کیا انسانوں کے قدیم ancestors کی دم تھی؟ آخر دم کہاں گئی؟
تحریر۔۔۔ مزمل عالی جاہ
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ تحریر۔۔۔ مزمل عالی جاہ )انسان (Homo sapiens) کے دور بار کے اجداد کے پاس دُم تھی، جی ہاں! لیکن دُموں کی کہانی ہماری ارتقائی تاریخ میں گہرائی تک جاتی ہے۔ یہ جاننے کے لیے کہ انسانوں کے قدیم ancestors میں دُم کیوں ختم ہوئی، ہمیں اپنی ارتقائی جڑوں میں جانا ہوگا۔ فقاریوں (vertebrates) کی قدیم تاریخ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دُم ایک ابتدائی اور اہم ساخت تھی جو حرکت، توازن، اور بعض اوقات مواصلات کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ جب ہم ابتدائی vertebrates کی بات کرتے ہیں، تو ان میں مچھلیوں اور (amphibians) کا ذکر آتا ہے، جو اپنی دُم کا استعمال پانی میں حرکت کے لیے کرتے تھے۔ یہ دُمیں لاکھوں سال پہلے وجود میں آئیں اور بہت سی vertebrates نسلوں میں برقرار رہیں۔
انسانوں کے قدیم آباواجداد کی دم ہونے کا تعلق ارتقائی عمل سے ہے۔ انسان کی ارتقائی کہانی لاکھوں سالوں پر محیط ہے، جس میں انسان کا جسمانی ڈھانچہ مختلف مراحل سے گزرا ہے۔ انسانوں کے قدیم ترین آباؤ اجداد، جو تقریباً 50 سے 60 ملین سال پہلے رہتے تھے، ابتدائی بندر نما مخلوقات تھیں۔ ان کے جسم پر ایک نمایاں دم ہوا کرتی تھی، جو انہیں درختوں پر توازن قائم رکھنے اور چھلانگیں لگانے میں مدد دیتی تھی۔
لیکن جب زمین پر زندگی گزارنے کا رجحان بڑھا اور یہ مخلوقات زمین پر زیادہ وقت گزارنے لگیں، تو ارتقائی عمل کے نتیجے میں دم کی ضرورت کم ہوتی گئی۔ زمینی ماحول میں نقل و حرکت اور بقا کے لیے زیادہ اہم اعضا جیسے ہاتھ اور پاؤں کا ارتقا ہوا، اور دم کی افادیت رفتہ رفتہ کم ہوتی چلی گئی۔ تقریباً 25 ملین سال پہلے بندروں اور انسانوں کے مشترکہ اجداد میں دم کی لمبائی کم ہونا شروع ہوئی۔
آخر کار، تقریباً 20 لاکھ سال پہلے کے قریب، جب انسانی نسل نے مزید ارتقائی مراحل طے کیے اور جدید انسانوں (ہومو سیپینز) کی طرف ترقی کی، دم تقریباً مکمل طور پر ختم ہوگئی۔ آج، انسانی جسم میں دم کی نشانی کے طور پر “کوکسکس” یا “ٹیل بون” موجود ہے، جو ہمارے ارتقائی ماضی کی ایک یادگار ہے۔ یہ چھوٹی سی ہڈی انسانی جسم میں دم کے وجود کی یاد دلاتی ہے لیکن اب اس کا کوئی عملی فائدہ نہیں ہے۔ اس طرح، دم کا خاتمہ ارتقائی ضرورت کے تحت ہوا، جس میں لاکھوں سال لگے اور انسانی جسم بدلتے ہوئے ماحول اور بقا کی ضروریات کے مطابق ڈھلتا گیا۔
جب ہم ارتقائی تاریخ کے سفر پر چلتے ہیں، تو دُم کا کردار بہت سی انواع میں تبدیل ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ ممالیہ (mammals) کی بات کریں تو بلیوں، کتوں، اور بہت سے دوسرے جانوروں میں دُمیں توازن برقرار رکھنے، مواصلات کرنے، اور کیڑوں کو بھگانے جیسے کام کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر، بلی اپنی دُم کو مختلف طریقوں سے حرکت دیتی ہے تاکہ اپنے جذبات یا رویے کا اظہار کر سکے۔ اسی طرح بندر اور لنگور اپنی دُم کا استعمال درختوں پر جھولنے اور توازن برقرار رکھنے کے لیے کرتے ہیں۔
لیکن انسانوں کے قدیم ancestors میں دُم کا غائب ہونا ارتقا کے ایک خاص موڑ پر ہوا، جب ہمارے ابتدائی اجداد بندر نما (apes) کی ایک شاخ میں تبدیل ہوئے۔ تقریباً 20 سے 25 ملین سال پہلے، وہ ارتقائی لکیر جس سے بندر اور انسان پیدا ہوئے، الگ ہو گئی۔ بندر اپنی دُمیں برقرار رکھے ہوئے ہیں، جبکہ بندر نما جانوروں نے اپنی دُمیں کھو دیں۔ دُم کا غائب ہونا ایک ارتقائی تبدیلی کا نتیجہ تھا، جہاں جسمانی خصوصیات ماحول اور ضرورت کے مطابق تبدیل ہوئیں۔
حالیہ سائنسی تحقیقات سے یہ معلوم ہوا ہے کہ بندر نما جانوروں میں دُم کے غائب ہونے کی وجہ جینیاتی تبدیلیاں تھیں۔ نیویارک یونیورسٹی لینگون ہیلتھ کے محققین نے 2024 میں ایک اہم جینیاتی تبدیلی کی نشاندہی کی جو دُم کے غائب ہونے میں بڑا کردار ادا کرتی ہے۔ انہوں نے AluY ریٹروٹرانسپوزون نامی ایک چھوٹے ڈی این اے کا ٹکڑا دریافت کیا، جو ابتدائی بندر نما جانوروں کے جینوم میں داخل ہو گیا تھا۔ اس تبدیلی نے TBXT جین کو متاثر کیا، جو دُم کی نشوونما کے لیے اہم تھا۔ جب انہوں نے دُم والے بندروں اور بغیر دُم والے بندر نما جانوروں کے جینومز کا موازنہ کیا، تو یہ جینیاتی خلل دُم کے غائب ہونے کی ایک بڑی وجہ کے طور پر سامنے آیا۔
محققین نے CRISPR جین ایڈیٹنگ ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے اس جینیاتی تبدیلی کو چوہوں کے جنین میں دہرایا۔ ان چوہوں میں بھی دُم نہیں تھی، جس سے یہ ثابت ہوا کہ AluY کا داخلہ دُم کے ارتقائی نقصان کا ایک اہم سبب تھا۔ یہ تحقیق اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ کس طرح چھوٹی جینیاتی تبدیلیاں بڑی جسمانی تبدیلیوں کا سبب بن سکتی ہیں، جیسا کہ دُم کا غائب ہونا۔
انسانوں میں دُم کی باقیات جنینی ترقی کے دوران دیکھنے کو ملتی ہیں۔ حمل کے پانچویں ہفتے میں انسانی جنین میں ایک عارضی ڈھانچہ پیدا ہوتا ہے جو دُم کی طرح ہوتا ہے، لیکن آٹھویں ہفتے تک یہ ڈھانچہ جسم میں جذب ہو جاتا ہے اور صرف کُکسیس (coccyx) یا “ٹیلبون” باقی رہ جاتا ہے۔ کُکسیس وہ ساخت ہے جو کبھی دُم ہوا کرتی تھی اور اب بھی انسانی جسم کا حصہ ہے، حالانکہ اس کا کوئی خاص کام نہیں ہے۔ آج، کُکسیس پٹھوں، لیگامینٹس، اور دیگر ڈھانچوں کو سہارا دینے کے لیے ایک مقام کے طور پر کام کرتا ہے، اور جسمانی کرنسی اور پیلوک (pelvic) اعضا کی حمایت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
ارتقائی نقطۂ نظر سے دُم کا غائب ہونا ایک اہم موڑ تھا۔ جیسے جیسے ابتدائی بندر نما جانور نئے ماحول میں ڈھلتے گئے، ان کی جسمانی خصوصیات میں تبدیلیاں آئیں۔ ایک مفروضہ یہ ہے کہ جب بندر نما جانور سیدھے کھڑے ہونے اور دو پیروں پر چلنے کی طرف مائل ہوئے، تو انہیں توازن برقرار رکھنے کے لیے دُم کی ضرورت کم ہو گئی۔ چار ٹانگوں والے جانوروں میں دُم حرکت کے دوران توازن قائم کرنے میں اہم ہوتی ہے، لیکن سیدھے کھڑے ہونے والے جانوروں نے ممکنہ طور پر دُم کے بغیر بھی توازن قائم کرنے کے نئے طریقے اپنائے۔
کچھ محققین کا یہ بھی خیال ہے کہ دُم کا غائب ہونا چوٹ اور انفیکشن کے خطرے کو کم کرنے کے لیے مفید ثابت ہو سکتا تھا۔ ابتدائی بندر نما جانور گنجان جنگلات میں رہتے تھے، جہاں دُم ایک غیر ضروری ساخت ہو سکتی تھی۔ دُمیں شاخوں میں پھنس سکتی تھیں یا گرنے کے دوران زخمی ہو سکتی تھیں، اس لیے دُم کا نہ ہونا ارتقائی طور پر فائدہ مند ہو سکتا تھا۔
ایک اور امکان یہ ہے کہ دُم کا غائب ہونا ارتقائی عمل میں ایک غیر جانبدار تبدیلی تھی، یعنی اس نے نہ تو کسی فائدے کا اضافہ کیا اور نہ ہی نقصان پہنچایا۔ ارتقا ہمیشہ کسی خاص فائدے کی طرف نہیں بڑھتا؛ بعض اوقات تبدیلیاں اس لیے برقرار رہتی ہیں کیونکہ وہ جاندار کی بقا یا تولیدی کامیابی میں رکاوٹ نہیں بنتیں۔ AluY جینیاتی تبدیلی شاید ایک بے ترتیب واقعہ تھا جو بندر نما جانوروں کی آبادی میں بغیر کسی خاص فائدے یا نقصان کے پھیل گیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ دُم کا غائب ہونا ارتقا کے ایک بڑے نمونے کی عکاسی کرتا ہے، جہاں جسمانی ڈھانچے جو کبھی مفید تھے، اپنی ابتدائی شکل میں برقرار رہتے ہیں۔ جیسے کُکسیس ایک دُم کی باقیات ہے، اسی طرح انسانی جسم میں دیگر غیر ضروری ڈھانچے بھی ہیں۔ مثلاً عقل کے دانت اور اپینڈکس، یہ اعضاء کبھی ہمارے اجداد کے لیے ضروری تھے لیکن آج کے دور میں ان کی افادیت کم ہو گئی ہے۔
اگر ہم انسانی ارتقا کی مزید باریک بینی سے تحقیق کریں، تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ دُم کا غائب ہونا جسمانی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ تھا۔ ابتدائی انسان اور ان کے اجداد جیسے Homo erectus اور Australopithecus نے دو پیروں پر چلنا سیکھا۔ یہ عمل تقریباً 40 لاکھ سال پہلے شروع ہوا اور اس نے دُم کی ضرورت کو کم کر دیا۔ دو پیروں پر چلنا ایک بڑا ارتقائی فائدہ تھا کیونکہ اس سے انسان اپنے ہاتھوں کو آزادانہ طور پر استعمال کر سکتے تھے، جو اوزار بنانے اور استعمال کرنے میں مددگار ثابت ہوا.انسانوں میں دُم کا غائب ہونا ارتقا کے اس عمل کی ایک اہم مثال ہے، جہاں جسمانی تبدیلیاں جانداروں کی بقا اور نئے ماحولیاتی مواقع کے مطابق ڈھلنے کی کوشش میں ہوتی ہیں۔