ یہ زندگی چاہتا ہوں کچھ وہ۔
میرا یہ کہنا تھا کہ میرے بایں پہلو کی جانب سے ایک کالے رنگ کا کتا سا جھپٹا ہوا آیا اور آتے ہی سامنے پڑے ہوےء پیالے میں منہ ڈال دیا۔
قطب صاحب مسکراےء اور بولے،افسوس یہ مفت کی نعمت تمہارے مقدر میں نہیں۔تمہارا نفس تم پر بری طرح غالب ہے اس لیے مجاہدہ کرنا ہو گا۔
اس کے بعد کییء ماہ تک نہ کویء خواب آیا اور نہ ہی کسی قسم کا کویء واقعہ رونما ہوا۔یہ تمام عرصہ میرے لیے ایک طرح سے عالم نزع کا زمانہ تھا۔دل اور دماغ میں احساس محرومی کے پرنالے بہنے لگے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے مین سب کچھ حاصل کر کے اچانک سب کچھ کھو بیٹھا ہوں۔بار بار خود کشی کا خیال آتا تھا۔ایک بار میں نے ڈوب کر خود کشی کا منصوبہ بھی بنا لیا۔نہر میں چھلانگ لگانے کے لیے پل کی منڈھیر پر جا بیٹھا۔غالبا جزبہ جھوٹا تھا اس لیے بیٹھے کا بیٹھا ہی رہ گیا اور چند گھنٹے بعد زندہ سلامت گھر واپس آ گیا۔
اسی عالم یاس و اضطراب میں تین سوا تین ماہ گزر گیے جو میرے باطنی وجود پر تین صدیون کی طرح بھاری گزرے۔اس کے بعد اچانک ۹جون کا مبارک دن طلوع ہوا۔یہ دن میری زندگی کے دو یا تین اہم ترین ایام میں سے ہے۔اس روز مجھے اچانک ناینٹی کا پہلا خط موصول ہوا۔میں اسے فقط اسی کوڈ نام سے جانتا ہوں۔میں نے اسے کبھی نہیں دیکھا اور نہ ہی مجھے یہ معلوم ہے کہ وہ کون ہے؟ کیا ہے؟اور کہاں ہے؟ہماری خط و کتابت بزریعہ ڈاک ایک بار ہویء ہے۔صرف اس کا پہلا خط بزریعہ ڈاک آیا تھا۔لفافے پر ڈاکخانے کی جو مہر لگی ہوءی تھی۔وہ یوں تھی۔
June 9, Jammu market 9:30 am
ڈاکیہ اسی روز دن کے ساڑھے بارہ بجے یہ خط ڈیلیور کر گیا تھا۔شہر کے پوسٹل نظام میں ایسا ممکن ہی نہ تھا کہ ساڑھے نو بجے کا پوسٹ کیا ہوا خط اسی روز دوپہر کے ساڑھے بارہ بجے مل بھی جائے ۔