کرمنا لوجی
تحریر۔۔۔۔۔ڈاکٹر نگہت حیات(Ph.D)
(قسط نمبر1)
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ کرمنا لوجی ۔۔۔ تحریر۔۔۔۔۔ڈاکٹر نگہت حیات پی ۔ایچ ۔ڈی۔۔۔قسط نمبر1)
Crime + Study کیا ہے؟
یہ نام جرم اور اس کے تمام موضوعات کا احاطہ کرتا ہے ۔ یہ جرم، جرم کی وجوہات ، جزم کے نتا ئج اور جرم کے لئے ماحول کی وجوہات کامکمل مطالعہ ہے اس کے ساتھ ہی جرم کرنے والے یعنی مجرم کا اخلاق اور سلوک بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔
ا۔ وہ جرائم جو انفرادی طور پر کئے جاتے ہیں یا ایک فرد سے شروع ہو کر پھر ایک جماعت بن جاتے ہیں یا بین الاقوامی لیول پر کئے جانے والے تمام جرائم جن میں کسی خاص فرد کی موجودگی یا شمولیت زیر بحث نہیں آئی مگر ایسے مجرم گروپ یا جماعتوں سے انفرادی طور پر سوسائٹی کے افراد متاثر ہوتے ہیں ۔ مثلا دہشت پھیلانا ، غلط افواہیں پھیلا نا ، فرنچائز فراڈ ، نارکا ٹکس ایسے تمام جرائم کی روک تھام کے طریقوں ان کے دباؤ کو بجھانے کے مطالعہ کو مجرموں کو سزا دینے کے طریقے کوکرمنالو جی کہتے ہیں ۔ ایسا دور بھی تاریخ میں آیا ہے کہ جب سزاؤں کے نئے نئے طریقوں پر غور کیا جا تا تھا اور ان طریقوں کو آزمانے کے لئے کسی کومنتخب کیا جاتا تھا۔ اسکی سزاؤں کے طر یقے بھی جرائم کی لسٹ میں آتے ہیں ۔ اسے ہم جرم اور مجر مانہ عناصر کا مطالعہ بھی کہتے ہیں۔
جرائم میں ہر وہ فعل جس سے انسانی معاشرہ کے کسی انسان ، جاندار یاماحول کو کسی بھی قسم کا نقصان پہنچایا جا سکے اس کے مطالعے کو کرمنالوجی کہتے ہیں۔
جرم ایک نا پسندیدہ فعل ہے جرم میں کو ئی فلاح نہیں۔ جب بھی کوئی جرم ہوتا ہے اور ہمارے علم میں آجاتا ہے تو ذہن میں کئی سوالات آتے ہیں مثلا جرم کیاہے؟ جرم کا خیال کیوں آتا ہے اور ایسے کون سے طریقے اپنائے جائیں جس سے جرم کو روکا جا سکے ۔ یہ سارے خیالات صدیوں سے نہ صرف اجتماعی طور پر بلکہ انفرادی طور پر زیر بحث رہے ہیں جرم کے زیراثر وہ تمام افراد یا گروپس یا تنظیمیں آتی ہیں جن کا جرم سے کسی نہ کسی طرح تعلق ہو۔ یعنی وہ عوامل جو مجرم بناتے ہیں ۔ جرم دو لیول پر ہوتا ہے ایک انفرادی دوسرا اجتماعی ۔ انفرادی جرم کی دو وجوہات ہیں ایک تو مجرم اور اس کا ساتھ دینے والے تمام افراد جو کسی رشتے مجبوری ، ذہنی ہم آہنگی کی وجہ سے مجرم کا ساتھ دیتے ہیں۔ اسے سپورٹ کرتے ہیں۔ اسے صحیح سمجھتے ہیں یا اسے غلط سمجھتے ہیں مگر کسی نہ کسی مجبوری کی بنا پر اس کا ساتھ دیتے ہیں۔
دوسرے وہ افراد جو اپنی مرضی ، خواہش سے مجرم کے ساتھ ہیں اور مجرم کوصحیح اور حق بجانب سمجھتے ہیں ۔ ایسے ساتھی ، مجرم کو ترغیب دیتے ہیں ۔ دونوں طرح کے افراد مجرموں کے زمرے میں آتے ہیں۔
انفرادی طور پر جرم کرنے کی دو وجوہات ہیں۔
ا۔ وقتی اشتعال کے تحت۔
۲۔ باقاعدہ پلان بنا کر نقصان پہنچانے کی تیاری کرنا۔
حسداورنفرت کرنا ہی ان کا بنیادی ستون ہے۔
مجرم کا ساتھ دینے والوں میں اگر قانون لاگو کرنے والے ادارے بھی شامل ہوں جو کسی بھی طرح مجرم کی غلط سپورٹ کر چکے ہوں ایسے تمام ادارے بھی جرائم پسنداداروں میں شامل ہیں۔
کر منا لو جی ایک بین الاقوامی موضوع ہے ۔ یہ ساری دنیا میں برسرعمل ہے اور دراصل ردعمل ہے یعنی کے راستہ سے بھٹکنا۔
جتنی پرانی یہ دنیا ہے اتنی پرانی جرائم کی تاریخ ہے۔ انسانی سوسائٹی ہزاروں سال سے اس کوشش میں ہے کہ جرم اور مجرم کی سوسائٹی کی وجوہات جان لی جائیں ۔ اگر چہ جدید تاریخ میں کرمنا لو جی کی جڑیں قدیم جرائم کی تاریخ سے جاملتی ہیں۔
ہابیل اور قابیل حضرت آدم کے بیٹے تھے۔ قرآن میں حضرت آدم کے ان دونوں بیٹوں کے ناموں کا ذکر نہیں ہے۔ صرف ابن آدم ( آدم کے دو بیٹے ) کہا گیا ہے۔ البتہ توریت میں ان کے یہی نام بیان کئے گئے ہیں ۔ حضرت آدم کے زمانے میں دستور یہ تھا کہ حضرت حوا سے توام (جڑواں) پیدا ہونے والے کے اور لڑکی کا عقد دوسری بار پیدا ہونے والے توام بچوں کے ساتھ کر دیا کرتے تھے۔ اس دستور کے مطابق قابیل اور ہابیل کی شادی کا معاملہ درپیش تھا۔ قابیل عمر میں بڑا تھا اور اس کی بہن اقلیمہ ہابیل کی بہن غارہ سے زیادہ حسین اور خوبروتھی۔ اس لئے قابیل کو یہ انتہائی ناگوار تھا کہ دستور کے مطابق اس کی بہن کی شادی ہابیل کے ساتھ کی جائے ۔ فساد ختم کرنے کے لئے حضرت آدم نے یہ فیصلہ کیا کہ دونوں اپنی اپنی قربانی اللہ کےلئے پیش کریں جس کی قربانی قبول ہوجائے وہی اپنے ارادے کو پورا کر لینے کا حق ہے۔
توریت کے مطابق اس زمانے میں قربانی کا یہ الہامی دستور تھا کہ نذر قربانی کی چیز کسی بلند جگہ پر رکھ دی جاتی اور آسمان سے آگ نمودار ہو کر اس کو جلا دیتی تھی۔ اس قانون کے مطابق ہابیل نے اپنے ریوڑ سے ایک بہترین دنبہ خدا کی نذر کیا اور قابیل نے اپنی کھیت کے غلے میں سے کرم خورده غلہ قربانی کے لئے پیش کیا۔ روایات کے مطابق ہابیل کی قربانی قبول ہوئی ۔ قابیل اس کو برداشت نہ کر سکا اور اس نے غیظ و غضب میں
کیڑا لگا ہوا گیہوں
آکر ہابیل سے کہا کہ میں تجھ کو قتل کئے بغیر نہ چھوڑوں گا تاکہ تو اپنی مرادکونہ پہنچ سکے ۔ ہائیل نے جواب دیا؟
میں تو کسی طرح تجھ پر ہاتھ نہ اٹھاؤں گا۔ باقی تیری جو مرضی آئے وہ کر ۔رہا قربانی کا معاملہ سوخدا کے ہاں تو نیک نیت ہی کی نذر قبول ہوسکتی ہے۔ وہاں بدنیت کی دھمکی کام آسکتی ہے اور نہ بے وجہ غم اورغصہ۔
قابیل پر اس نصیحت کا الٹا اثر ہوا اور اس نے مشتعل ہوکر اپنے بھائی ہابیل کوقتل کردیا۔
قتل کے بعد قابیل حیران تھا کہ اس نعش کا کیا کرے۔ ابھی تک نسل آدم موت سے دو چار نہیں ہوئی تھی۔ اس لئے حضرت آدم نے مردے کے جسم کے بارے میں حکم الہیٰ نہیں سنایا تھا۔ قرآن میں ہے کہ قابیل نے دفنانے کا عمل کوے سے سیکھا۔ اس نے دیکھا کہ کوے نے زمین کو کرید کرید کر گڑھا کھودا ہے۔ قابیل نے فیصلہ کیا کہ مجھے بھی اپنے بھائی کے لئے اسی طرح گڑھا کھودنا چاہئے اور بعض روایات میں ہے کہ کوئے نے دوسرے مردہ کوے کو اس گڑھے میں چھپا دیا۔ قابیل نے یہ دیکھا تو اپنی ناکارہ زندگی پر بے حد افسوس کیا اور کہنے لگا کہ
میں اس حیوان سے بھی گیا گزرا ہوں کہ اپنے جرم کو چھپانے کی اہلیت بھی نہیں رکھتا۔ بعد ازاں ندامت اور پچھتاوے کے احساس کے ساتھ اپنے بھائی کی نعش کو سپردخاک کردیا۔
کرمنالوجی کا تعلق ان تمام عوامل سے ہے جن سے جھوٹی بیان گوئی ، مجرمانہ سلوک ،سما جی ناہمواری ، مجرمانہ قوانین ، اخلاقی انحطاط ، سماجی قواعد وضوابط اور ان پرعمل ہی اسے جرم کاری انجام پاتا ہے۔
کرمنالوجی یہ ہے ……….. وہ کونسے عوامل تھے جو جرم کرنے کا باعث بنے۔
جرم کی وجوہات جاننے کے لئے لازمی ہے کہ جرم کے پس منظر کے واقعات بہتان تراشی ، جرائم کی کہانیاں اور روایات، خیالات ، قیاسات اور اندازوں پرمبنی بیانات بتائے جائیں جن کا تعلق مجرم کے مزاج، سلوک، صحت، عادات مشاغل کے ساتھ معاشی ناہمواری مجرمانہ قانون اور اخلاقی انصاف سماجی ترتیب اور اپنی بات منوانے کے شوق سے بھی ہے۔
کرمنالوجی کے مطابق مجرمانہ نظریے کی تھیوری کی طرف قدم بڑھایا اسی کے ذریعے مزید تحقیق کو آگے بڑھایا گیا تا کہ اس تعلق کا جو ایک سوسائٹی کا جرائم سے ہوتا ہے وضاحت ہو سکے۔
جرائم انفرادی طور پر آگے بڑھتے ہیں ۔ اور غلط سوسائٹی میں پروان چڑھتے ہیں اور جرائم پر سوسائٹی کے اثرات، روایات اور نظریات غالب ہوجاتے ہیں۔
مثلا ایک لڑکا اپنے باپ کو محض اس لئے کرتا ہے کہ وہ لڑکا یہ پسند نہیں کرتا کہ اس کا باپ اسے روکے ٹوکے اور پابندی لگائے ۔ بیٹا خود کو باپ کوقتل کرنے میں۔۔۔جاری ہے۔
بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور اگست2013