Daily Roshni News

کراچی سے انگلستان کا سفر کافی لمب

ایک ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ کافی عرصہ قبل جب میں انگلستان گیا تو کراچی سے انگلستان کا سفر کافی لمبا تھا، ہوائی جہاز میں ایک انگریز عورت میرے ساتھ آ کر بیٹھ گئی ۔ ایک دوسرے کے حالات سے آگاہی کے بعد اس عورت نے مجھ سے پو چھا کہ تمہارا مذہب کیا ہے ؟ میں نے بتایا، اسلام ۔

پھر اس لڑکی نے سوال کیا کہ…” کیا تم کو معلوم ہے کہ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گیارہ شادیا ں کی تھیں؟”
میں نے لا علمی ظاہر کی تو اس لڑکی نے کہا یہ با ت حق اور سچ ہے۔ اس کے بعد اس لڑکی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں دو تین اور باتیں کیں ، جس کے سننے کے بعد میرے دل میں (نعو ذ بااللہ ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں عجیب سا برا تاثر پیدا ہوا۔ جب میں لندن کے ہوائی اڈے پر اترا تو میں مسلمان نہیں تھا۔

آٹھ سال انگلستان میں قیام کے دوران میں کسی مسلمان کو نہیں ملتا تھا حتیٰ کہ عید کی نماز تک میں نے ترک کر دی۔ اتو ار کو میں گرجوں میں جا تا اور وہاں کے مسلمان مجھے عیسائی کہتے تھے۔ جب میں آٹھ سال بعد واپس پاکستان آیا تو ہڈی جوڑ کا ماہر ڈاکٹر بن کر آیا۔ یہاں بھی میری وہی عادت رہی۔ لیکن ایک بیان جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی زندگی کے بارے میں بیان کیا گیا تھا سن کر میرا دل صاف ہو گیا اور میں نے پھر سے کلمہ پڑھ لیا۔

اس قسم کے مسائل بہت سے لوگوں کے ساتھ پیش آتے ہیں اور غیر ممالک میں کام کرنے والوں کے ساتھ تو خاص طور پر۔ بہت سے لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گیارہ شادیوں پر اعتراض کرکے اور عجیب عجیب باتیں کر کے بہت سے مسلمانوں کو گمراہ کرتے ہیں اور بہت سے مسلمان لاعلمی کی وجہ سے انکی باتوں کا جواب نہیں دے سکتے اس لیے وہ ان کی باتوں سے متاثر ہو جاتے ہیں۔

ان کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیادہ شادیاں کرنے کی وجوہات بیان کی جا رہی ہیں تاکہ وہ لوگوں کی باتوں کا اچھے طریقے سے جواب دے سکیں۔

(1) پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عالم شبا ب یعنی 25 سال کی عمر میں ایک سن رسیدہ بیوہ خاتون حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے شا دی کی ۔حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر 40 سال تھی اور جب تک حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا زندہ رہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری شادی نہیں کی۔ 50 سال کی عمر تک آپ نے ایک بیوی پر قناعت کی۔ (اگر کسی شخص میں نفسانی خواہشات کا غلبہ ہو تو وہ عالم شباب کے 25 سال ایک بیوہ خاتون کے ساتھ گزارنے پر اکتفا نہیں کرتا)۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد مختلف وجوہات کی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کئے۔ آج کسی بھی نوجوان سے پوچھیں کہ وہ ایک چالیس سال کی بیوہ سے شا دی کر ے گا تو ان کا جواب نفی میں ہوگا لیکن ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیا ہے۔ پھر جو گیارہ شادیاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہیں سوائے ایک کے باقی سب بیوگان تھیں۔

جنگ اُحد میں ستر صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین شہید ہوئے۔ نصف سے زیادہ گھرانے بے آسرا ہو گئے، بیوگان اور یتیمو ں کا کوئی سہارا نہ رہا۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو بیوگان سے شادی کرنے کو کہا۔ لوگوں کو ترغیب دینے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا ، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا سے مختلف اوقات میں نکاح کیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دیکھا دیکھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بیوگان سے شادیاں کیں جس کی وجہ سے بے آسرا گھرا نے آباد ہو گئے۔

(2) عربوں میں دستور تھا کہ جو شخص ان کا داماد بن جاتا اس کے خلاف جنگ کرنا اپنی عزت کے خلا ف سمجھتے۔ جنا ب ابو سفیان رضی اللہ عنہ اسلام لانے سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے شدید ترین مخالف تھے۔ مگر جب ان کی بیٹی ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح ہوا تو یہ دشمنی کم ہو گئی۔ ہوا یہ کہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا شروع میں مسلمان ہو کر اپنے مسلمان شوہر کے ساتھ حبشہ ہجر ت کرگئیں، وہاں ان کا خاوند نصرانی ہو گیا۔ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے اس سے علیحدگی اختیار کی اور بہت مشکلات سے گھر پہنچیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی دل جوئی فرمائی اور بادشاہ حبشہ کے ذریعے ان سے نکاح کیا۔

(3) حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کا والد قبیلہ معطلق کا سردار تھا۔ یہ قبیلہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان رہتا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قبیلہ سے جہاد کیا، ان کا سردار مارا گیا۔ حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا قید ہو کر ایک صحابی رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آئیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مشورہ کر کے سردار کی بیٹی کا نکاح حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کر دیا اور اس نکاح کی برکت سے اس قبیلہ کے سو گھرانے آزاد ہوئے اور سب مسلمان ہو گئے۔

(4 ) خیبر کی لڑائی میں یہودی سردار کی بیٹی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا قید ہو کر ایک صحابی رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آئیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مشورے سے ا ن کا نکاح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کرا دیا۔ اسی طر ح میمونہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کی وجہ سے نجد کے علا قہ میں اسلام پھیلا۔ ان شادیو ں کا مقصد یہ بھی تھا کہ لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آسکیں، اخلاقِ نبوی کا مطالعہ کر سکیں تاکہ انہیں راہ ہدایت نصیب ہو۔

(5 )حضرت زینب رضی اللہ عنہا بنت حجش سے نکاح مبتنی کی رسم توڑنے کے لیے کیا۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے متبنی (منہ بولے بیٹے) کہلائے تھے۔ ان کا نکاح حضرت زینب رضی اللہ عنہا بنت حجش سے ہوا۔ مناسبت نہ ہونے پر حضرت زید رضی اللہ عنہ نے طلاق دے دی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کر لیا اور ثابت کر دیا کہ متبنی ہر گز حقیقی بیٹے کے ذیل میں نہیں آتا۔

(6) علومِ اسلامیہ کا سر چشمہ قرآنِ پا ک اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک کا ہر ایک پہلو محفوظ کرنے کے لیے مردوں میں خاص کر اصحاب ِ صفہ رضی اللہ عنہم نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ عورتو ں میں اس کام کے لیے ایک جماعت کی ضرورت تھی۔ ایک صحابیہ سے کام کرنا مشکل تھا۔ اس کام کی تکمیل کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی نکاح کیے۔ آپ نے حکما ً ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہما کو ارشاد فر مایا تھا کہ ہر اس بات کو یاد رکھیں جو رات کے اندھیرے میں دیکھیں۔

حضر ت عائشہ رضی اللہ عنہ جو بہت ذہین ، زیرک اور فہیم تھیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نسوانی احکام و مسائل کے متعلق آپ کو خاص طور پر تعلیم دی۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا 45 سال تک زندہ رہیں اور 2210 احادیث آپ رضی اللہ عنہا سے مروی ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں کہ جب کسی مسئلے میں شک ہوتا توحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس کا علم ہوتا۔ اسی طرح حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایات کی تعداد 368 ہے۔

ان حالات سے ظاہر ہوا کہ ازدواجِ مطہرات رضی اللہ عنہما کے گھر عورتوں کی دینی درسگاہیں تھیں کیونکہ یہ تعلیم قیامت تک کے لیے تھی اور ساری دنیا کے لیے دنیا کے لیے تھی اور ذرائع ابلاغ محدود تھے اس لیے کتنا جانفشانی سے یہ کام کیا گیا ہو گا، اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر کام امت کے لیے رحمت تھا لیکن کچھ بدبخت لوگ ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر اعتراض کرکے اپنی عاقبت برباد کرتے ہیں۔ ہمیں اس قسم سے لوگوں کے اعتراضات سے متاثر ہونے سے بچنے کے لیے اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ کریں۔

Loading