کمبخت عشق
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )اماں نعت خواں تھی ۔میں جب چار پانچ سال کا تھا تو اماں کے ساتھ آواز ملا کر نعت پڑھتا ۔ ان کی ہمجولیاں نہال ہو جاتیں سب مجھے گود میں لے کر پیار کرتیں ۔ انعام دیتیں ۔ پھر آہستہ آہستہ مجھ سے نعت کی فرمائش ہونے لگی ۔ عام طور پر عورتوں کی محفل میں بلایا جاتا اور خوب داد دی جاتی ۔ عورت کی داد مرد کے لیے بڑی ظالم چیز ہوتی ہے خواہ وہ مرد صرف دس بارہ سال کا ہی کیوں نہ ہو ۔ میں بھی پوری دلجمعی سے نعت سناتا ۔
شام کو ڈیرے پر ہیر پڑھا کرتا ۔ ابے کے یار بیلی کہا کرتے کوہلی تیرے پتر جیسی ہیر کوئ نہیں پڑھ سکتا ۔ لیکن اس داد و تحسین میں وہ مزا نہیں تھا جو زہرا جبین کی آنکھوں میں تھا ۔ میں ہیر پڑھتا تو وہ ڈیرے کی منڈیر پر چڑھ کر تکتی رہتی ۔ پھر نگاہیں ملتے ہی اپنا پنکھ جیسا ہاتھ ماتھے پر لے جا کر دلبری سے مسکرا دیتی ۔ ہیر پڑھتے ہوئے میرا دل اس کی آنکھوں میں بسی خوشبو چرا لیتا ۔ کئ دن یہ سلسلہ چلتا رہا پھر وہ اپنے گراں لوٹ گئ تو ڈیرے کی منڈیر ویران ہو گئ۔ ایک دن شام ہجر کی بکل مارے پیلی پھٹک ہوئ جاتی تھی ۔میں نے منڈیر پر چڑھ کر دوسری طرف تلاش کی کمند ڈالی ۔ اچانک دھانی آنچل لہراتا ہوا میرے سامنے کچی مٹی پر گر پڑا ۔
ہائے میں مر گئ۔۔۔۔ وہ رنگین جلترنگ بجاتی جھکی ۔۔۔۔ میری نگاہوں میں جیسے بجلی کوند گئ۔ لانبی سیاہ ناگن جیسی چوٹی بل کھاتی ہوئی پھنکارنے لگی ۔ میں نے پیشانی پر آیا پسینہ صاف کیا اس نے منہ پھیر کر سلام کہہ دیا ۔ گویا ہجر کے سیاہ بادلوں کی اوٹ سے ماہ کامل نے دل میں چٹکی بھری ہو ۔ وہ نام کی ماہ کامل نہیں تھی سراپا چاندنی تھی ۔ چھم سے میرے من کے آنگن میں چلی آئ ۔ میرے دن رات منور ہونے لگے ۔ گفتگو کے مواقع اگرچہ صرف اسکول جانے اور آنے کے اوقات میں ہی میسر آتے مگر عاشق کی عید وہ راستہ ٹھہرتا جس پر وہ اپنی سکھیوں کے ساتھ آگے آگے چلی جا رہی ہوتی اور میں بستہ اٹھائے پیچھے پیچھے چلتا رہتا ۔ کبھی کبھار وہ اپنا بستہ بھی میرے مضبوط شانے پر رکھ دیتی ۔ میں ہسی خوشی اس نازنین کے نازک علم کا بوجھ سنبھالے چلتا رہتا ۔ پھر اس کا گھر آنے پر علم کا ٹوکرا اس کے دروازے پر یوں رکھتا جیسے دل ناتواں کا نذرانہ اس کے حسین چرنوں میں رکھا ہو ۔ وہ ایک ادا سے مسکراتی اپنا ادھ کھایا چاکلیٹ میری طرف اچھال کر بڑے سے کالے گیٹ کے پیچھے گم ہو جاتی۔ سلسلہ عشق آگے بڑھنا شروع ہوا ہی تھا کہ ابے نے دیکھ لیا ۔ اففففف دایاں کان ابھی تک سرخ رہتا ہے ۔ اماں نے کئ دن سکائ کی لیکن درد نہ جاتا تھا ۔ میں منہ لپیٹ کر صحن میں لگے املی کے درخت کے نیچے لیٹا رہتا۔ پھر اماں کی منت سماجت سے سکول جانے کی اجازت ملی لیکن راستہ بدل دیا گیا ۔ دل افسردگی میں ڈوبا رہتا حالانکہ اماں کی شاگردوں کی دلجوئ بڑے کام آئ ۔ ام کلثوم اماں سے نظر بچا کےچوری کے دو نوالے بھی دے دیتی اور بدلے میں دائیں گال پر چٹکی بھی کاٹتی پر دل نامراد نظر نہ اٹھاتا۔ موئ گوشت کا پہاڑ نہ ہوتی تو شاید ایک آدھ کلی کھل جاتی لیکن ہائے ری قسمت ۔ ۔۔۔۔۔ کالج میں داخلہ ہوتے ہی میرے کمرے کے باہر لگی عشق پیچاں کی زرد بیل ہری ہونے لگی ۔ کالج چونکہ دوسرے شہر تھا تو علم حاصل کرنے کے لیے تگ و دو میں تیزی آ گئی ۔ قد کاٹھ بھی خوب نکل آیا ۔ تڑکے جب گھنگھریالے بالوں کو ماتھے پر ڈالے چٹی سفید قمیض اور خاکی پینٹ پہن کر میں گھر سے نکلتا تو گلی کے کونے تک روشن ہو جاتے ۔ ایک صبح تو کھڑک سے ایک پریم پتھر پاؤں میں آ گرا ۔ میں نے کان پر ہاتھ رکھ کر اپنے گھر کی طرف مڑ کر دیکھا مبادا ابے کی جاسوسی جوش نہ مار جائے ۔ میدان صاف پا کر میں نے کان پر رکھے ہاتھ سے پتھر اٹھا کر جیب میں رکھ لیا ۔ نقرئ گھنٹیاں بجی تھیں کہ وہ ہس پڑی تھی ۔ کچھ فیصلہ نہ ہو پایا ۔ سر اٹھا کر دیکھا تو گلابی ہتھیلی نظر آئ جو الوداعی انداز میں ہل رہی تھی۔ میں سمجھا گڈ بائے کہا جا رہا ہے مگر غور کرنے پر معلوم پڑا کہ چند ہندسے بتائے جا رہے ہیں ۔ میں نے دھڑکتے دل پر ہاتھ رکھا پھر جیب سے قلم نکال کر جلدی سے گلابی ہتھیلی کا پیام نوٹ کرنے لگا ۔ پورا نمبر لکھ کر شہادت کی انگلی اور انگوٹھے کو ملا کر اوکے کا سگنل دیدیا ۔ کالج کے گیٹ سے اندر جا کر چھ بار چوم کر پڑھا ۔ ساتویں بار پی ٹی ماسٹر نے دیکھ لیا ۔ اس سے پہلے کہ پریڈ میں شمولیت کی دعوت دی جاتی میں نے کلاس کی طرف دوڑ لگا دی۔ کرسی پر بیٹھ کر سب سے پہلے نمبر کاپی پر لکھا پھر ہتھیلی رگڑ رگڑ کر محبت کے اولین نقوش کو مٹا دیا ۔ سارا دن کیسے انتظار میں سوکھ سوکھ کر رک رک کر گزرا نہ پوچھیے ۔ چھٹی ہوتے ہی کالج کے ساتھ بنے پارک میں بیٹھ کر حارث سے ادھار مانگا ہوا موبائل آن کیا اور کانپتے ہاتھوں سے نمبر ملایا ۔ چوتھی بیل پر اٹھا لیا گیا ۔ دونوں طرف دھڑکنوں کا اتنا شور تھا کہ کچھ سجھائ نہ دے رہا تھا ۔ میں نے ہیلو کو تین بار دہرایا تو آگے سے سرگوشی نما ہیلو ابھرا۔۔۔۔۔ پھر کچھ کچل مچل سے الفاظ کانوں میں امرت کی طرح گھل گئے ۔۔۔۔۔۔ میں نے دل کڑا کے کہا ۔۔۔۔ حضور ذرا اونچا بولیے حسن کھنکتا ہوا ہو تو سارا جہاں رم جھم رم جھم ہونے لگتا ہے ۔۔۔۔۔۔ فرمانے لگی ۔۔۔۔۔۔ ابو جی کے چاہ بنا رہی ہوں رات آٹھ بجے چھت پر آ جانا ۔۔۔۔۔
فون بند ہو چکا تھا ۔ میں نے بدحواسی سے فون کو دیکھا۔۔۔۔۔۔ خدایا آٹھ کب بجتے ہوں گے کیسے بجتے ہوں گے ۔ معلوم نہیں یہ کیا بلا ہے عشق ۔
رات ٹھیک آٹھ بجے چھپتا چھپاتا چھت پر پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں ایک سرخ انچل دور چھت پر لہرا رہا ہے میں نے بھی گردن سے رومال نکال کر لہرا دیا ۔ وہ دھیرے دھیرے چھتیں پھلانگتی میری چھت پر آ گئ۔ سیکریٹ کی بھینی بھینی خوشبو چاروں اور پھیل گئ۔ سیاہ رات میں گورا بدن یوں دمک رہا تھا جیسے۔۔۔۔ جیسے۔۔۔۔ مجھے کوئ مثال سجھائ نہیں دے رہی کہ وہ کیا لگ رہی تھی۔ وہ آئ اور چھا گئ۔ میرے حواس کئی برس تک قابو میں نہ رہے ۔ تگنی کے اس ناچ میں روبینہ، سویرا، حلیمہ، زوبی اور نہ جانے کتنوں کی قطارتھی لیکن وہ سیاہ لباس کبھی نہ بھولا۔ حتیٰ کہ وہ نرس بن گئ اور عوام الناس کا علاج کرنے لگی اور اپنے بیمار کو بھول گئ۔
نور الہدیٰ شاہ