ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز ناٹرنیشنل ۔۔۔کن فیکون۔۔۔۔ تحریر۔۔ابدال ِ حق حضور قلندر بابا اولیاءؒ)سلوک کی راہوں میں جتنے اسباق پڑھائے جاتے ہیں، ان سب کا مقصد بھی انسان کو خالی الذہن بناتا ہے۔ وہ کسی وقت بھی ارادہ کر کے خالی الذہن ہونے کا مراقبہ کر سکتا ہے۔ مراقبہ ایک ایسے تصور کا نام ہے جو آنکھیں بند کر کے کیا جاتا ہے۔ مثلاً انسان جب اپنی فنا کا مراقبہ کرنا چاہے تو یہ تصور کرے گا کہ میری زندگی کے تمام آثار فنا ہو چکے ہیں اور اب میں ایک نقطہ روشنی کی صورت میں موجود ہوں۔ یعنی آنکھیں بند کر کے یہ تصویر کرے کہ اب میں اپنی ذات کی دنیا سے بالکل آزاد ہوں۔ صرف اُس دنیا سے میرا تعلق باقی ہے جس کے احاطہ میں ازل سے ابد تک کی تمام سرگرمیاں موجود ہیں۔ چنانچہ کوئی انسان جتنی مشق کرتا جاتا ہے، اتنی ہی لوح محفوظ کی انطباعیت اس کے ذہن پر منکشف ہوتی جاتی ہے۔ رفتہ رفتہ وہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ غیب کے نقوش اس اس طرح واقع ہیں اور ان نقوش کا مفہوم اس کے شعور میں منتقل ہونے لگتا ہے۔ انطباعیت کا مطالعہ کرنے کے لئے صرف چند روزہ مراقبہ کافی ہے۔
جو” * تصوف کی زبان میں موجودات کا ایسا مجموعہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی صفات کے خدو خال پر مشتمل ہے۔ ” جو ” لوح دوئم کہلاتی ہے اس لئے کہ وہ لوح اول یعنی لوح محفوظ کے متن کی تفصیل ہے۔
لوح محفوظ کائنات کی تخلیق سے متعلق اللہ تعالی کے احکامات کا مجموعہ تصاویر ہے۔ کائنات کے اندر جو بھی حرکت واقع ہونے والی ہے، اس کی تصویر من و عن لوح محفوظ پر نقش ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ارادہ کا اختیار عطا کیا ہے۔ جب انسانی ارادوں کی
مراقبہ (Concentration) * جو (روحانیت کی ایک اصطلاح ہے۔ اس میں وہ حقائق بیان کئےجاتے ہیں جو تخلیق سے متعلق ہیں۔
مراقبہ (Concentration) * جو (روحانیت کی ایک اصطلاح ہے۔ اس میں وہ حقائق بیان کئے جاتے ہیں جو تخلیق سے متعلق ہیں۔
Scanned with CamScannerتصاویر لوح محفوظ کی تصاویر میں شامل ہو جاتی ہیں، اس وقت لوح اول، اوج دو تم کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اس ہی لوح دو تم کو صوفیا اپنی زبان میں ” جو ” کہتے ہیں یعنی لوح محفوظ پہلا عالم تمثال ہے اور جو دوسرا عالم تمثال ہے جس میں انسانی ارادے بھی شامل ہیں۔
پہلے اللہ تعالیٰ کی وہ تعریف بیان کرنا ضروری ہے جو قرآن پاک میں کی گئی ہے:
قل هو الله احد الله الصمد لم يلد ولم يولد ولم يكن له كفوا احد
ترجمہ –
اے پیغمبر ! کہ دیجئے اللہ ایک ہے۔ بے نیاز ہے۔ نہ کسی نے اس کو جنانہ اس نے کسی کو جنا۔ اور نہ اس کا کوئی خاندان ہے۔
یہاں اللہ تعالی کی پانچ صفات بیان ہوئی ہیں۔ پہلی صفت وحدت یعنی وہ کثرت نہیں۔
دوسری صفت بے نیازی یعنی وہ کسی کا محتاج نہیں۔ تیسری صفت یہ کہ وہ کسی کا باپ نہیں۔
چوتھی صفت یہ کہ وہ کسی کا بیٹا نہیں۔ پانچویں صفت یہ کہ اس کا کوئی خاندان نہیں۔یہ تعریف خالق کی ہے اور خالق کی جو بھی تعریف ہو گی، مخلوق کی تعریف کے برعکس
ہوگی۔ یا مخلوق کی جو بھی تعریف ہو گی، خالق کی تعریف کے برعکس ہوگی۔ اگر ہم خالق
کی تعریفاتی حدوں کو چھوڑ کر مخلوق کی تعریف بیان کریں تو اس طرح کہیں گے کہ خالق
وحدت ہے تو مخلوق کثرت ہے۔ خالق بے نیاز ہے تو مخلوق محتاج ہے۔ خالق باپ نہیں
رکھتا تو مخلوق باپ رکھتی ہے۔ خالق کا کوئی بیٹا نہیں لیکن مخلوق کا بیٹا ہوتا ہے۔ خالق کا کوئی
خاندان نہیں لیکن مخلوق کا خاندان ہونا ضروری ہے۔
بشکریہ ماہنامہ قلندر شعورجنوری2023