جنگل میں لوگ اکثر ایک جانور کو دیکھتے ہی گولیاں چلا دیتے ہیں، اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اسے مار کر اس کا گوشت بھی استعمال نہیں کرتے۔ نہ وہ ان کے دسترخوان کا حصہ بنتا ہے، نہ اس کی کھال قیمتی سمجھی جاتی ہے، پھر بھی اسے دیکھتے ہی لوگ چِڑ جاتے ہیں۔ ایسا صرف پاکستان ہی نہیں، دنیا کے کئی خطوں میں ہوتا ہے۔
اور وہ جانور ہے — سور یا خنزیر۔
ایسا ہی ایک واقعہ کچھ عرصہ قبل پیش ایا۔ایک صاحب اپنے دوستوں کے ہمراہ شکار کھیلنے گئے۔۔وہاں انہیں ایک سور نظر ایا جس کے پیچھے گاڑی دوڑائی گئی اور اسے گولی مار کر شکار کر لیا گیا۔۔ ان سے سوال کیا گیا کہ اس شکار کے بعد اپ نے اس جانور کا کیا کِیا؟ وہ بولے کچھ نہیں بس تصویریں بنا کے وہاں سے نکل گئے۔۔جب انہیں یہ بتایا گیا کہ آپ نے بلا وجہ شکار کر کے ایک جانور اور اس کے بچوں پہ ظلم کیا۔۔تو انہوں نے انتہائی حیرت انگیز جواب دیا وہ بولے یہ تو نیکی کا کام ہے۔سور کو مارنا ثواب ہے۔۔ان کے کچھ ساتھی بھی اس بات کے ہم خیال نکلے۔۔ان کے اس بیانات کی صورت میں ایک بہت افسوسناک حقیقت سامنے آئی کہ پڑھے لکھے لوگ بھی ان نظریات کی پیروی کر رہے ہیں جن کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔۔
دوستو کسی جانور کو مارنا اس صورت میں درست ہے جب وہ آپ کے جان مال یا اپ کی محنت کے لیے خطرہ بن رہا ہو۔۔جنگل میں رہنے والے جانور وہاں کے ایکو سسٹم کا حصہ ہوتے ہیں۔۔بہت سے جانور اپنے بچوں کے لیے خوراک کی تلاش میں نکلے ہوئے ہوتے ہیں انہیں شکار کرنے کا مطلب ان کے بچوں کو بھی موت کے منہ میں دھکیل دینا ہے۔۔۔
پڑھے لکھے لوگوں کے ایسے نظریات نے کئی سوالات کھڑے کردییے ہیں۔اور ہم اب اس بات کا جائزہ لینے پہ مجبور ہوئے ہیں کہ یہ نظریات مذہب، سائنس اور انسانی شعورسے کس حد تک مطابقت رکھتے ہیں۔
اسلام میں تمام جانداروں کی حفاظت پر زور دیا گیا ہے، اور بلاوجہ کسی جانور کو مارنا یا ایذا دینا گناہ قرار دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ اللہ کی ہر مخلوق اپنے ایک خاص کام پر مامور ہے۔
اسلام دینِ فطرت ہے۔ اسلام نے بعض دوسرے جانوروں کی طرح سور کا گوشت کھانے سے بھی منع کیا ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: “تم پر حرام کیا گیا مردار، خون اور سور کا گوشت۔”
اللہ تعالیٰ کا یہ حکم بلاوجہ نہیں ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق سور کی ہاضمہ نالی بہت سست ہوتی ہے، جو زہریلے اجزا کو جسم میں جمع کر لیتی ہے۔ اس کے گوشت سے کئی خطرناک بیماریاں پیدا ہو سکتی ہیں۔
سور کے گوشت کے نقصانات ایک الگ موضوع ہیں۔۔اس پر ہم آگے تفصیل بتائیں گے۔۔
دوستوابھی ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ماضی میں لوگوں نے سنا کہ یہ منحوس ہے، اس کا گوشت حرام ہے، تو انسان نے اس سے ہٹ کر بھی بہت کچھ فرض کرلیا۔۔اور اس جانور سمیت کئی جانورلائقِ نفرت اور لائقِ سزا ٹہرے۔۔
آئیں سور کی حیاتیاتی ساخت کے بارے میں جانیں۔۔
سور ایک ممالیہ جانور ہے جو حیاتیاتی طور پر Suidae نامی خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ خاندان Artiodactyla آرڈر کا حصہ ہے، جس میں وہ جانور شامل ہوتے ہیں جن کے پاؤں جُفت کھُروں والے ہوتے ہیں، جیسے گائے، بھیڑ، اور ہرن۔
سور یا خنزیر کو قدرت نے کس کام پر مامور کیا ہے؟
یہ جانورقدرتی نظام میں ایک صفائی کرنے والے جاندار کے طور پر کردار ادا کرتا ہے۔ یہ زمین کھود کر جڑیں، کیڑے مکوڑے، گرے ہوئے پھل، اور گل سڑ جانے والا مواد کھاتا ہے، یوں یہ ماحول کو گندگی سے صاف کرنے میں مدد دیتا ہے۔ یہ تعفن زدہ مواد بھی کھا کر فضا کو صاف کر دیتا ہے۔خنزیر زمین کھود کر اسے ہوا دار بھی بناتا ہے۔ یہ وہ چیزیں بھی کھا لیتا ہے جو دیگر جانور نہیں کھاتے۔ یوں یہ جانور ہمارے جنگلوں، دیہات، اور ماحول کو خطرناک آلودگی، امراض اور جراثیموں سے محفوظ رکھتا ہے۔
دنیا میں کچھ خطوں میں سور کا گوشت کھایا جاتا ہے۔۔یہ طبی لحاظ سے انتہائی خطرناک غزا ہے۔۔سور کے گوشت میں کئی ایسے طفیلی کیڑے پائے جاتے ہیں جیسے Trichinella Spiralis، جو انسانی جسم میں داخل ہو کر پٹھوں اور دماغ پر حملہ کر سکتے ہیں، اور شدید درد، بخار، اور کمزوری کا باعث بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ، ہیپاٹائٹس E، سوزش، اور فوڈ پوائزننگ جیسی بیماریاں بھی سور کے گوشت سے منسلک ہیں۔ تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ سور کے گوشت میں پائے جانے والے کچھ وائرس اور بیکٹیریا انسانی جسم میں جا کر طویل مدتی بیماریوں کی بنیاد بن سکتے ہیں، جیسے جگر کے امراض یا نیورولوجیکل مسائل۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے انسان کو ان جانوروں کو بطور غذا اپنانے سے روکاہے۔
سورکے گوشت کا سنگین نقصان ہم نے جانا۔۔اب بات کریں کچھ افواہوں اوروہم کی۔۔مثال کے طور پر، سور کے بارے میں یہ بات بھی مشہور ہے کہ اس کا نام لینا بھی گناہ ہے۔یا زبان ناپاک ہوجاتی ہے۔اسلام ایسی باتوں کو سپورٹ نہیں کرتا۔۔خاص طورپر وہم کو تو اسلام میں شیطانی وسوسہ قراردیاجاتاہے۔۔
صرف سور ہی نہیں، ہم نے کئی دوسرے جانوروں کے بارے میں بھی عجیب و غریب وہم پال رکھے ہیں۔۔ بلی راستہ کاٹ جائے تو منحوس، الو نظر آ جائے تو کچھ برا ہوگا، کوّا بولے تو مہمان آئیں گے۔ یہ سب وہم ہیں، افسانے ہیں، جن کی نہ کتاب سے تصدیق ہوتی ہے، نہ عقل سے۔
دوستو:؛ تمام جاندار اللہ کی پیدا کردہ مخلوق ہیں۔۔اور دنیا میں کوئی تنکا یا مٹی کا زرہ بھی اللہ نے بلاوجہ پیدا نہیں کیا ہے۔۔اس لیئے کسی بھی جانورسے متعلق نظریات! دشمنی یا نسل کشی میں، نہیں بدلنا چاہیئیں۔۔اس کی بنا پر جانوروں کی نسل کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔۔اور دنیا کا ایکو سسٹم بھی خطرے سے دوچار ہو سکتا ہے۔