Daily Roshni News

کرے کوئی بھرے کوئی۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم

کرے کوئی بھرے کوئی

تحریر۔۔۔حمیراعلیم

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ کرے کوئی بھرے کوئی۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم )بینظیر بھٹو نے کہا تھاجمہوریت بہترین انتقام ہے ۔اس کی عملی تصویر ہم ہر اس دور میں دیکھتے ہیں جب جمہوری نمائندگان کی حکومت ہوتی ہے۔کچھ لوگ تین دہائیوں سے حکومت میں ہیں کچھ نئے تھے کچھ اپنے آباءواجداد کے نام کو کیش کروا رہے ہیں مگر موٹو سب کا ایک ہی ہے۔جتنا ممکن ہو عوام کو لوٹو، نوچو اور ان کا خون چوس لو تاکہ نہ رہے غریب اور نہ رہے غربت۔

     ہم ٹیکسز کے نام پر ماچس کی ڈبیا جیسی چیز پر بھی ٹیکس اداکر رہے ہیں۔کپڑے، جوتے، اشیائے خوردونوش ہوں یالگژری آئٹمز کئی کئی ٹیکسز کے ساتھ خرید رہے ہیں۔بجلی، گیس اور پانی کے بلز کی تو مت ہی پوچھیے کم از کم پانچ سے دس ٹیکسز ایک ایک بل میں لگے ہوتے ہیں۔اور چھوڑیے بڑی قبر پر بھی ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔کوئی پوچھےکیا چھ فٹ سے زائد لمبا شخص مرنے کے بعد اپنی ٹانگیں کٹوانے کی وصیت کر جائے کہ اس کے ورثاء کو قبر کا ٹیکس ادانہ کرنا پڑے۔

مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق اب لگتا ہے حکومت کو اورکوئی ٹیکس نہیں سوجھ رہا اس لیے اس نے ماضی کی اشیائے استعمال پر بھی فی عائد کر دی ہے۔جی ہاں اب بجلی کے بل میں ریڈیو کی فی بھی ادا کرنی ہو گی۔عین ممکن ہے بلکہ امید واثق ہے کہ جلد ہی لالٹین،گیس لیمپ،  تیل/ گیس کے چولہے، کنوئیں، تندور، لکڑی کوئلے کے ایندھن، بیل / گدھا گاڑی، پن چکی، سل بٹے اور ان جیسی تمام اشیاء پر بھی فی لگ جائے گی جو کبھی ہماری دادی پڑدادی استعمال کرتی رہی ہوں گی۔

     اور شاید یہ سلسلہ آزادی کے بعدپاکستان میں مہاجرین کو لانے والی تمام ٹرانسپورٹ کے کرایوں سے ہوتا ہوا غاروں کے دور میں غار میں رہنے کے کرائے تک جا پہنچے۔ایسی فیز اور فضول کے ٹیکسز ظاہر کرتے ہیں کہ جمہوری حکمران عوام کے کس قدر ہمدرد ہیں۔

    بجائے اپنے ششکے اور مراعات کم کرنے کے جن میں مفت کی لگژری کارز، دنیا بھر کے ہوائی سفر، عمرہ حج، رہائش، بجلی، گیس، پانی، فون کے بلز، چار نوکر، پٹرول اور نجانے کیا کیا شامل ہے وہ عوام کو ہی لیموں کی طرح نچوڑ رہے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق آئی ایم ایف اور دیگر اداروں اور ممالک سے لیا جانے والا قرض کانصف سے زائد ان چند سو افراد پر ہی صرف ہوتا ہے۔جبکہ عوام غریب تو ان کے خرچوں کا بوجھ اٹھاتے ہوئے آنے والی کئی نسلوں تک ان کا قرض اتارتی رہے گی۔

    چند سال پہلے ایک کامیڈی سٹ کام ہم سب امید سے ہیں میں اس بات کو بڑے اچھے طریقے سے دکھایا گیا تھا۔اس میں سانس لینے والی آکسیجن پر بھی فی تھی اور اپنے گھر کے اندر داخل ہونے اور نکلنے کے لیے بھی ایک کارڈ کا استعمال کرنالازمی تھا جس سے فی ڈیڈکٹ ہوتی تھی۔اپنے بائیک کو چلانے اور روکنے کے لیے بھی اس کارڈ کا استعمال ضروری تھا۔کچھ ایسا ہی آج ہمارے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔

       اس طرح کی ٹوپیاں جمہوری حکمران ہمیں کرواتے ہی رہتے ہیں مگر قصور ان کا نہیں بلکہ ہمارا ہے کہ ہم کیوں ہر بار ان کے ہاتھوں ماموں بن جاتے ہیں۔کوئی بھی سیاسی جماعت ہو اس کا دعوی ہوتا ہے ہم سے بڑھ کر کوئی عوام اور پاکستان کا ہمدرد نہیں تو سوال یہ ہے کہ پاکستان کو اس حال میں کس نے پہنچایا ہے؟؟؟؟ کیا خود عوام نے؟؟؟؟ سچ کہوں تو جی ہاں ہم عوام ہی اس کے قصوروار ہیں جو ہربار دھوکے میں آ جاتے ہیں اور ہر بار ٹرک کی بتی کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔

    اگر ہم واقعی ہی تبدیلی چاہتے ہیں اور مہنگائی سے نجات چاہتے ہیں تو سری لنکا کی عوام کی طرح اپنے حق کے لیے خود لڑنا ہو گا۔ان جونکوں سے نجات حاصل کرنا ہوگی جو ہمارا خون چوس چوس کرموٹی ہو رہی ہیں۔خدارا ہوش کے ناخن لیجئے۔اور مزید ۔دھوکہ مت کھائیے۔اسی بل میں بار بار انگلی مت ڈالیے جس سے ڈسے جا چکے ہیں۔

جو لوگ الیکشن کی آمد نزدیک جان کر بیس لاکھ گھر مفت دینے، 300 یونٹ بجلی مفت دینے اور مزدور کی تنخواہ پچاس ہزار کرنے کے دعوی دار ہیں ان کا ماضی کا ریکارڈ مت بھولیے۔اب بھی وہ حکومت میں ہیں لیکن ایک یونٹ بجلی کی قیمت 57 روپے ہو چکی ہے۔سیلاب زدگان کو گھر تو دور کی بات کھانا تک نہیں پہنچایا گیا۔مزدور کومزدوری مل جائے دو وقت کی روٹی کھانے کے قابل ہو جائے یہ تک تو ممکن نہیں رہا۔ایک سترہ ہزار تنخواہ پانے والےگارڈ کا بجلی کا بل سات ہزار آیا ہے۔3300 کا تیل، 2900 کا بیس کلو آٹا، 230 روپے کلو چینی، 380 روپے کے کلو چاول، چنے کی دال 350 کی کلو لے کر باقی سب کچھ چھوڑ بھی دے تو گیس پانی کا بل، بچوں کی فی، گھر کا کرایہ اور بس کا کرایہ کیا یہ سب اس غریب کے لیے ممکن ہو گا؟؟؟

    ایسے میں بندہ خودکشی نہ کرے تو کیا کرے؟ ریڈیو فی جیسی مضحکہ خیز چیزوں کو دیکھ کر دل چاہتا ہے حکمرانوں سے کہوں آپ انڈیا، امریکہ، چین یا سعودیہ کے ہاتھ پاکستان بیچ کر پیسے لیجئے اور اپنے وطن انگلینڈ، امریکہ، دوبئی جا کر چین کی بانسری بجائیےکیونکہ حکومت کرنا آپ کے بس کا کام نہیں۔یا اگر یہ تجویز قابل قبول نہیں کیونکہ دودھ دینے والی گائے اور سونے کے انڈے دینے والی مرغی ذبح کر کے آپ کی اگلی نسلیں کنگال ہونے کا خدشہ ہے توایک بل پاس کیجئے اور قانون بنائیے کہ ہر پاکستانی شہری جونہی کوئی پیسہ دھیلا کمائے آپ سب کے سوئس اور دیگر فارن اکاوئنٹس میں جمع کروا دے اور خود جائے بھاڑ میں۔کیونکہ تمام بلز، ٹیکسز اور ایسی فضول کی فیز کی ادائیگی کے بعد بھاڑ میں جانا اس کا مقدر ٹھہرتا ہے۔ان فیز نے مجھے ایک لطیفہ یاد دلا دیا۔ایک پہلوان نے 10 سوکھے لیموں نچوڑ کر پورا ایک گلاس جوس نکال لیا  لوگ حیرت سے اسے دیکھتے رہے.اس کے بعد اس نے لوگوں کو چیلنج کیا کہ کوئی ہے جو 20 لیموں نچوڑ کر بھی اتنا جوس نکال سکے جتنا اسنے 10 لیموں سے نکالا ہے۔ لوگ خاموش رہےکوئی آگے نہیں بڑھا سوائے ایک آدمی کےاس آدمی نے پہلوان سے کہا میں تمہارا چیلنج قبول کرتا ہوں۔ میں 20 ليموں سے نہیں بلکہ صرف 10 لیموں جوس نکالوں گا اور ہاں لیموں بھی وہ جس سے تم پہلے ہی نچوڑ کے سارا رس نکال چکے ہو. سارا مجمع اسے پاگل سمجھنے لگا پہلوان بھی اسے حیرت سے دیکھنے لگا اور لوگوں کو نہایت حیرت اس وقت ہوئی جب اس شخص نے یہ معجزہ کر کے دکھا دیا۔ان سوکھے ہوئے 10 لیموں سے ایک گلاس رس اور نکال کے دکھایا.پہلوان کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا.اس نے حیرت سے پوچھا بھائی! تم بھی پہلوان ہو؟ وہ آدمی بولا

نہیں …. میں پاکستان کا وزیر خزانہ ہوں۔”

Loading