Daily Roshni News

کوئی بھی ملک زمین بیچ کر ترقی نہیں کرتا۔۔

کوئی بھی ملک زمین بیچ کر ترقی نہیں کرتا

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )کراچی میں ایک ریٹائرڈ سرکاری ملازم تھے۔ ساٹھ سال کی عمر میں جب ان کی پنشن شروع ہوئی تو انہوں نے بیٹی کی شادی کے لیے پیسے جوڑنے کا سوچا۔ بیٹا دبئی میں تھا، اس نے مشورہ دیا:

“ابا، ڈیفنس میں ایک چھوٹا سا پلاٹ لے لیں، تین سال بعد بیچ کر بیٹی کا جہیز بھی بن جائے گا اور کچھ بچت بھی ہو جائے گی۔”

بوڑھے نے زندگی کی آخری پونجی ڈیفنس کے ایک کنال کے پلاٹ پر لگا دی۔ دو سال بعد وہی پلاٹ دوگنے دام میں بکا۔ بیٹی کی شادی بھی ہو گئی اور ساتھ ہی بزرگ کی آنکھوں میں ایک نیا خواب پیدا ہو گیا کہ:

“زمین ہی سونا ہے..!”

یہ خواب 2000 سے 2022 تک پاکستان کے ہر دوسرے شخص نے دیکھا۔ کوئی راولپنڈی میں زمین خرید رہا تھا، کوئی لاہور میں، کوئی گوادر کی مٹی کو سونا سمجھ کر اس میں رقم دفن کر رہا تھا۔

اب آپ دل تھام لیجیے، کیونکہ میں آپ کو وہ سچ بتانے جا رہا ہوں جو ہم میں سے اکثر نہیں جاننا چاہتے۔

پچھلے پندرہ سال میں پاکستان میں ریئل اسٹیٹ صرف ایک صنعت نہیں رہی، یہ ایک نفسیات بن گئی۔ ہم نے ہر مسئلے کا حل “پلاٹ” میں ڈھونڈا۔

نوکری نہیں..؟

پلاٹ لے لو..!

دو سال بعد بیچ دو، لاکھوں کماؤ۔

کاروبار میں نقصان ہوا..؟

زمین میں پیسے لگا دو، پچھتاوے کی گنجائش نہیں۔

یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان کی 60 سے 70 فیصد دولت ریئل اسٹیٹ میں پھنسی ہوئی ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق، پاکستان کی جائیدادوں کی مالیت 300 سے 400 ارب ڈالر تک جا پہنچی ہے۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ تو زبردست بات ہے۔ اتنی بڑی مارکیٹ، اتنی دولت، اتنا روزگار۔ مگر ذرا رکیے..! یہ صرف ایک پہلو ہے۔

دوسرا پہلو وہ ہے جس پر ہم نے کبھی غور ہی نہیں کیا۔

جس ملک میں 50 فیصد سے زائد شہری کچی آبادیوں میں رہتے ہوں، وہاں اگر زمین سونے سے مہنگی ہو جائے تو اسے ترقی کہتے ہیں یا نابرابری..؟

ایک عام شہری کی آمدنی بمشکل 30 ہزار روپے ہے اور اوسط گھر کی قیمت 60 لاکھ سے اوپر، تو وہ کہاں جائے..؟

ریئل اسٹیٹ نے نہ صرف زمین کو مہنگا کیا بلکہ پورے معاشی نظام کو بگاڑ دیا۔ سرمایہ جو فیکٹریوں میں لگنا تھا، وہ پلاٹوں میں دفن ہو گیا۔ نوجوان جنہیں اسٹارٹ اپ بنانے تھے، وہ زمین کے کاروبار میں لگ گئے۔ بینک جو صنعتوں کو قرض دیتے تھے، اب پلاٹ خریدنے والوں کو دیکھنے لگے۔

ریئل اسٹیٹ کی یہ تلوار صرف چھوٹے کاروباروں پر ہی نہیں گری۔ ایک مکمل معیشت “زمین، سیمنٹ، سریا، اینٹ، بجری” کے گرد گھومنے لگی۔ 2020 میں جب حکومت نے “کنسٹرکشن امینسٹی” دی، تو صرف ایک سال میں 1794 نئی رئیل اسٹیٹ کمپنیاں رجسٹر ہوئیں اور 493 ارب روپے کا کالا دھن سفید ہو گیا۔ کیا یہ ترقی تھی یا نظام کی جیت..؟

آپ حیران ہوں گے کہ پاکستان میں فیکٹری، اسکول، اسپتال یا گھر کی “مورٹگیج ٹو جی ڈی پی” کی شرح صرف 0.3 فیصد ہے، جبکہ بھارت میں یہ 11 فیصد ہے، اور ملایشیا میں 30 فیصد سے اوپر۔ یعنی ہم زمین کو خریدتے تو ہیں، مگر معیشت کو اس سے کچھ نہیں ملتا۔

جب زمین کی قیمت بڑھتی ہے تو ہم خوش ہو جاتے ہیں، لیکن کسی نے یہ نہیں سوچا کہ دکان کے کرائے بھی بڑھتے ہیں، دفتر کا کرایہ بھی بڑھتا ہے، اور نتیجتاً کاروبار مہنگا ہو جاتا ہے۔ چھوٹے تاجروں کی کمر ٹوٹ جاتی ہے، لیکن ہم واہ واہ کرتے رہتے ہیں کہ:

“پلاٹ نے دگنا منافع دے دیا..!”

اور پھر جب یہ بلبلہ پھٹتا ہے، جیسا کہ 2023 میں ہوا، تو زمین کی قیمتیں 15 فیصد گر جاتی ہیں، لاکھوں افراد بیروزگار ہو جاتے ہیں، اور معیشت ایک بار پھر نیچے آ جاتی ہے۔

کراچی میں ایک پراپرٹی ایجنٹ نے مجھ سے کہا:

“سر، ہم تو روز دعا کرتے ہیں کہ کوئی نئی اسکیم لانچ ہو، کوئی نیا امینسٹی آئے، تاکہ بازار چلے۔ ورنہ تو کاروبار ختم ہو گیا ہے۔”

آپ خود سوچیے، جہاں معیشت دعاؤں پر چلنے لگے، وہاں ترقی کیسے آئے گی..؟

سچ تو یہ ہے کہ ہم نے ریئل اسٹیٹ کو معیشت کا مرکز بنا دیا ہے، حالانکہ یہ ہونا چاہیے تھا معیشت کا نتیجہ۔ جب معیشت مضبوط ہوتی ہے تو زمین کی قیمت بڑھتی ہے، نہ کہ زمین کی قیمت بڑھنے سے معیشت مضبوط ہوتی ہے۔

یاد رکھیے، کوئی بھی ملک زمین بیچ کر ترقی نہیں کرتا۔ زمین اگر سونا ہے، تو وہ تب تک قیمتی ہے جب تک اس پر کچھ اُگتا ہے. جب زمین صرف منافع کا ذریعہ بن جائے، تو وہ معیشت کا گڑھا بن جاتی ہے۔

آخر میں، ایک سوال چھوڑے جا رہا ہوں:

“کیا ہم ایک ایسے ملک کے باسی ہیں، جو اپنے بچوں کو کاروبار سکھانے کے بجائے پلاٹ خریدنے کا مشورہ دیتا ہے..؟”

اگر ہاں، تو پھر اگلے 15 سال بھی پچھلے 15 سال جیسے ہی ہوں گے. زمین تو مہنگی ہو گی، لیکن زندگی سستی ہوتی جائے گی..!!

Loading