کرو موپیتھی
رنگ تنفس
تحریر۔۔۔ڈاکٹر مقصود الحسن عظیمی
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ کرو موپیتھی۔۔۔ تحریر۔۔۔ڈاکٹر مقصود الحسن عظیمی )بیماریوں کا علاج کرنے کے لئے وقت کے ساتھ ساتھ کئی نظام ہائے علاج معرض وجود میں آئے اور ہر نظام العلاج کا بنیادی مقصد مریض کو مرض اور بیماری سے نجات دلانا ہے۔ کروموفیقی ایک ایسا نظام العلاج ہے جس میں رنگوں اور رنگمین شعاعوں کو استعمال کرتے ہوئے جسم انسانی کو صحت اور تندرستی سے ہمکنار کیا جاتا ہے۔ اس نظام العلاج میں بیماری کی تشخیص کرنے کے دوران یہ دیکھا جاتا ہے کہ کون کون سے رنگوں کی کمی یا بیشی اس مرض کی وجہ بنی ہے۔ اس تشخیص کے بعد مریض میں ان رنگوں کی کمی کو دور کرنے کے اقدام کئے جاتے ہیں جو اُس کی بیماری کا سبب بن رہے ہوں یا ان رنگوں کا جو اس میں زیادہ ہو چکے ہوں اُن کا اثر زائل کرنے والے رنگ تجویز کئے جاتے ہیں۔
زندگی کا آغاز انسان کے سانس لینے سے ہوتا ہے اور سانس کی آمد ورفت بند ہونے پر اس کا انتظام ہو جاتا ہے۔ سانس لینے کی وجہ سے ہی عالم رنگ و بو میں ہر چیز …. جی ہاں ہر شئے …. جاندار ہو یا بے جان …. تنفس مانی جاتی ہے۔
کائنات کی ہر شئے سانس لیتی ہے۔ ہر شئے کے سانس لینے کا طریقہ اور دورانیہ مختلف ہوتا ہے۔ نہ صرف انسان، حیوانات اور نباتات بلکہ جمادات کی حیات کا دارومدار بھی سانس کی آمد ورفت سے ہی جڑا ہوا ہے۔ پہاڑ بھی سانس لیتے ہیں۔ ہماری زمین یعنی یہ کر وارض بھی اور تمام اجرام فلکی میں بھی کسی نہ کسی انداز میں سانس لینے کا عمل جاری ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ پہاڑ اوسطاً پندرہ منٹ میں ایک بار سانس لیتا ہے اور زمین دن رات میں کل دو بار سانس لیتی ہے ۔ اگر اس رفتار تنفس کا موازنہ انسان کے سانس لینے کی اوسط رفتار یعنی اٹھارہ میں سانس فی منٹ سے کیا جائے تو یہ راز منکشف ہو جاتا ہے کہ رفتار متنفس کا ایک راست تعلق اس شئے کی عمر سے بنتا ہے۔ یعنی ایک انسان جتنی دیر میں 270 تا 300 سانس لیتا ہے ایک پہاڑ اتنے ہی وقت میں صرف ایک سانس لیتا ہے۔ باالفاظ دیگر انسانی زندگی اور پہاڑ کی عمر میں یہی تناسب ہے گویا ایک انسان ساٹھ سال کی عمر میں جتنے سانس لیتا ہے اتنے ہی سانس پہاڑ اٹھارہ میں ہزار سال میں لیتا اور اپنی پیدائش کے عمل سے گزر کر فنا کے راستے پر چلتے اپنی عمر پوری کر کے ختم ہو جاتا ہے۔ انسانی نظام تنفس میں ناک، پھیپھڑے اور (Diaphragm) کلیدی کردار کے حامل مانے جاتے ہیں۔ ہر نوع میں نفس کا اپنا ایک الگ نظام کام کرتا ہے۔ مچھلیوں میں یہ عمل گلپھڑوں کے ذریعے سر انجام پاتا ہے تو نباتات میں پتوں کی سطح یہ فریضہ انجام دینے میں مصروف رہتی ہے اور کچھوے جیسے جانداروں میں اُن کی کھال ہی اُن کے نفس کا ذریعہ ہوتی ہے۔
صحت اور تندرستی کے لئے سانس لینے کے انداز کا درست ہونا بہت ضروری ہے۔ درست انداز میں سانس نہ لینے سے ہمارے بدن کو درکار توانائی کی پوری مقدار فراہم نہیں ہوتی۔ خرچ ہونے والی توانائی کا تناسب مہیا ہونے والی توانائی سے بڑھ جائے تو تھکن اور پژمردی آتی ہے جو بڑھ کر کمزوری اور پھر بیماری پر منتج ہوتی ہے۔ اللہ کے نظام تخلیق میں ہر چیز دو رخوں پر اور ہر دورخوں پر جوڑوں کی صورت تخلیق کی گئی ہے۔ سانس کے بھی دو رخ ہیں۔ سانس کا اندر جانا اور باہر آنا۔ سانس کے اندر جانے کو سانس کا صعودی زخ کہا جاتا ہے۔ صعودی رخ میں ہمارا ربط اپنے باطن سے اور سانس کے باہر آنے یعنی اُس کے نزولی رخ میں ہمارا تعلق خارج سے جڑتا ہے۔ انسان کا وجود اس کے باطن کا مرہون منت ہے۔ اس لئے ہم جس قدر گہرا اور لمبا سانس لینے کے عادی ہوں گے اس قدر ہمارا تعلق ہمارے باطن سے گہرا اور مضبوط ہو گا۔ چونکہ ہمارا جسمانی نظام ہمارے اندر یعنی باطن سے ہی کنٹرول ہوتا ہے اس لئے جس قدر اپنے باطن سے ہمارے تعلق میں گہرائی ہو گی اسی قدر ہمارا پورا جسمانی نظام بہتر کار کردگی کا پابند ہو گا۔
گہرے سانس لینے سے ہمارے جسم میں موجود رنگوں کے تمام مراکز توانائی کی ان مقداروں سے سیراب ہوتے ہیں جن کی ان کو ضرورت ہوتی ہے۔ جلدی جلدی اور تیز تیز سانس لینے سے توانائی کی مقداروں کی فراہمی میں بھی تیزی آجاتی ہے۔ اتھلے، سطحی اور ناہموار سانس لینے سے نہ صرف یہ کہ توانائی کی مقدار میں پوری طرح دستیاب نہیں ہو تھیں بلکہ ہمارے اندر سے کثافتیں اور زہریلی گیسیں بھی پوری طرح خارج نہیں ہو تیں۔ اس طرح ہم ایک تو توانائی کی کمی اور دوسرے مضر گیسوں اور زہریلے مادوں کے زیر اثر رہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ گہرے اور ہموار سانس لینے سے توانائی کی ترسیل بہتر رہتی ہے بلکہ پوری طرح سانس کو باہر نکالنے سے اندر کی کثافتیں بھی خارج ہوتی ہیں۔ اگر کسی کا پیٹ باہر کو نکلا ہوا ہو تو اس کا یہی مطلب ہوتا ہے کہ اس شخص کے سانس لینے کا طریقہ درست نہیں۔ اتھلا اور سطحی سانس لینے کی وجہ سے رفتہ رفتہ پیٹ اور سینے کے عضلات ڈھیلے پڑ جاتے ہیں اور نہ صرف توند نکل آتی ہے بلکہ اور بے شمار مسائل کھڑے ہوتے رہتے ہیں۔ اس صورت حال کو کنٹرول کرنے کا ایک بہت آسان اور انتہائی فائدہ مند طریقہ یہ ہے کہ اتھلا اور سطحی سانس لینا بند کر دیا جائے اور خوب گہرا اور لمبا سانس لینے کی عادت کو اپنا یا جائے۔ شروع میں صرف اپنے سانس کو باہر نکالنے کے وقفے کو دوگنا کر دیا جائے یعنی اگر ایک سیکنڈ میں سانس اندر لیا تو اسے باہر نکالنے میں دو سیکنڈ لگائیں۔ رفتہ رفتہ سانس اندر لینے کے وقت کو بڑھاتے جائیں اور باہر نکالنے کے وقت کو اسی تناسب سے زیادہ کرتے جائیں یعنی اگر تین سیکنڈ میں سانس کو اندر کھینچا تو اسے باہر نکالنے میں چھ سیکنڈ لگائیں۔ محض چند ہفتے اس طرح باقاعدگی سے سانس لینے سے ہی پیٹ کے ڈھیلے عضلات اپنی اصل حالت میں آجائیں گے۔
کبھی غور کریں کہ ناک کے نتھنے دو کیوں ہیں ؟ یعنی ناک میں سانس اندر باہر آنے جانے
کے لئے ہمارے خالق نے دو نتھنے کیوں بنائے؟ اس میں کیا حکمت ہے ؟ یہ دونوں نتھنے جب اندر جا کر ایک ہو جاتے ہیں تو پھر کو باہر سے بھی ایک ہی کیوں نہیں بنایا ….؟
اس پہ بہت غور اور توجہ صرف کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ سانس کی رفتار اور رُخ بدلتے رہتے ہیں۔ ہمارا سانس دونوں مقنوں سے کچھ اس طرح چلتا ہے کہ کچھ دیر وہ دائیں نتھنے سے زیادہ اور بائیں سے کم چلتا ہے اور کچھ دیر بائیں نتھنے سے زیادہ اور دائیں سے کم چلتا ہے۔ اوسطاً ایک نتھنے سے سانس کے جاری رہنے کا دورانیہ نوے منٹ ہوتا ہے۔ دونوں نقنوں کے ذریعے سانس کے باری باری چلنے میں کیا حکمت ہے…..؟
یہ بات جان کر عقل وجد میں آجاتی ہے کہ دائیں نتھنے سے وہ رنگ جذب ہوتے ہیں جو تاثیر میں گرم خاصیت کے حامل ہوتے ہیں یعنی زرد، نارنجی اور سرخ جبکہ بائیں نتھنے سے جن رنگوں کا انجذاب ہوتا ہے وہ اپنی تاثیر کے حوالے سے سرد مانے جاتے ہیں جیسے نیلا، آسمانی اور بنفشی۔ ان دونوں کے درمیان کچھ دیر سانس دونوں نھوں سے برابر جاری رہتا ہے۔ اس دوران جسم کو سبز رنگ کی فراہمی بڑھ جاتی ہے۔ اس بات کی تصدیق کے لئے گرمی لگنے اور تپش میں اضافے کے دوران اگر دایاں نقنا روئی یا ٹشو پیپر سے پندرہ میں منٹ کے لئے بند کر دیا جائے تو ٹھنڈے رحموں کی فراہمی بڑھنے سے گرمی کی شدت محسوس ہونا بند ہو جائے گی یا انتہائی سردی میں اگر۔۔۔جاری ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جون 2017
![]()

