Daily Roshni News

کرامات قلندر بابا اولیاءؒ۔۔۔بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جنوری2021

کرامات قلندر بابا اولیاءؒ

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جنوری2021

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ کرامات قلندر بابا اولیاءؒ)خرق عادت اس بات کا ثبوت فراہم کرتی ہے کہ ظاہری طور پر نظر آنے والی کائنات کے پس پردہ کائناتی فارمولے موجود ہیں۔ نورانی لوگوں کی باتیں بھی نورانی ہوتی ہیں۔ اولیاء اللہ میں ایک نمایاں مقام کی حامل ہستی قلندر بابا اولیاء کی بھی ہے۔ آپؐ قدرت کے سربستہ رازوں کے امین تھے اور آپ کا سینہ مبارک گنجینہ اسرار تھا۔ آپؐ کی ذات بابرکات سے مختلف اوقات میں کرامات صادر ہوئیں ان میں سے

چند یہاں پیش کی جارہی ہیں۔

خواجہ شمس الدین عظیمی کتاب خطبات لاہورمیں فرماتے ہیں:

میں اپنے پیر و مرشد حضور قلندر بابا اولیاء کی خدمت میں شب و روز سولہ (16) برس رہا ہوں۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ مجھے سوئیٹزر لینڈ سے ایک خط ملا۔ جس میں ایک بھائی نے حضور بابا صاحب کے بارے میں لکھا تھا کہ آپ یہاں تشریف لائے تھے۔ اور ہمیں ملاقات کا کافی وقت ملا، یوں ہوا اور یوں ہوا۔

اب خط پڑھ کر میں بڑا حیران ہوا کہ قلندر بابا تو کہیں گئے نہیں۔ پھر یہ خط کیسا ہے ؟ میں نے اپنےمیرو مرشد سے اس بارے میں پوچھا تو وہ مسکراکر خاموش ہو گئے۔

دوسرا واقعہ یوں ہے کہ قلندر بابا اپنے ایک دوست، جس کے گھر اکثر جایا کرتے تھے، کے پاس گئے ہوئے تھے۔ شدید بارش ہو رہی تھی۔ میں نے ان کی واپسی کا کافی انتظار کیا۔ پھر یہ سوچ کر سو گیا کہ اس بارش میں اب کہاں واپس آئیں گے۔ رات کو جب آنکھ کھلی تو آپ کمرے میں موجود تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ اندر کیسے تشریف لائے۔ اور دروازہ کس نے کھولا ؟ تو فرمانے لگے کہ میں نے دستک اس لئے نہ دی کہ میں نے سوچا کہ آپ کی نیندخراب ہو گی۔

قلندر بابا اولیاء کے دیرینہ دوست محترم نثار علی بخاری مرحوم نے یہ واقعات بیان کئے ہیں، انہی کی زبانی ملاحظہ کیجئے۔

ہم گاؤں کی سکونت چھوڑ کر ایک مکان میں رہے جہاں میری والدہ اور میرے بڑے بھائی کا انتقال ہوا۔ گھر تباہ ہو گیا اور میں اکیلا رہ گیا۔ وہاں ایک کھنڈر پڑا ہوا تھا۔ مالک نے اس میں ایک مکان بنایا تو میں نے وہ کرائے پر لے لیا۔ اس میں کچھ اثر تھا۔ وہ مجھے ایک سال تک ستاتا رہا لیکن میں اس سے ڈرا نہیں۔ کئی عامل اور جاننے والوں سے تذکرہ کیا تو وہ آئے۔ جس رات کو وہ میرے پاس ہوتے تھے تو وہ جن مجھے چھوڑ دیتا اور ان کے سینے پر سوار ہو جاتا اور وہ گھبرا کر بھاگ جاتے تھے۔ ایک مرتبہ دہلی سے بھائی محمد عظیم صاحب میرے پاس تشریف لائے۔ اس روز شام کو ہم ٹہلنے کے ارادے سے مکان مقفل کر کے پارک میں چلے گئے۔ وہاں سے گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کے بعد واپس آئے تو میں نے تالا کھول کر بھائی صاحب سے عرض کیا کہ آپ تشریف رکھئے میں پان سگریٹ لے کر آتا ہوں۔ جب میں واپس آیا تو آپ صحن میں کھڑے ہنس رہے تھے۔ میں نے کہا بھائی صاحب یہ تنہائی میں ہنسنے کا کیا محل ہے۔ آپ نے کہا کہ نہیں کوئی بات نہیں ہے۔ جب میں نے زیادہ اصرار کیا تو فرمایا آپ وہم میں پڑ جائیں گے۔ میں نے کہا میں بھی آپ کو کچھ واقعات سناؤں گا۔ تب اُنہوں نے کہا کہ جب میں اندر آیا تو صحن میں چار پائی پر دو آدمی بیٹھے ہوئے تھے۔ مجھے دیکھ کر انہوں نے قہقہہ لگایا اور ایک ادھر سے اور ایک اُدھر سے چار پائی کے نیچے گھس گیا۔ اب جو میں نے جھک کر دیکھا تو وہاں کوئی نہیں تھا۔ میں اس بات پر ہنس رہا ہوں کہ مجھے ڈرا رہے ہیں۔ پھر میں نے اپنے حالات بتائے کہ روزانہ رات کو سوتے وقت سینے پر کوئی نادیدہ شخص بیٹھ جاتا ہے۔ اگر کروٹ سے سوتا ہوں تو پہلو پر بیٹھ جاتا ہے اور میری ٹانگیں پکڑ پکڑ کر کھینچتا ہے۔ میں جب لات مارتا ہوں تو میری لات دیوار پر پڑتی ہے۔ مسہری کے قریب میز پر لالٹین تھی جس کی روشنی میں قرآن شریف پڑھا کرتا تھا اور جب نیند آتی تو سوجاتا جب تک پڑھتا رہتا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔ میں کہتا تھا بھئی جاگتے میں آؤ، مجھے سوتے میں پریشان کرتے ہو، یہ توکوئی بہادری نہیں ہے۔ لیکن جاگتے میں وہ کبھی بھی

نہیں آیا۔ بھائی محمد عظیم نے فرمایا کہ فکر کی کوئی بات نہیں ہے جمعرات آنے دو میں سب معلوم کرلوں گا کہ کیا بلا ہے۔ جمعرات کے آنے میں دو تین دن تھے۔ جب جمعرات آئی اور شعر و شاعری کی محفل ختم کر کے لوگ اپنے اپنے گھر چلے گئے تو آپؐ نے وضو کیا اور تخت پر مصلے بچھا کر مجھ سے فرمایا کچھ بھی محسوس ہو تو کنا مت، نہ بولنا نہ ڈرنا۔ میں نے کہا کہ اگر میں ڈرتا تو آج مجھے پریشان ہوئے ایک ڈیڑھ سال ہو گیا کبھی کا مکان چھوڑ چکا ہوتا۔ چنانچہ اُنہوں نے کچھ پڑھا۔ صبح کو مجھے بتایا کوئی بات نہیں جن ہے۔ میں نے کہا پھر کیا ہو گا۔ فرمایا آج وعدہ کر کے گیا ہے کہ اگلی جمعرات کو جواب دے گا۔ اگلی جمعرات کے عرصہ میں نہ وہ جن آیا نہ میرے اوپر حملہ کیا اور نہ ہی پریشان کیا۔ ورنہ اس سے پہلے جتنے عامل کامل آئے مجھے چھوڑ کر انہیں پریشان کرتا تھا۔ جب دوسری جمعرات آئی تو صبح کو انہوں نے بتایا کہ وہ دو بھائی ہیں۔ اس کا بھائی بھی ساتھ آیا تھا۔ اُنہوں نے کہا ہے کہ اب یہ ہی رہیں ہم چھوڑے جاتے ہیں۔ میں نے کہا بھائی صاحب آپ نے کیا دباؤ ڈالا تھا۔ فرمانے لگے میں نے کہا کہ آسانی سے چلے جاؤ ورنہ تم جانتے ہو کہ میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں۔ وہ کہنے لگے آپؐ کی نسبت بہت اونچی ہے اب ہم ہی یہاں سے چلے جائیں گے۔ چنانچہ اس کے بعد مکان میں بارہ سال تک رہا لیکن پھر کوئی گھبراہٹ ہوئی اور نہ کوئی میرے سینے پربیٹھا۔

 ایک صاحب مولوی ظہور الحسن تھے۔ وہ ضلعی کورٹ میں منصرم تھے۔ وہ بڑے اللہ والےاور سیدھے سادے آدمی تھے۔ ان کا معمول تھا کہ بلند شہر ( قلندر بابا کی اسی شہر میں ولادت ہوئی) میں ایک بزرگ خواجہ لعل علی صاحب برنی کا مزار تھا، جہاں وہ چاہے کتنا ہی غیر موافق موسم کیوں نہ ہو شام کی سیر کو ضرور جایا کرتے تھے۔ کبھی کبھی میرے غریب خانے پر بھی تشریف لے آتے تھے۔ بھائی محمد عظیم . صاحب بھی ان کو جا جانتے تھے۔ مولوی صاحب ایک دن آئے اور پریشان بیٹھ گئے۔ میں نے کہا مولانا کیا بات ہے آپ کیوں پریشان ہیں۔ کہنے لگے کہ خواجہ صاحب کے مزار پر ایک ملنگ پڑا ہوا ہے جو اپنا نام بندہ شاہ بتاتا ہے۔ اس نے مجھ سے کہا کہ صاحب مزار نے مجھ سے ارشاد فرمایا ہے کہ تم ظہور الحسن کو بیعت کر لو۔ بظاہر بندہ شاہ کی ہیئت ایسی تھی کہ جیسے بھنگ چرس کا نشہ کرنے والوں کی ہوتی ہے۔ اس لئے میری طبیعت گوارا نہیں کرتی کہ میں اس سے بیعت کروں لیکن جب یہ خیال آتا ہے کہ صاحب مزار نے حکم دیا ہے تو میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں کیا کروں۔ میں اس لئے پریشان ہوں۔ میں ابھی اس کا کوئی جواب نہیں دے پایا تھا کہ بھائی عظیم صاحب بولے کہ آپ پریشان نہ ہوں کل صبح نماز پڑھ کے ادھر ہوتے ہوئے جائے گا۔ میں بتادوں گا کہ صاحب مزار نے اس بندہ شاہ کو کوئی حکم دیا ہے کہ نہیں۔۔۔۔۔ آپ پریشان بالکل نہ ہوں۔ چنانچہ دوسری صبح جب مولوی ظہور الحسن صاحب تشریف لائے تو بھائی صاحب نے فرمایا کہ رات کو خواجہ لعل علی برنی سے ملاقات ہوئی تھی اور ان سے آپ کی بیعت کے بارے میں دریافت کیا تھا۔ اُنہوں نے کہا ہے کہ ہم صاحب ارشاد نہیں ہیں ہم نے کسی کو بیعت کرنے کا حکم نہیں دیا۔

پاکستان آنے کے بعد کراچی میں مجھ پر ایک دور مالی مشکلات کا آیا۔ میں نے قلندر بابا سے ذکر کیا تو اُنہوں نے ایک تعویذ مجھے دے کر فرمایا کہ جس جگہ الماری میں روپیہ رکھتے ہو، اس میں اس کو رکھ دو ان شاء اللہ الماری کبھی روپے سے خالی نہیں ہو گی۔ چنانچہ میں نے تعویذ الماری میں رکھ دیا۔ اس بات کو ( تادم تحریر) تقریباً پندرہ سولہ سال ہو گئے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور قلندر بابا کے تصرف سے آج تک الماری روپے سے خالی نہیں ہوئی، جب روپیہ ختم ہونے کے قریب ہوتا ہے کہیں نہ کہیں سے آجاتا ہے۔

حضور قلندر بابا اولیاء کی خدمت میں ایک ایسا مریض لایا گیا جس کے دونوں گھٹنے جڑے ہوئے تھے اور وہ چلنے پھرنے سے معذور تھا۔ اعزاء اور اقربا ان بزرگ مریض کو گود میں اُٹھا کر اوپر لائے۔ خلاف معمول حضور قلندر بابا اولیاء نے فرمایا “ ان کو زمین پر بٹھا دو ۔ بابا صاحب نے ان بزرگ مریض کے سر پر ہاتھ رکھا جسم نے پہلے ایک جھر جھری لی اور پھر تیز قسم کے تین جھٹکے لگے۔ بابا صاحب نے فرمایا “ آپ کھڑے ہو جائیں “۔

مریض نے تکلف کیا اور کہا “ سالہا سال گزرگئے ہیں، کھڑا نہیں ہو سکتا”۔

بابا صاحب نے پھر فرمایا “ آپ کھڑےہو جائیں ! ۔

 وہ صاحب میکانکی طور پر کھڑے ہو گئے اور اپنےپیروں سے چل کر سیڑھیاں اترے اور گھر چلے گئے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جنوری2021

Loading