Daily Roshni News

کروموپیتھی۔۔۔ مٹی کے رنگ۔۔۔ تحریر۔۔۔ڈاکٹر مقصود الحسن عظیمی

کروموپیتھی

مٹی کے رنگ

تحریر۔۔۔ڈاکٹر مقصود الحسن عظیمی

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ کروموپیتھی۔۔۔ مٹی کے رنگ۔۔۔ تحریر۔۔۔ڈاکٹر مقصود الحسن عظیمی ) آسمان سے لے کر زمین تک، زمین پر پھیلی جاندار اور بے جان مخلوقات، نوع در نوع جمادات ، نباتات اور حیوانات سے لے کر انسان کی اختراعات و ایجادات و تعمیرات کا ایک وسیع و عریض اور لامتناہی سلسلہ ہر وقت نگاہ کے سامنے رہتا ہے۔ انسان اپنی نگاہ کا استعمال کرتا ہے تو اس کی توجہ مفید طلب اشیاء کو اپنے حصار میں لے لیتی ہے ور نہ ہر چیز موجود ہونے کے باوجود توجہ کے دائرہ سے باہر ہی رہتی ہے۔

اس بات پہ ہماری توجہ کم ہی جاتی ہے کہ ہمارے ارد گرد نظر آنے والی اشیاء ہماری نگاہ کے دائرہ میں کیسے اور کیونکر آتی ہیں اور ہم اشیاء کو کیسے اور کیوں دیکھتے ہیں ؟ اجمالاً یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہر وہ شے جو ہمیں نظر آتی وہ اس لئے نظر آتی ہے کہ اُس میں رنگ ہوتے ہیں یا یہ کہ وہ اپنی رنگینی کی وجہ سے نظر آتی ہے۔ اگر کوئی چیز ایسی ہو جس میں کوئی رنگ نہ ہو تو ہماری نگاہ اُس کو دیکھنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ کوئی شے جو بے رنگ ہو تو اُس کی موجودگی کی اطلاع نظر کو نہیں ہو پاتی۔ مثلاً

 بیماریوں کا علاج کرنے کے لئے وقت کے ساتھ ساتھ کئی نظام ہائے علاج معرضِ وجود میں آئے اور ہر نظام العلاج کا بنیادی مقصد مریض کو مرض اور بیماری سے نجات دلانا ہے۔ کرو مو چیتھی ایک ایسا نظام العلاج ہے جس میں رنگوں اور رنگین شعاعوں کو استعمال کرتے ہوئے جسم انسانی کو صحت اور تندرستی سے ہمکنار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس نظام العلاج میں بیماری کی تشخیص کرنے کے دوران یہ دیکھا جاتا ہے کہ کون کون سے رنگوں کی کمی یا بیشی اس مرض کی وجہ بنی ہے۔ اس تشخیص کے بعد مریض میں ان رنگوں کی کمی کو دور کرنے کے اقدام کئے جاتے ہیں جو اُس کی بیماری کا سبب بن رہے ہوں یا ان رنگوں کا جو اس میں زیادہ ہو چکے ہوں اُن کا اثر زائل کرنے والے رنگ تجویز کئے جاتے ہیں۔

ہوا ہمیں محسوس تو ہوتی ہے لیکن نظر نہیں آتی۔ ہم جب کسی شے کو دیکھتے ہیں تو اس کا عکس ہماری آنکھ کے پردے سے ہو کر دماغ کی سکرین پر بنتا ہے۔ شے میں اگر ابعاد ، خد و خال اور رنگ نہ ہوں تو کوئی عکس نہیں بنتا۔ عکس نہ بننے تو ہمارا ذہن اُس کی موجودگی سے لا علم ہی رہتا ہے۔ شے کا عکس اپنے اندر وہی رنگ رکھتا ہے جو اس شے کی سطح سے منعکس ہوتے ہیں۔ شے سے وہی رنگ منعکس ہوتے ہیں جن رنگوں کی آمیزش سے وہ شے بنی ہوئی ہو۔ گویا ہر شے رنگوں کا آمیزہ ہونے کی وجہ سے رنگ منعکس کرتی ہے۔ اشیاء کے نظر آنے کی اصل وجہ وہ روشنی ہے جو اشیاء کے عکس کو ہماری آنکھ کے پردے تک لاتی ہے۔ اگر روشنی نہ ہو تو اس حالت کو اندھیرا کہا جاتا ہے اور اس اندھیرے میں کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ روشنی کی یہ ایک خاصیت ہے کہ وہ ہر رنگ کو اپنے اندر سمیٹ کر آنکھ کر پردے تک لاتی ہے۔ اگر ہم اپنے ارد گرد پھیلی ہوئی روشنی کا اپنا رنگ متعین کرنا چاہیں تو اسے عام طور کسی ایک ہی رنگ کا حامل تسلیم کریں گے۔ وہ سفید ہو ، دودھیا ہو یا پیلاہٹ لئے ہوئے ہو، ہو تاوہ کوئی ایک ہی رنگ ہے۔ اس بات کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ روشنی کی ایک رنگی تمام رنگوں کی اساس ہے۔

 اس کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ ہم ایک کمرے میں بیٹھے ہیں۔ وہاں ایک برقی قمقمہ یا بلب بجلی سے روشن ہے، اس بلب سے خارج ہونے والی روشنی کارنگ دودھیا سفید ہے۔ اس کمرے میں پردے، قالین، فرنیچر اور استعمال کی چیزیں بھی ہیں اور سب اشیاء اور افراد اپنے اپنے رنگوں کی وجہ سے نظر آرہے ہیں۔ اگر بجلی کی فراہمی منقطع ہو جائے تو کمرے میں اندھیرا ہونے سے کمرے میں موجود پر دے، قالین، فرنیچر اور استعمال کی چیزیں اور وہاں موجود افراد نظر آنا بند ہو جائیں گے۔ اس سے یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ روشنی کی یک رنگی ہی سب متفرق رنگوں کو دکھانے کی ذمہ دار ہے۔ روشنی کی یک رنگی تمام رنگوں کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اور اسی وجہ سے وہ ہر رنگ کو آنکھ کے پر دے پر منعکس کر سکتی ہے۔

روشنی میں بنیادی طور پر تین رنگ نیلا، پہلا اور سرخ کی لہریں ہوتی ہیں اور ان تین رنگوں کی لہروں کے ملاپ سے چار مزید رنگ؛ گہرا نیلا، سبز ، جامنی اور نارنجی بنتے ہیں۔ انہی سات رنگوں کو قوس قزح یا دھنک کہا جاتا ہے۔ نظر آنے والے باقی تمام رنگ انہی سات رنگوں کے مختلف شیڈز ہیں۔ سفید کو سب رنگوں کا مجموعہ مانا جاتا ہے اور سیاہی سے مراد بنیادی  رنگوں کی عدم موجودگی ہوتی ہے۔ مادی طور پر سات سے رنگوں کو ملانے سے بننے والے آمیزہ کا رنگ سفید نہیں خاکی ہوتا ہے۔ یعنی مادی طور پر مٹی تمام رنگوں کا مجموعہ ہے۔ باالفاظ دیگر آدم کو مٹی سے تخلیق کئے جانے کا ایک مفہوم یہ بھی بنتا ہے کہ آدم کا مادی وجودتمام رنگوں کا مجموعہ ہے۔

 یہ بات بہت توجہ سے سمجھنے کی ہے کہ جب روشنی سب رنگوں کی اساس ہے تو خو د روشنی کی اپنی اساس کیا ہے …. ؟ کمرے میں روشن بلب کی مثال پر غور کریں تو برقی رو یا کرنٹ کو روشنی کی اساس مانا جائے گا۔ کیونکہ یہ بات ہمارے مشاہدے میں ہے کہ اگر برقی رو کرنٹ) کا بہاؤ دستیاب نہ ہو تو بلب روشن نہیں ہو سکتا۔

کرنٹ یا برقی رو کا اپنا کیا رنگ ہے….؟ اس کرنٹ کو بے رنگ مان لیا جائے تو گویا بے رنگی اساس ہے یک رنگی کی اور یک رنگی اساس ہے تمام رنگوں اور رنگینیوں کی۔ اس بے رنگ برقی روکا بہائو اُس یک رنگ روشنی کو فراہم کرنے کا ذمہ دار ہے جو تمام رنگوں کی اساس ہے جن سے تمام مادی مظاہر وجود پاتے ہیں۔ اب غور طلب ایک دلچسپ سوال یہ بھی ہے کہ بے رنگی کی اساس کیا ہے …؟ برقی بلب کی مثال میں برقی رو یا کرنٹ کی اپنی اساس کیا ہے ؟ اس برقی رویا کرنٹ کی اساس وہ ذہن ہے جس نے برقی رو کو پیدا کرنے کا اہتمام کیا۔ اُسے مقام پیدائش سے ہمارے گھروں تک پہنچانے کے انتظام کیا تا کہ وہ کمرے میں موجود بلب کو روشن کہ سکے۔ اس ذہن کو جو بے رنگی کا خالق ہے وارئے۔

رنگ ہی کہا جائے گا۔ اب ساری بات یوں سمجھی جاسکتی ہے کہ ایک ذہن ہے جو درائے بے رنگ اور خالق ہے۔ وہ ذہن کرنٹ یا بے رنگی کو جنم دینے کا ذمہ دار ہے۔ ہے رنگ کرنٹ موجب بنتا ہے یک رنگ روشنی کا۔ وہ یک رنگ روشنی جو تمام رنگوں کی اساس ہے عالم رنگ کی تمام رنگینیوں کی اصل ہے۔ ان سب اجزا کے باہمی ربط اور تعلق کو موجودہ سائنس جزوی طور پر ہی سمجھ رہی ہے۔ جب پوری بات کو پوری طرح سمجھ لیا جائے تو ذہن کی قوت تخلیق سے کام لیا جا سکتا ہے اور وسائل انسان کے تابع ہو جاتے ہیں اور انسان و سائل کی محتاجی سے آزاد ہو کر روشنیوں پر کنٹرول اور تصرف حاصل کر لیتا ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے روشنیوں پر غور و فکر کیا اور وہ مادیت اور مادی وسائل کے چنگل سے آزاد ہو کر مادی وسائل کو استعمال کرنے کا گر جان گئے۔ آدم کی تخلیق کے مادی پہلو میں مٹی کے استعمال کا تذکرہ اس بات کی سند ہے کہ انسان کا مادی وجود رنگوں کی لہروں کا ہی مجموعہ ہے۔ جیسا کہ عرض کیا گیا ہے کہ یک رنگ روشنی میں تین بنیادی رنگ ہوتے ہیں۔ ان تین بنیادی رنگوں کے ملنے سے ہی باقی تمام رنگ بنتے ہیں۔ کرو مو پیتھی میں اس بات کو گہرائی میں سمجھا گیا ہے کہ انسان کے مادی وجود کی درست، صحیح اور صحت مند کار کردگی کے لئے کا ضروری ہے کہ روشنی میں موجود تینوں رنگ یعنی کر نیلا، زرد اور سرخ اگر مناسب مقدار اور مناسب بے وقفوں سے مہیا ہوتے رہیں تو وہ صحت مند زندگی

سے بسر کرتا ہے۔

ان رنگوں کو استعمال کروانے کے کئی طریقے ہو سکتے ہیں۔ ایک طریقہ مطلوبہ رنگوں کی روشنی کو مریض پر ڈالنا ہے۔ ایک وقت میں ایک ہی رنگ کی روشنی ڈالنی چاہئے۔ ڈیڑھ دو فٹ کے فاصلے سے ہیں تا تیس منٹ، دن میں تین چار روشنی ڈالنے سے مطلوبہ نتائج تین تا چھ ہفتوں میں حاصل ہو سکتے ہیں۔ دوسرا طریقہ پانی کو ان رنگوں کی الگ الگ بوتلوں میں، چھ تا آٹھ گھنٹے ، لکڑی پر دھوپ میں رکھ کر چارج کر کے مریض کو دو دو اونس کی خوراکوں کی صورت دیا جاتا ہے۔ دن بھر میں ہر رنگ کی تین تین چار چار خوراکیں دینا کافی رہتا ہے۔ ایک اور طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آدھ آدھ گھنٹے کے لئے کسی خاص رنگ کے بلب کی روشنی سر پہ ڈالی جائے۔

بشکریہ روحانی ڈائجسٹ  جولائی2019

Loading