کن فیکون
تحریر۔۔ابدال ِ حق حضور قلندر بابا اولیاءؒ
قسط نمبر1
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز ناٹرنیشنل ۔۔۔کن فیکون۔۔۔۔ تحریر۔۔ابدال ِ حق حضور قلندر بابا اولیاءؒ)جس وقت اللہ تعالیٰ نے لفظ کُن کہا تو ازل سے ابد تک جو کچھ جس طرح اور جس ترتیب کے ساتھ وقوع میں آنا تھا، آگیا۔ ازل سے ابد تک ہر ذرہ، اس کی تمام حرکات و سکنات موجود ہوگئیں ۔ کسی زمانہ میں بھی انہی حرکات کا مظاہرہ ممکن ہے کیوں کہ کوئی غیر موجود، موجود نہیں ہو سکتا۔ یعنی کائنات میں کوئی ایسی چیز موجود نہیں ہو سکتی جو پہلے
سے وجود نہ رکھتی ہو ۔
انسان جب کسی زاویہ کو صحیح طور پر سمجھنا چاہتا ہے تو اس کی حیثیت غیر جانب دار یا عدالت کی ہوتی ہے اور وہ بحیثیت عدالت کبھی فریق نہیں ہوتا۔ عدالت کو مدعی اور مدعا علیہ کے معاملات کو صحیح طور پر سمجھنے کے لئے عدالت ہی کا طرز ذہن استعمال کرنا ہوتا ہے۔
اس کے معنی یہ ہوئے کہ ایک طرزِ ذہن فریق کا ہے اور ایک طرز ذہن عدالت کا ہے۔ ہر شخص کو طرزِ فکر کے دو زاویے حاصل ہیں۔ ایک زاویہ بحیثیت اہلِ معاملہ اور دوسرا زاویہ بحیثیت غیر جانب دار ۔ جب انسان بحیثیت غیر جانب دار تجس کرتا ہے تو اس پر حقائق منکشف ہو جاتے ہیں۔ تجس کی یہ صلاحیت ہر فرد کو ودیعت کی گئی ہےتاکہ دنیا کا کوئی طبقہ معاملات کی تفہیم اور صحیح فیصلوں سے محروم نہ رہ جائے۔
انسان کسی غیر جانب دار زاویہ سے حقائق کو سمجھنے کی کوشش کرے تو قانون لوح محفوظ کے تحت انسانی شعور ، لاشعور اور تحت لاشعور کا انطباعیہ نقش معلوم کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ انطباع وہ وہ نقش ہے ؟ ہے جو بصورت حکم اور بشکل تمثال * لوح محفوظ ( سطح کلیات) پر کندہ ہے۔ اس ہی کی تعمیل من وعن اپنے وقت پر ظہور میں آتی ہے۔
شعور کا یہ قانون ہے کہ اس دنیا میں انسان جتنا ہوش سنبھالتا جاتا ہے، اتنا ہی اپنے ماحول کی چیزوں میں انہماک پیدا کرتا جاتا ہے۔ اس کے ذہن میں ماحول کی تمام چیزیں اپنی اپنی تعریف اور نوعیت کے ساتھ اس طرح محفوظ رہتی ہیں کہ جب اسے ان چیزوں میں سے کسی چیز کی ضرورت پیش آتی ہے تو بہت آسانی سے اپنی مفید مطلب چیز تلاش کر لیتا ہے۔ معلوم ہوا کہ انسانی شعور میں ترتیب کے ساتھ زندگی کے مختلف شعبوں کے استعمال کی چیزیں اور حرکات موجود رہتی ہیں۔ گویا ماحول کا ہجوم انسانی ذہن میں پیوست ہے۔ ذہن کو اتنی مہلت نہیں ملتی کہ شعور کی حد سے نکل کر لاشعور کی حدمیں قدم رکھ سکے۔
یہاں ایک اصول وضع ہوتا ہے کہ جب انسان یہ چاہے کہ میرا ذہن لاشعور کی حدوں میں داخل ہو جائے تو اس ہجوم کی گرفت سے آزاد ہونے کی کوشش کرے۔ انسانی ذہن ماحول سے آزادی حاصل کر لینے کے بعد ، شعور کی دنیا سے ہٹ کر لاشعورکی دنیا میں داخل ہو جاتا ہے۔
ذہن کے اس عمل کا نام استغنا ہے۔ یہ استغنا اللہ تعالیٰ کی صفت صمدیت کا عکس ہے جس کو عرف عام میں انخلائے ذہنی * کہتے ہیں۔ اگر کوئی شخص اس کی مشق کرنا چاہے تو اس کے لئے کتنے ہی ذرائع اور طریقے ایسے موجود ہیں جو مذہبی فرائض کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان فرائض کو ادا کر کے انسان خالی الذہن ہونے کی مہارت حاصل کر سکتا ہے۔
تمثال (کسی چیز کو مثال کے ذریعے ٹکڑوں میں بیان کرنا)
انخلائے ذہنی (ذہن کا illusion خیالات سے خالی ہونا )۔۔۔جاری ہے۔
بشکریہ ماہنامہ قلندر شعورجنوری2023